موضوع بظاہر بہت نازک مگر وہ قلمکار ہی کیا جو اثر پذیر واقعات تو دیکھے
مگر قلم کو قلمدان سے باہر نہ کھنچے،پے درپے رونما ہونے والے واقعات ،ایک
سے بڑھ کر ایک بڑی تبدیلی ،سماج میں تو سمجھ میں آتی تھی مگر اب مذاہب میں
بھی ،بظاہر نرم دل اندر سے مگر کینہ اور بغض و حسد سے بھرے ہوئے لوگ کوئی
نہیں جو ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ ہی رکھتا ہو ،واقعات بظاہر سادہ مگر آنے
والے خطرناک وقت کا آئینہ دکھا رہے ہیں دس ذوالحجہ کو حج کرنے اگر کوئی نہ
جا سکا تو 9 ذوالحجہ کو تکیہ شاہ مراد پہنچے حج کا ثواب پا ے اور حاجی بن
جائے ،دوسری طرف کربلائے معلی اور نجف اشرف کی زیارت اور زوار کا لقب مگر
اب کون مہینوں کی مشقت اٹھائے یہیں پر صرف بکھاری کلاں تک جائیں اور زوار
بن جائیں ،تکیہ شاہ مراد کے حاجی کیا مکہ مکرمہ و مدینہ کے حجاج کے برابر
اور بکھاری کلاں کے زوارایران عراق اور شام کے سفرکی صعوبت اٹھانے والوں کے
برابرہو سکتے ہیں ؟؟؟ اﷲ اکبر کیسا وقت آن پڑا ،علمائے کرام کیا اس کی
وضاحت کے لیے کچھ وقت مختص کریں گے کوئی شک نہیں کہ مذہبی آزادی ہر شخص کا
بنیادی حق مگر میری آزادی کا وہاں اختتام ہے جہاں سے آپ کی آزادی کا
آغازہوتا ہے،مذہب احساس کے علاوہ ہے کیا، ٹی ٹی پی کے خلاف بھرپور آپریشن
کے لیے ایک عدد نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا کیا ہی شاندار ایکشن
پلان تھا ،دہشت گردوں کے سہولت کار چاہے وہ مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوں یا کسی
اور شکل میں اور ان کے معاون بچ نہیں پائیں گے اور پھر نجانے کہاں کہاں سے
کیسے کیسے لوگ پکڑے گئے جن کا اندرون خانہ رابطہ کسی نہ کسی طرح دہشت گردوں
سے تھا میڈیا پہ بہت شور مچایا گیا فوج اور ایجینسیز کو آخری حد تک بدنام
کرنے کی کوشش کی گئی مگر یقین کیجیئے شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس پرہاتھ
رکھا گیا ہو اور وہ بے گناہ ہو اور اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح ملک دشمن
عناصر سے نہ ہو،نیشنل ایکشن پلان میں ایک لائن ڈرا کی گئی کہ کو ئی بھی
مولوی پیر اور عالم اس لائن سے دائیں بائیں نہیں ہو گا کوئی نئی مسجد مدرسہ
یا امام بارگاہ سخت چھلنی سے گذرے بغیر تعمیر نہ کی جا سکے گی ورنہ چلن یہ
بھی رہا کہ کسی مہربان نے کسی کے پلاٹ پر راتوں رات مسجد بنا دی اور پھر اس
کی حفاظت کے لیے ثنا خوان تقدیس مشرق کشتوں کے پشتے لگانے کو تیار ہو گئے،
ایک وقت میں اذان اور ایک لاؤڈ اسپیکر پر تقریبا عملدرآمد کروا ہی دیا گیا
تھامگر پھر آہستہ آہستہ تبدیلی نے سر اٹھانا شروع کیا اور بلا سوچے سمجھے
حکومتی اقدامات پر شدید تنقید شروع کر دی گئی انہیں دنوں وزیر قانون کو
گیدڑ کی طرح نہ جانے کیا سوجھی کہ شہر کا رخ کر بیٹھا، قومی اسمبلی کے حلف
نامے میں قادیانیوں کو ریلیف دینے کی کوشش کی بات حافظ حمداﷲ تک پہنچی اور
