جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں
یہودیوں،نصرانیوں اور دجالی کارندوں کو مسلمانوں سے نہیں بلکہ مذہب اسلام
سے نفرت ہے۔اور جو اس پر مکمل طور عمل آوری کرتا ہےاس کو پھیلانے کی کوشش
کرتا ہے اس کو وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیںاوریہ آج سے نہیں بلکہ جب سے دنیا
بنی ہے تب سے یہی ہوتا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان کے
افغانستان پر مکمل قبضہ ہوجانے کے بعد گودی میڈیا اور دشمنان اسلام طالبان
کے خلاف جیسے ایک مہم کے تحت ان کوانتہائی خطرناک دہشت گرد ثابت کرنے پر
تلے ہوئے ہیں ۔ان کی اچھائیوں کو برائیوں میں تبدیل کرکے دنیا کو باور
کرایا جارہا ہےکہ طالبانی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں ،ان کی آزادی چھین لیتے
ہیں،معمولی معمولی غلطیوں پر قتل کردیتے ہیں یعنی کہ طالبان کو بہانہ بناکر
شریعت محمدی اور اسلام پر حملہ داغے جارہے ہیں۔
لیکن یہ بات یاد رکھئے آپ کتنا بھی جھوٹ بول دیجئے۔ سچ کبھی بدلتا نہیں
ہے۔کتنی بھی چالیں چل لیجئے آخری چال تو صرف اللہ ہی کی ہوتی ہے۔
خیر میں جس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ
مولانا کلیم صدیقی صاحب،ذاکر نائیک صاحب،عمر گوتم صاحب،جہانگیر قاسمی،
مولانا عبداللہ قاسمی، جیسے جتنے بھی داعی اس ملک میں کام کررہے ہیں یا کام
کررہے تھے ان سے شاید کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غلطیاں ضرور سرزد ہوئی
ہیںاسی لئے وہ ناقدین کے راڈار پر آگئے ہیں۔اس سے پہلے میں یہ بتادوں کہ
دنیا کا کوئی کام رکاوٹوں اورمشکلات کے بغیر ہی پورا ہوجائے، یہ ممکن نہیں
ہے۔ انسان جب کوئی کام کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو اسے مشکلات کا سامنا
کرنا ہی پڑتا ہے۔ کام بڑا ہو، دیرپا نتائج کا حامل ہو، اثرات بڑے رکھتا
ہوتو پھر مشکلات بھی زیادہ پیش آسکتی ہیں، مثلاً ایک جھونپڑی تیارکرنا ہے،
اس کےلیے کچھ مشکلات ہوسکتی ہیں، لیکن اگر ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کرنا
ہے تو اس کے لیے غور کیجیے، کتنے صبر آزما مراحل اور مشکلات کا سامنا کرنا
پڑسکتا ہے؟دعوت کا کام انسانوں تک اللہ کا پیغام، اس کی رہ نمائی اوراس کی
تعلیمات کو پہنچانے کا کام ہے۔ جن انسانوں میں یہ کام کرنا ہوتا ہے وہ ایک
طرح کے لوگ نہیں ہوتے۔ مختلف خاندانی پس منظر، سماجی حیثیت اور صلاحیتوں کے
ہوتے ہیں۔ لیکن دعوت ان سب کی فطرت کی آواز ہے۔ دعوت ان کی ضرورت ہے۔
یقیناً راہ دعوت کا رکاوٹوں اور مشکلات کے بغیر تصور کرنا محال ہے لیکن
رکاوٹوں اور مشکلات کی وجہ سے اس راہ کا سفر ترک کرنا یا سفر کرتے ہوئے
منزل مقصود پر پہنچنے سے بہت پہلے ہی واپسی بلکہ پسپائی اختیار کرنا درست
نہیں ہے۔
دعوت کے اس خاص پہلو کو ذہن میں رکھ کر جب ہم انبیاءکی دعوتی تاریخ کے
مستند اوراصل ماخذ قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں۔جن
مشکلات اور رکاوٹوں کا انبیاء نے سامنا کیا ان کا تصور بھی ہمارے لیے بہت
مشکل ہے۔ اس کے باوجود انبیاء مستقل مزاجی، ثابت قدمی اورمشکلات کا مقابلہ
کرتے ہوئے مسلسل دعوت کا کام انجام دیتے رہے۔ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ
