کہتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے
ہیں مگر ہمارے ہاں رائنج آمرانہ جمہوریت میں عوام طاقت کا وہ سرچشمہ ہے جو
بالکل سوکھ چکا ہے جہاں اب کمزوری اور بے بسی کی دھول اڑ رہی ہے ایسے میں
عوام کا کسی قسم کی طاقت اور قوت سے کوئی تعلق نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے
وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے پچھلے دنوں پیٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور پھر ملک میں خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی
مہنگائی کے تناظر میں انھوں نے کہا کہ اگر مہنگائی بڑھی ہے تو تنخواہوں میں
بھی اضافہ کیا گیا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں گورنر سٹیٹ بنک نے بھی مہنگائی
کا اعتراف کرنے کے باوجود قوت خرید میں اضافے کی بات کی ہے مگر حقیقت یہ ہے
کہ عوام کے پاس تو خرید کی قوت ہی نہیں تو وہ بڑھ کیسے گئی۔۔؟ مگر یہ کوئی
نئی بات نہیں ہر حکومت میں وزیروں ، مشیروں کی ذمہ داری ہی یہی ہوتی ہے کہ
وہ حکومت کے ہر اقدام کا دفاع کریں اور اس کے حق میں جواز پیش کریں کبھی
کہا جاتا ہے قیمتوں میں اضافہ تو کیا گیا ہے مگر اس سے عام آدمی متاثر نہیں
ہوگا کبھی کہا جاتا ہے مہنگائی بڑھی ہے تو قوت خرید بھی بڑھ گئی ہے سچ
پوچھیں تو ہمیں آج تک ایسا عام آدمی نہیں ملا جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے
متاثر نہ ہوتا ہو یا پھر اس کی قوت خرید بڑھ گئی ہو مگر نہیں معلوم اس طرح
کے عام لوگ حکومتی مشیروں کو کہاں مل جاتے ہیں حالانکہ ان کا عام آدمی سے
دور دور تک کوئی تعلق بھی نہیں ہے جبکہ بڑھی ہوئی قوت کے باوجود عام آدمی
کی حالت زار کا اندازہ لگانا ہو تو آٹے کے لیے مارے مارے پھرنے والے اس
غریب سے پوچھیں جس کے لیے 1200 روپے دے کر بھی آٹے کا تھیلا خریدنا مشکل ہے
اگر آٹا خرید بھی لیں تو گھی خریدنا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر چینی تو اب
عیاشی کے زمرے میں آتی ہے۔ حالانکہ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر اعظم کہا
کرتے تھے کہ جس ملک میں مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جائیں اس کے حکمران چور
ہیں مگر اب بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بعد یہ بات سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ
حکمران چور ہیں یا اب اپوزیشن چور ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے
چیئرمین جب سے وزیر اعظم بنے ہیں وہ مسلسل عوام کو بتا رہے ہیں کہ سابقہ
حکمران چور تھے حلانکہ اقتدار کے تین سال گزرنے کے بعد آج انہیں یہ بتانا
چاہئے تھا کہ کتنے چوروں کو سزا مل چکی اور کتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی
جا چکی۔
ابھی پچھلے دنوں وزیر خزانہ کے زیر صدارت پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس کے
بعد جاری کئے گئے اعلامیے کہا گیا کہ حکومت 4 کروڑ لوگوں کو اشیائے خورد و
نوش میں براہ راست سبسڈی دینے کے لیے ایک پروگرام شروع کر رہی ہے جس کے تحت
گھی کی قیمت میں 50 روپے فی کلو کمی کی جائے گی چینی کی قیمت 90 روپے فی
کلو جبکہ آٹا 55 روپے کلو فراہم کیا جائے گا تاہم یہ سبسڈی یوٹیلٹی سٹورز
کے زریعے دی جائے گی۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان پڑھ کر ایک لمحے کو خوشی تو
ضرور ہوئی مگر دوسرے ہی لمحے مایوسی چھا گئی کیونکہ موجودہ حکومت کے