پھر جو ہوا کھلی کتاب اور سب کے سامنے عیاں ہے وہ حکومت جو جارحانہ انداز
میں آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی یکدم دفاعی پوزیشن پر چلی گئی اور بڑے میاں
وفاق جبکہ چھوٹے میاں پنجاب میں حیران و پریشان ہو گئے کہ اچانک ہو کیا گیا
اور اقتدار دیکھتے دیکھتے مٹھی میں بند ریت کی طرح آہستہ آہستہ سرکتا چلا
گیا یہ الگ بات کہ اس میں دشمنوں کی سازش کم اور مینوں مرن دا شوق زیادہ سی
والی بات تھی ،بات اگر اپنے ملک کی کریں تو یہاں حکومت نے مذہب کو تقریبا
پراویٹائز کر رکھا ہے جس پیر مولوی یا روحانی پیشوا کی جب جو مرضی ہوتی ہے
اسے بدعت حسنہ مباح یا کچھ ملتا جلتا نام دے کر لوگوں کے لیے عقیدت کا
سامان مہیاکر دیتا ہے اورآپ کمال ہمار ا بھی دیکھیں کہ جو اپنے باپ کی بات
پر تو چار سوال کرتے ہیں مگر مجال ہے جو کسی مذہبی مجاور یا پیر کی بات پر
سوال تو درکنار اعتراض بھی کرنا گوارا کریں مجھے تو ایک ایسی شادی میں بھی
جانے کا اتفاق ہوا کہ جب ولیمے کے دن وقت مقررہ پر دو سو کلومیٹر دور پہنچے
تو ولیمے اور کھانے کا نہ نام نہ نشان ،حیران ہوئے یا للعجب یہ کیا
ماجراہوا صاحب خانہ جو دولہا کے ابا محترم تھے سے پوچھا کہ جناب خیریت کوئی
فوتگی وغیرہ تو نہیں ہو گئی جوجواب ملا اس نے چودہ طبق روشن کر دیئے فرمایا
ہم نے تو دن آج کا ہی رکھا تھا سب کو کارڈز اور اطلاع بھی کر رکھی تھی مگر
ہمارے پیر صاحب نے اچانک بتایا کہ یہ دن صحیح نہیں اس لیے تین دن قبل کی
تاریخ میں ولیمہ کر دیا گیا ہمارے کھڑے کھڑے دو چار اور مہمان بھی آن پہنچے
اور ان کا بھی وہی حال تھا جو ہمارا تھا مگر یہاں کس کو دوش دیں ہرسال جنتی
دروازے سے گذرنے کے لیے نہ جانے کتنے اپنی جان سے گذر جاتے ہیں پاکستان اور
پاکپتن میں ایک ایسا دروازہ جو جنتی ہے دیکھ کہ حیرت ہوتی ہے کہ کیا جنت کے
دروزے ایسے ہوں گے جن سے بمشکل ایک وقت میں ایک بندہ گذر سکے گا تو پھر جنت
میں جاتے جاتے تو ہزاروں سال لگ جانے ہیں پھر بھی خلقت سمٹ نہ سکے گی،سیدھے
سادے سچے کھرے مذہب میں رنگ بازی ایسی مچی کہ کمال ہو گیا ایک صاحب ہزاروں
حاضرین کو سامنے بٹھا کر سر پر ہاتھ رکھوا کر مائیک میں چھو کرتے ہیں اور
مریض ٹھیک ہو تے جاتے ہیں کسی کے منہ سے کیلیں نکل رہیں ہیں تو کسی کے
بالوں سے سانپ نجانے ایسے عظیم روحانی داکٹر دنیا کو کیوں میسر نہیں کہ محض
ایک کرونے نے دنیا کی شکل ہی بدل کے رکھ دی لیکن کرونے کے وقت یہ سارے بھی
گم ہو گئے تھے بعد میں آہستہ آہستہ منظر عام پر آئے محکمہ اوقاف کے زیر
انتظام مزاروں پر روزانہ کروڑوں روپے جمع ہورہے جن کا نہ کوئی آڈٹ ہے نہ
باقاعدہ حساب کتاب مگر آمدن ہے کہ آئی جا رہی اور لگاتار۔پہلی شدید حیرت اس
وقت ہوئی جب بالکل ہی نزدیک تکیہ شاہ مراد پر یہ بتایا گیا کہ جو لوگ حج پر
نہ جاسکیں وہ تکیہ شاہ مراد آ جائیں اور حج کا ثواب لے جائیں اس کے بعد
ابھی یہ حیرت ختم نہ ہوئی تھی کہ بکھاری کلاں میں ایک ضریع بنا دی گئی جس
