محترم قارئین کرام:ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں گالی دینے
پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ۔۔۔ہاں مگر سوال پوچھنے پر ضرورکیس درج
ہوجاتا ہے۔۔۔۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میں یہ کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ دراصل
دوستو ملک عزیز بھارت میں پچھلے ۷ سے ۸ سالوں کے درمیان صحافت کا گلا
گھونٹا جارہا ہے۔ سچ بولنے والے سچ لکھنے والے اور سچ دکھانے والوں کو یا
تو ماردیا جاتا ہے یا پھر اتناHarashmentکیا جاتا ہے کہ صحافی خودمر جاتا
ہے۔ اسی لئے میں نے کہا کہ یہاں گالی دینا آسان ہے مگر سوال پوچھنا مشکل
ہے۔ کسی بھی صحافی کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا سوال ہوتا ہے لیکنبھارت جیسے
ممالک میں جب کوئی صحافی سوال کے ہتھیار کا بے دریغ استعمال کرنے لگے تو
پھر اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ خود خبر بن جاتا ہے۔یہ سوال اتنا
خطرناک ہوتا ہے کہ اس کے ڈر سے آج تک ہمارے وزیراعظم مودی جی نے ایک بھی
پریس کانفرنس نہیں کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انہی سوالوں سے بچنے کے لئے گودی میڈیانے اس ملک میں جنم لیا
ہے۔
حکومت کی غیر ضروری اور بے جا پالیسیوں کو منظر عام پر لانا ،عام عوام کے
حق کی بات کرنا ،سچ دکھانا سچ بولنا اور سچ لکھنے والوںکو اب اس ملک میں
مجرم قرار دیاجارہا ہے۔بجرنگ دل آر ایس ایس اوروشو ہندو پریشد کے ساتھ مل
کر بی جے پی نے میڈیا کو خرید لیا ہے۔جس کے بعد سچ بولنے والے صحافیوں کو
نکال دیا گیا ہے۔ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے والے ،دن کو رات کہنے والے ،
سفید کو کالا کہنے والے چاٹو کر صحافیوں(دلالوں) کی ایک فوج تیا رہوچکی ہے۔
جو چاٹوکری میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی
گھن آنے لگی ہے۔سنسنی خیز سرخیاں اور بریکنگ نیوز بنانے کے لئے بے بنیاد
اور جھوٹی خبر بنانے سے بھی یہ نہیں چوکتے۔ صحافت کے سارے اصولوں کو ختم
کرتے ہوئے حکومت کی ہر طرح کی مدح سرائی اور ستائش کرنا ہی ان کی نگاہ میں
صحافت ہے۔اس گودی میڈیا نے صحافت کی ساری شاندار روایات اور خصوصیات کو ختم
کر دینے کے در پہ ہے۔ہر محاذ پر ناکام ہوچکی مودی اینڈ کمپنی حکومت شروع دن
سے ہی سوالوں کے گھیرے میں ہیںلیکن مسئلہ یہ ہے کہ آخر سوال کریں تو کس سے
کریں۔کیونکہ سوال پوچھنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا نا۔۔۔اور ویسے بھی یہ
کام تو گودی میڈیا نے آسان کردیا ہے ۔
اس لئے آپ دیکھ رہے ہوںگے کہ تباہ ہوتے ملک کی اصل تصویر گودی چینلوں پر
بالکل بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ کرائے کے ٹٹوئوں کو خریدکرہندو مسلم جھگڑوں
کو بڑھانے کے سوائے اور کچھ کام انجام نہیں دیا جارہا ہے۔
اب جبکہ اتنے خطرناک ماحول میں مودی اینڈکمپنی سے ڈرے بغیرببانگ دہل حکمت
کے ساتھ سچائی بتارہے ہیںجن میں خاص طور پر این ڈی ٹی وی اور ایک دو چینل
ہی شامل ہیں۔جنہیں ڈرا دھمکاکر دیکھا گیا ۔ ان کے اشتہارات بن کرکے دیکھا
گیا ان کے آفسیس پر توڑ پھوڑ کرائی گئی لیکن پھر بھی سچ بولنے میں ذرا
برابر بھی کمی نہیں تو ان چاٹوکروں نے سوچا کہ کیوں نہ چینل کے راستوں کو
