2سوارب روپے کے اخراجات کے تخمینے پر مشتمل ای وی ایم سے
انتخابات کرانے کا منصوبہ پیچیدہ اور ناقابل عمل ہوتا جارہا ہے۔ الیکشن
کمیشن آف پاکستان اور حزب اختلاف کو حکمراں جماعت مطمئن کرنے میں تاحال
کامیاب نہیں ہوسکی، تاہم وقت مقررہ پر انتخابات کا انعقاد بھی ضروری ہے
تاکہ قانون سازاراکین پارلیمنٹ، عوامی مفاد عامہ سے متعلق آئین سازی کرسکیں
لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا، دونوں ایوانوں کے کسی بھی سیشن یا مشترکہ
اجلاس کا مشاہدہ کرلیں تو ایک دوسرے کے خلاف الزامات، عدم برداشت اور ایوان
کو اکھاڑا بنانے کے مناظر زیادہ تر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ المیہ کہ دونوں
ایوان قانون سازی کے لئے قریباََ غیر فعال ہیں ، اس صورت حال سے عوام مطمئن
نہیں، حکومت نے حزب اختلاف سے معاملات مشاورت سے طے کرنے کا عندیہ دیا تو
تھا لیکن انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی سے سینیٹ میں بھیجوا دیا گیا،
90دن میں سینیٹ بل پر فیصلہ نہیں کرپانے کی وجہ سے مشترکہ اجلاس میں بل پیش
کرنے کی منظوری دی گئی۔ انتخابی اصلاحات پر مشاورت و قانون سازی کے لئے
ایوان میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کا کردار ہی اہم نہیں بلکہ الیکشن کمیشن میں
رجسٹرڈ سیاسی جماعتو ں کا اعتماد بھی حاصل کرنا ناگزیر ہے، سہ فریقی جماعتی
نظام کا تاثر زائل کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنا
چاہے، جب تک انتخابی عمل میں شریک ہونے والی سیاسی اکائیوں کو ایک صفحے پر
نہیں لایا جاتا، کوئی بھی جماعت صرف اس لئے فیصلہ نہیں کرسکتی کہ وہ
پارلیمان اکثریتی قوت اور ایسے عددی برتری حاصل ہے۔
2018میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد10کروڑ59لاکھ60ہزار تھی،ٹرن آؤٹ 51.82فیصد
رہا یعنی5کروڑ 49لاکھ8ہزار472ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
قریباََ47.18فیصد ووٹرز انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے۔ 2018کے عام انتخابات
کا ٹرن آؤٹ گذشتہ تین انتخابات کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ پی ٹی آئی نے قومی
اسمبلی کے انتخابات میں ایک کروڑ 68لاکھ 60ہزار675 ووٹ حاصل کئے جبکہ پی
ایم ایل(ن) نے ایک کروڑ 29لاکھ 35ہزار236ووٹ،پی پی پی نے
69لاکھ13ہزار410ووٹ،آزاد امیدواروں نے60لاکھ60ہزار، مجلس عمل نےَ25لاکھ69
ہزار971ووٹ،ٹی ایل پی(کالعدم) نے 22 لاکھ 34ہزار 338 ووٹ،جے ڈی اے نے 11
لاکھ 93 ہزار 444 ووٹ، اے این پی نے مجموعی طور پر 8 لاکھ 15 ہزار 993 ووٹ،
ایم کیو ایم پاکستان نے 7 لاکھ 31 ہزار 794 ووٹ، ق لیگ کو مجموعی طور پر 5
لاکھ 17 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کئے۔
پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کے لیے حاصل کردہ ووٹوں کو
یکجا کیا جائے تو تعداد تقریباً 3 کروڑ 66 لاکھ 49 ہزار271 بنتی ہے یعنی
عام انتخابات میں ڈالے گئے 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 472 ووٹوں میں سے 66 فیصد
ووٹ ان تین جماعتوں کے حصے میں گئے۔ان اعداد و شمار سے ایک کروڑ 68لاکھ
60ہزار675 ووٹ پی ٹی آئی کے نکال دیئے جائیں تو ایک کروڑ 97لاکھ
88ہزار596ووٹ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے ہیں۔پی ٹی آئی کے مقابلے میں