راہ دعوت کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہی۔ وہ کانٹوں سے بھری ہوئی راہ ہے۔لیکن
یہی وہ راہ ہے جس کے مسافر کے لیے اللہ کی بے پایاں نصرت اورتائید شامل حال
ہوکر اسے کامیاب بناتی ہے۔اللہ تعالیٰ داعیوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ
کبھی بےیار ومددگار نہیں ہوتے۔
رکاوٹیں اور مشکلات داخلی اور خارجی دونوں طرح کی ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں
کہ بعض کا تعلق مسلمانوں سے ہے اور بعض کا تعلق برادران وطن سے ہے۔ بعض
رکاوٹوں کا تعلق ماضی سے رہا ہے، لیکن ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوا، ابھی تک
جاری ہے، بعض حال سے متعلق ہیں، لیکن مستقبل پر اثر انداز ہونے والی ہیں۔
لیکن اس سلسلہ میں میںیہ کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ رکاوٹیں شاید ہم خود پیدا
کررہے ہیں۔میں بہت معمولی سا شخص ہوںہوسکتا ہے میری یہ بات سے ہر کوئی متفق
نہ ہوں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہماراوہ کام جسے ہم مثبت سمجھ
کر کرتے ہیں وہ ہمارے لئے وبال جان بن سکتا ہے۔ ۔۔اور وہ کام یہ ہے کہ جو
کوئی بھی برادران وطن ایمان کی روشنی سے منور ہوجاتا ہے اسلام قبول کرلیتا
ہے اس کے بارے میں چرچا نہ کی جائے۔اس کے بارے میں کسی کو بتایا نہ جائے۔یہ
کام خاموشی میں چلنے دیا جائے۔ کیونکہ ملک کے حالات ہمیں اس کی اجازت نہیں
دیتے ہیں۔جو دین کے داعی یہ کام کررہے ہیں زمینی حقائق سے وہ بہت زیادہ
واقف رہتے ہیں انہیں اصل نوعیت پتا ہوتی ہے کہ کس طرح کا کام کیا جانا
چاہئے اور کیا نہیں کیا جانا چاہئے۔
لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ بھارت میں رہتے ہوئے جن حالات میں ہم سانس لے
رہے ہیں جس طرح کی پریشانیاں مسلمانو ںکے لئے کھڑی کردی جارہی ہیں ان حالات
میں داعی کو پریشانی اٹھانی پڑسکتی ہے۔
آپ ذرا غور کیجئے کہ جب کبھی ہمیں اس بات کی اطلاع ملتی ہے کہ فلاں شہر کی
فلاں مسلم لڑکی مرتد ہوچکی ہے اور وہ کسی غیر مسلم شخص کے ساتھ فرار ہوچکی
ہے۔
یہ خبر ملتے ہی آپ اچانک ٹینشن میں آجاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کو
اتنا فاروڈ کرتے ہیں وہ پوسٹ گھوم کر آپ تک پہنچ جاتی ہیں۔اور کچھ لوگ
زمینی لیول پر جاکر اس لڑکی کے تعلق سے مکمل معلومات حاصل کرکے اسے سمجھانے
بجھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔خیر وہ لڑکی مانے یا نامانے وہ بعد کی بات ہے
لیکن اس طرح کی خبریں ہمیں بے چین کردیتی ہیںسوچنے پر مجبور کردیتی ہیں ہم
اپنی بچیوں ،بہنوں اور رشتہ داروں کے تعلق سے فکر مند ہوجاتے ہیں ۔۔جب اکا
دکا خبریں مرتد ہونے کی ملتی ہیں تو ہمارا یہ حال ہوجاتا ہے اور ہونا بھی
چاہئے۔ ۔۔۔تو پھر آپ ذرا سوچئے کہ کسی کتاب میں یا اخبار میں جب یہ خبر یا
مضمون پڑھنے کو ملتا ہے کہ فلاں مولانا کے ہاتھوںفلاں داعی کے ہاتھ پر
لاکھوں ہندئووں نے ایمان قبول کرلیا۔۔۔اور تو اور اس خبر کو سننے کے بعد ان
برادران وطن یا آر ایس ایس کے دہشت گردوں کو کتنا ٹینشن آجاتا ہوگا جب وہ
یہ سنتے ہوں گے کہ گوتم نے ایمان قبول تو کیا ساتھ ہی اپنے پورے خاندان کو
بھی اسلام قبول کروالیا ہے۔۔۔۔جی ہاں دوستو۔۔جب ہم ایک لڑکی کے مرتد ہوجانے
پر اتنے متفکر ہوجاتے ہیں تو پھر آپ ہی بتائیے جب آر ایس ایس کے شدت