بند کردیا جائے جو لوگوں تک پہنچتا ہے۔ یعنی کہ بھارت میں جوڈش ٹی وی اور
پرائیوٹ چینل پہنچانے والی ایجنسیاں،کیبل لائنس یا کمپنیاں ہیں ان راستوں
سے ہی چینل کو ہی کیوں نہ ہٹادیا جائے۔ لہذا Hathwayبراڈ کاسٹنگ کمپنی کو
ریلائنس نے خریدلیا ہے اور خریدنے کے بعد آر ایس ایس کے اشاروں پر چلتے
ہوئے سب سے بڑا اور اہم کام یہ کیا ہے کہ ہیتھوے سے این ڈی ٹی وی کو ہی ختم
کردیا ہے۔ یعنی ہیتھوے کے ذریعے جولوگ ٹی وی دیکھتے ہیں اب ان کو این ڈی ٹی
وی دیکھنے اور سننے کے لئے نہیں ملے گا۔ستتا دھاریوں کی پول کھولنے والا
رویش کمار کا خاص پروگرام پرائم ٹائم بھی دیکھنے نہیں ملے گا۔
اس بات کی اطلاع خود این ڈی ٹی وی کے سینئر ایکزیکٹیو ایڈیٹر اور لاجواب
صحافی رویش کمار نے ٹویئٹ کرکے بھی کیا اور ایک پیغام سچ سننے بولنے اورسچ
کا ساتھ دینے والوں کے لئے بھی دیا ہے ۔۔
رویش کمار کے ٹویئٹ کرنے اور پیغام سامنے آنے کے بعد بی جے پی اور آر ایس
ایس آئی ٹی سیل کے چاٹوکروں نے فرضی اکائونٹ بنا کر ہیتھوے کو مبارکباد
دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اور ہیتھوے کے اس قدم کو صحیح بتایا ہے۔ وہیں
عوام نے رویش کمار کا ساتھ دیتے ہوئے کئی ٹویئٹ کئے ہیں اور ہیتھوے سے کہا
ہے کہ وہ جلد از جلد این ڈی ٹی وی کو شروع کریں ورنہ ہم ہیتھوے کا کنکشن
ختم کردیںگے ۔دوستو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ رویش کمار اپنے خاص پروگرام
پرائم کے لئے جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے اس خاص پروگرام میں سوائے سچ کے اور
کچھ نہیں دکھاتے ہیں۔ وہ اصل صحافت کا حق ادا کررہے ہیں۔ جس صحافت کو
جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے وہ صرف اور صرف این ڈی ٹی وی اور کچھ
چینلس والے ہی اد ا کررہے ہیں۔ رویش اپنے پروگرام میں ہوا میں باتیں نہیں
کرتے ہیں وہ پوری تحقیق کرنے کے بعد ہی اسکے پازیٹیو اور نیگیٹیو پہلوئوں
پر غور کرنے کے بعد ہی عوام کے سامنے لاتے ہیں۔
ان کے اس سچ اور بے باک پرائم ٹائم کا اثر یہ ہورہا ہے کہ حکومت کی پول کھل
رہی ہے۔جتنےجھوٹے وعدے اور پالیسیوں کو پورا کرنے کی بات کی جاتی ہے رویش
کمار اس کی قلعی کھول کر رکھدیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رویش کمار کے چینل کو
بند کرنے کی سازشیں شروع ہوچکی ہے۔ گذشتہ میں ان پر جان لیواحملے بھی ہوئے
ہیں۔ لیکن انھوں نےکبھی حکومت کے دبائو میں آکر اپنی زبان نہیں بدلی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں رویش کمار صحافت کا علمبردار کہلائے جاتے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔
بیشتر لوگوں کے پیشِ نظر صحافت ایک معمولی نوکری اور ایک عام پیشے سے زیادہ
کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن اکثر صحافیوںجن میں رویش کمار بھی شامل ہیںان کے لیے
صحافت اپنے ملک و قوم کے لیے خدمت اور جنون کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ جنون ہے
سچ سامنے لانے کا، حقائق پر سے پردہ فاش کرنے کا، مجرموں کو بے نقاب کرنے
کا اور سب سے اہم عوام کو سچائی سے آشنا کرنے کا۔
صحافت کا حصہ ہوتے ہوئے میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم میں سے اکژ پیسوں کے