دیگر جماعتوں مجموعی طور پر زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کئے، تاہم سربراہ مملکت
کا فیصلہ نشستوں کی بنیاد پر ہوتا ہے اس لئے مجموعی پاپولر ووٹ کم حاصل
کرنے کے باوجود پی ٹی آئی اتحادیوں کی مدد سے حکمراں جماعت بنی، جمہوریت
میں بندے گنے جانے کے اصول کے تحت اس وقت اکثریت پر اقلیت حکومت کررہی ہے
لیکن نظام کا انصرام ایسا ہے کہ عددی بنیادوں کے بجائے نشستوں کی اکثریت پر
فیصلہ ہوتا ہے، اس لئے پی ٹی آئی نشستوں اور انفرادی حاصل کردہ ووٹ کی
بنیاد پر اکثریتی جماعت ہے۔
پارلیمان میں حکمراں جماعت کے علاوہ دو بڑی جماعتیں ایک سیاسی وجود رکھتی
ہیں یعنی ملک میں سہ فریقی جماعتوں کا رسوخ ہے جو بتدریج دو جماعتی نظام
میں ڈھلنے جارہا ہے۔ جس قسم کے بیاینے گذشتہ3 برسوں میں سامنے آئے اس سے ان
شبہات کو تقویت مل رہی ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام کو عوام کے مسائل کا حل
نہیں سمجھا جارہا۔ انتخابات کے بعد سیاسی جوڑ توڑ اور سیاسی وفاداریوں کو
خریدنے کا عمل اور ہارس ٹریڈنگ جیسے معاملات عوام کے سامنے ہیں، خفیہ ووٹ
اور حکومت بنانے کے لئے بیساکھی کو ختم کرنے کے لئے براہ راست ووٹ کے ذریعے
سربراہ حکومت انتخاب گنجلگ و متنازع عمل بھی ہے۔ امریکی صدر کے انتخاب کے
لئے مشکل ترین انتخابی نظام اس کی بدترین مثال ہے۔ بادیئ النظر براہ راست
انتخاب کے طریق کار کو آزمانے کے لئے بلدیاتی نظام میں تجرباتی طور پر
آزمانے کی اطلاعات ہیں۔
سیاسی جماعتیں انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم میں صرف ایک پہلو پر توجہ زیادہ
مرکوز رکھتی ہیں کہ کسی بھی طرح وہ نشست جیت کر نمبر گیم بنا لیا
جائے۔خصوصی نشستوں پر ٹیکنو کریٹس وغیرہ کو کامیاب تو کرایا جاتا ہے لیکن
انہیں وزارتیں دینے کا رجحان کم دیکھنے میں آیا ہے۔ اہم وزراتوں پر تقرر
کرکے قابل کابینہ بنانے کے لئے موجودہ نظام میں خصوصی نشستوں کا کوٹہ سسٹم
موجود ہے جس میں وہ اپنے قابل پارٹی امیدواروں کو منتخب کرواکر کابینہ کا
حصہ بناسکتے ہیں لیکن غیر منتخب نمائندوں کا انتخاب خود عوام سے منتخب
اراکین اسمبلی میں بے چینی اور مایوسی کا سبب بھی بنتا ہے کہ ایک تو انہوں
نے برسہا برس عوام میں جگہ بنانے کے لئے محنت کی،گلی محلوں میں دن رات ایک
کرکے کارنر میٹنگزمیں بڑے بڑے وعدے دعوے کئے، جلسے جلسوں اور ریلیوں میں
قائدین کو بلانے اور کارکنان کو جمع کرنے کے لئے قوتیں صرف کیں، بھاری
اخراجات اورمخالفین سے دشمنیاں مول لیں لیکن جب ثمرات ملنے کا موقع آتا ہے
تو اُن کی جگہ ایسی غیر سیاسی شخصیات کابینہ کا حصہ بن جاتے ہیں، جن کے
اخراجات کہیں اور ہوئے اور وہ عوام کو بھی جواب دہ نہیں ہوتے بلکہان کے
درمیان جانے کی کبھی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ صاف و شفاف الیکشن کا
انعقاد بہت ضروری ہے بالکل اسی طرح قابل اور اہل نمائندوں کا انتخاب بھی
ناگزیر ہے جو امور مملکت کو چلانے کی ٹیکنکل اہلیت اور مہارت بھی رکھتے
ہوں۔ انتخابی عمل کو صاف و شفاف بنانا گنجلگ و دشوار گذار مرحلہ ہے، دنیا
کے کئی ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں عوام کو انتخابی عمل پر اعتماد
بھی ہے اور تحفظات بھی، اس لئے ممکن نہیں کہ کوئی بھی جمہوری نظام خامیوں
سے پاک ہو۔
|