پسنداورتعصب پسند افرا دکے ہاتھوں آپ کی وہ کتاب جو تین زبانوں میں چھپتی
ہے ان کے ہاتھ لگتی ہوگی تو پھر وہ کتنے پریشان اورغصہ سے پاگل ہوجاتے
ہوںگے کہ اتنے اتنے وقت میں اتنے اتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
لہذا میری ایک ناقص رائے ہے کہ داعی حضرات جو واقعی قابل مبارکباد اور قابل
ستائش ہیں جو دین کو پھیلانے کا کام کررہے ہیں کہ نومسلم حضرات کے بارے میں
کسی کو بھی کچھ بھی نہ بتایا جائے۔۔۔۔اب اگر اس سلسلہ میں دیکھا جائے تو جو
شخص ایمان قبول کرتا ہے وہ اپنے پورے خاندان کو چھوڑ کر آتا ہےوہ اپنوں سے
کٹ کر آتا ہے لہذا اس کا رہنا کھانا پینااور اس کی مکمل دیکھ بھال کرنا
داعی حضرات کا ہی کام ہوتا ہے اگر وہ اچھا خاصا مالدار ہے اپنے پیروں پر
کھڑا ہے تو الگ بات ہے لیکن اگر وہ بندہ متوسط طبقہ یا نچلا طبقہ سے تعلق
رکھتا ہوتو پھر اس کی ہر طرح کی ذمہ داری داعی پر ہی عائد ہوتی ہے اور
ہمارے داعی ماشاء اللہ ہر اعتبار سے ان کی ممکنہ مدد بھی کرتے ہیں لیکن یہ
ایک ایسا کام ہے جس کے لئے پیسہ بھی درکار ہوتا ہے اور اس کے بغیر ضرورتیں
پوری نہیں ہوتی۔ہاں ماشاء اللہ الحمد اللہ بہت سارے اللہ کے بندے ایسے ہیں
جو داعیوں کی دامے درمے سخنے مدد کرتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں
جنہیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ دیکھو ہم اس طرح کے کام کرتے ہیں پھر ان کی
تفصیلات بھی بتانی پڑتی ہے اس کے بعد ہی وہ کچھ آپ کی مدد کرنے پر آمادہ
ہوتے ہیں۔اب پریشانی یہ ہے کہ داعی دل پر پتھر رکھ کر ایمان قبول کرنے
والوں کی تفصیلات ان لوگوں کو بتاہی دیتا ہے جو انہیں دامے درمے سخنے ہر
طرح کی مدد کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
بس یہی ایک وجہ کہیے یا غلطی کہئے جو داعیوں کو اس ملک میں پریشان کررہی ہے
کیونکہ ان کی وہ تفصیلات جو کتابچوں کی شکل میں آجاتی ہے وہ کسی شدت پسند
یا دہشت گرد کے ہاتھوں لگ جاتی ہے اور آپ کے اس اچھے کام میں رخنہ اندازی
پیدا کردیتی ہے۔ لہذامیری ادباً گذارش ہے کہ داعی حضرات ایمان قبول کرنے
والوں کے بارے میں ذرا سا بھی پروپیگنڈہ نہ کریں نہ ہی کسی قسم کے کتابچے
چھاپ کر یہ بتانے کی کوشش کریں کہ الحمد اللہ اتنے اتنے لوگوں نے ایمان
قبول کرلیا ہے اور نہ ہی بڑے بڑے اجتماعات کرکے ایمان قبول کروائیں
جائیں۔۔۔۔میں ایک بارپھر داعی حضرات کو معافی کے ساتھ کہناچاہتاہوں کہ
ہوسکتا ہے کہ میری رائے غلط ہولیکن فی الحال بھارت میں رہتے ہوئے ماحول
ہمارے کے لئے ناموافق ہیں اس لئے کوشش یہی کی جائے کہ سب صیغہ راز میں رکھا
جائے۔
مختصر یہ ہے کہ راہِ دعوت میں مشکلات اور رکاوٹیں حائل ہیں لیکن ان سے
نکلنے اور آگے بڑھنے کے راستے بھی ہیں۔ ان کی وجہ سے دعوت کا کام روکنا
نہیں چاہیے، بلکہ ان رکاوٹوں کو مواقع سمجھ کر کام کی راہیں نکالنی چاہئیں۔
لیکن حکمت وتدبر کے ساتھ۔۔۔۔
چلئے دوستو اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانو ںکی جان مال عزت وآبرو کی
حفاظت فرمائے۔اور خصوصاً داعی حضرات کو ہمیشہ اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
بولا چالا معاف کرا زندگی باقی تو بات باقی رہے نام اللہ کا۔۔ اللہ حافظ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
|