پیچھے نہیں ہوتے۔ ہم میں سے اکثر صحافی بہت کم تنخواہ اور زیادہ کام کی وجہ
سے کمپیوٹر کی سکرین اور کیمرہ کے لینز کے پیچھے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کچھ کہانیاں اور اسٹوری ایسی ہوتی ہیں جن پر
اپنا خود کا نام نہیں ڈالا جاتا ہے کیونکہ وہ کہانی یا سچ منظر عام پر آنے
کے بعد جان کا دھوکہ ہوجاتا ہے اس لئے کبھی کبھی صحافی اپنے ناموں کو
چھپاتے بھی ہیں لیکن رویش کمار ایسا نہیں کرتے جو بھی کہتے ہیں ببانگ دہل
کہتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔
لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود دنیا کے بیشتر ممالک
بشمول بھارت میں آزادیٔ صحافت پر پہرے بٹھائے جانے ، صحافیوں پر پُر تشدّد
حملے اور قتل کے واقعات تیزی سے بڑھے ہیں ۔ امریکی فریڈم ہاؤس کی جانب سے
جاری ایک جائزہ کے مطابق گزشتہ سال 70 ممالک میںصحافتی آزادی ، 61 ممالک
میں جزوی طور پر اور 64 ممالک میں آزادیٔ صحافت پر مکمل پابندی رہی۔ سوویت
یونین ، مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ میں صحافت کی آزادی سلب رہی ، جبکہ
اسرائیل ، اٹلی اور ہانگ کانگ میں ایران ، لیبیا، شمالی کوریا ، میانمار،
روانڈا اور ترکماستان وغیرہ میں صحافت ،اپنی آزادی کے لئے کراہتی رہی۔
آزادیٔ صحافت یعنی Press freedomکے ضمن میں ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق
180 ممالک میں ہمارا ملک بھارت 136 ویں پائدان پر آ گیا ہے۔
عزیزو۔۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہےسوال پوچھنا ہی آدھی صحافت ہے ،
لیکن قلم اور کیمرے کو جس طرح جبر و تشدّداور ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
اورآزادیٔ صحافت اور اس کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ وہ
بہت ہی تشویشناک ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ میڈیا پر ہی یہ الزام عائد کیا
جا رہا ہے کہ میڈیا ،حکومت پر مثبت تنقید کے بجائے الزام تراشیاں کر رہا
ہے، جس کے باعث جمہوریت کمزور پڑ رہی ہے اور حکومت غلط راہوں پر جانے پر
مجبور ہو رہی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور اس کے استحکام ،
سیکولرزم کے فروغ اور سماج کا رخ موڑنے میں صحافت نے جو رول ادا کیا ہے ،
انھیں فرا موش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔لیکن الزام تراشی کے گرم بازار کا ذکر
کرنے والے خود صحافت پر کس قدر اوچھے اور نازیبا الزمات لگا رہے ہیں ، وہ
اسے بھول جاتے ہیں ۔
قارئین ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم این ڈی ٹی وی جیسے بے باک اور سچ بتانے
والے چینلوں کا ساتھ دیں۔ان کی آواز میں آواز ملائیں۔کیونکہ جھوٹ کتنا
بھی بڑا اور زور سے بولا جائے وہ سچ نہیں ہوجاتاسچ سچ ہی رہتا ہے۔۔۔۔لہذا
آپ تمام دیکھنے والوں سے میری گذارش ہیں کہ ہم بھی کسی نہ کسی لیول پر
حکمت کے ساتھ سچ بولنے کی کوشش کرتے ہیں لہذا ہمارے چینل کو بھی آپ دوسروں
تک شیئر کریں یعنی سچ کو شیئر کریں۔
چلئے دوستو بولا چالا معاف کرا۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی رہے نام اللہ۔
اللہ حافظ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
|