میں غالبا ایک امام پاک کے روضے کی شبیہہ بنائی گئی ہے ساتھ یہ بتایا گیا
کہ جو لوگ ایران عراق نہیں جا سکتے وہ ادھر کا سفر کر لیں پیدل،نجانے
علمائے کرام کہاں ہیں جو راہنمائی کریں کیا یہ ممکن ہے کہ کعبہ کی شبیہہ
بنا کر یہاں حج کر لیا جائے روضہ رسول ﷺ بنا کر سلام پیش کر لیا جائے یا
ضریع بنا کر زواری کر لی جائے اور سنا ہے کہ اب جہلم میں بھی ایک صاحب اسی
نوعیت کی ضریع بنا رہے ہیں جس میں روضہ امام حسین علیہ السلام بنایا جا رہا
ہے ،اگر علمائے کرام اسے جائزاور صائب سمجھتے ہیں تو ہمیں کیا اعتراض کہ
دینی معاملات کی بہتر تشریح وہی کر سکتے ہیں ہم دنیا دار لوگ راے اور
تجویزلے دے سکتے ہیں ،لیکن چونکہ پاکستا ن ایک اسلامی ملک ہے لہٰذا حکومت
کسی بھی مذہبی معاملے سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی ،یہ معاملات خود حکومت کو
اپنے ہاتھ میں لینے چاہیئں اور ہر مکتبہ فکر کے جید علمائے کرام کو آن بورڈ
لیکر مذہب کے نام پر صرف وہی کچھ کرنے کی اجازت د ی جائے جو ان علمائے کرام
کی راے ہو ہر شخص کو کسی بھی صورت من مرضی کی اجازت نہ دی جاے اگر کسی
مذہبی سرگرمی جیسے مشی یا عرس وغیرہ کی اجازت دی جائے تو اس میں شریک افراد
کی حفاظت اور سیکورٹی کا ضروری بندوبست کیا جائے کیوں عوام کے جان و مال کی
ذمہ داری لامحالہ حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے اس لیے اجازت بھی اتنی ہی
دینی چاہیئے جس کی حفاظت اور ترتیب منظم رکھی جا سکے بصورت دیگر کسی بھی
ناخوشگوار واقعے کی صورت میں نقص امن اور نقصان کا اندیشہ کہیں زیادہ ہوتا
ہے اس کے علاوہ دوسرے مکتبہ فکر کے لوگوں کی زندگی کے معمولات کسی بھی صورت
میں متائثر نہیں ہونے چاہیئیں اور بطور مسلمان ہم میں سے ہر ایک شخص کو اس
کا خاص خیال بھی رکھنا چاہیے،سوال اور مکالمہ کرنے کی گنجائش ہمہ وقت ہونی
چاہیئے اور ایک اخبار نویس بھلے اور کیا کرے کہ موضوع بظاہر بہت نازک مگر
وہ قلمکار ہی کیا جو اثر پذیر واقعات تو دیکھے مگر قلم کو قلمدان سے باہر
نہ کھنچے،پے درپے رونما ہونے والے واقعات ،ایک سے بڑھ کر ایک بڑی تبدیلی
،سماج میں تو سمجھ میں آتی تھی مگر اب مذاہب میں بھی ،بظاہر نرم دل اندر سے
مگر کینہ اور بغض و حسد سے بھرے ہوئے لوگ کوئی نہیں جو ایک دوسرے کے لیے
نرم گوشہ ہی رکھتا ہو ،واقعات بظاہر سادہ مگر آنے والے خطرناک وقت کا آئینہ
دکھا رہے ہیں دس ذوالحجہ کو حج کرنے اگر کوئی نہ جا سکا تو 9 ذوالحجہ کو
تکیہ شاہ مراد پہنچے حج کا ثواب پا ے اور حاجی بن جائے ،دوسری طرف کربلائے
معلی اور نجف اشرف کی زیارت اور زوار کا لقب مگر اب کون مہینوں کی مشقت
اٹھائے یہیں پر صرف بکھاری کلاں تک جائیں اور زوار بن جائیں ،تکیہ شاہ مراد
کے حاجی کیا مکہ مکرمہ و مدینہ کے حجاج کے برابر اور بکھاری کلاں کے
زوارایران عراق اور شام کے سفرکی صعوبت اٹھانے والوں کے برابرہو سکتے ہیں
؟؟؟
|