اعلانات ، بیانات اور دعوؤں کے حوالے سے ریکارڈ دیکھتے ہوئے کوئی بھی شخص
حکومتی شخصیات پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں حالانکہ یہی عوام ہی تو تھی جس
نے بھوک ، غربت ، بے روزگاری کے خاتمے ، عدل و انصاف کی بالادستی ، اداروں
کے استحکام ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ، بلدیاتی انتخابات ، پسماندہ
علاقوں کے احساس محرومی کے خاتمے ، کرپشن کے خاتمے ، بے رحمانہ اور بلا
امتیاز احتساب ، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ، آئی ایم ایف سے نجات، سستی بجلی
کی فراہمی ، قیمتوں میں استحکام ، مہنگائی کے خاتمے ، پٹرولیم مصنوعات پر
ٹیکسز میں کمی ، عام آدمی کی بحالی ، معیشت کی مضبوطی ، پچاس لاکھ گھر ،
ایک کروڑ نوکریوں اور جنوبی پنجاب صوبہ سے متعلق پاکستان تحریک انصاف اور
عمران خان کے وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کامیاب کرایا۔ مگر آج تین
سال گزرنے کے باوجود وزیر اعظم کی کوئی تقریر سن لیں یا کسی حکومتی وزیر
مشیر بیان اٹھا کر دیکھ لیں وہ اپنی کارکرگی تو نہیں بتاتے مگر یہ ضرور
بتاتے رہتے ہیں کہ سابقہ حکمران چور تھے ، قومی خزانے کی لوٹ مار کی گئی ،
ملک میں مافیا مضبوط ہے ہمارا مقابلہ مافیا کے ساتھ ہے کاش کہ آج تین سال
بعد وہ عوام کو بتا رہے ہوتے کہ چینی سیکنڈل میں ملوث اتنے چوروں کو سزا
ہوچکی ہے آٹے بحران کے ذمہ دار اتنے لوگ جیل میں ہیں کرپشن میں ملوث اتنے
لوگ کال کوٹھری میں ہیں اور اتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا چکی ہے مگر
ایسا نہیں ہے افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کرپشن کے کیسز کے اکثر ملزم یا تو
ضمانتوں پر ہیں یا پھر کمزور کیسز کی وجہ سے با عزت بری ہوچکے ہیں جبکہ آٹا
چینی سیکنڈل میں ملوث لوگوں کی انکوائریاں ہی ٹھپ ہوچکی ہیں.
جہاں تک قوت خرید کا تعلق ہے حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ
اعداد و شمار کی بنیاد پر نہ تو ترقی کا گراف دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی
غربت کو جانچا جا سکتا ہے کیونکہ اصل حقیقت اعداد و شمار سے نہیں بلکہ حالت
زار سے دیکھی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے سب اچھا کی عینک اتار کر دیکھنا پڑتا
ہے گو کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا مگر پرائیویٹ
ملازمین اور عام محنت کش لوگوں کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا اور پھر جس
تناسب سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اس سے سفید پوش لوگوں کی قوت خرید
کیسے بڑھ سکتی ہے۔ کیونکہ مہنگائی ہونا تو قابل برداشت ہے مگر مہنگائی ہوتے
رہنا ناقابل برداشت اور انتہائی تکلیف دہ ہے اور آج بالکل ایسی ہی صورتحال
ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کچھ بھی حکومت کے کنٹرول میں نہیں یا پھر حکومت کسی
اور کے کنٹرول میں ہے ایسے میں قوت خرید بڑھنا تو دور کی بات ہے قوت برداشت
دم توڑ رہی ہے مگر اقتدار میں سب اچھا کی رپورٹیں سننے والوں کو عوام کی دم
توڑتی قوت برداشت کا احساس نہیں اور اگر اگلے دو سالوں میں بھی حکمرانوں کی
یہ بے حسی برقرار رہی اور وہ عوام کی قوت برداشت کا امتحان لیتے رہے تو پھر
اس کا نتیجہ اس وقت نکلے گا جب عوام کے ہاتھ میں ووٹ کی پرچی ہوگی اور ووٹ
کی پرچی میں حکمرانوں کا مستقبل ہوگا۔
|