علم بشریات کے مطالعے یہ معلوم ھوتا ھے کہ انسانی ماضی کیسا تھا بشریات ایک
وسیع سماجی مضمون ھے کئی ادوار سے لکھا اور پڑھا جانے والا یہ مضمون نہ
جانے کیوں انسانی غربت اور افلاس کو کم کرنے کے حوالے سیاپنے اندر کوئی
جامع مضمون نہ لا سکا کہ جسکی بدولت انسان کی افادیت مشینی افادیت سے ذیادہ
مانی جاتی قدیم دنیا قرون وسطی یا کے جدید دنیا کا مطالعہ کریں تو ہمیں
سوچنا پڑے گا کہ انسانی ارتقا سے لیکر اب تک انسان نے کیا سیکھا ھے سیکھنے
کا یہ عمل کیا موثر رھا ھے کیا جو انسانی عقل نے سیکھا ایجاد کیا وہ کافی
ھے یہ ترقی کی انتہا ھے ہر انسان موبائیل کو اپنے سیکریث پاسورڈ کے ساتھ
ایک آرام دہ وقت اور زندگی گزار رھا ھے کیا دوسروں کے لیے سوچنے کا وقت اسے
مل رھا ھے اگر انسان نے اپنا ایک مخصوص کوڈ لگا کر سب سے علیحدہ رہنا تھا
تو پھر انسان نے دنیا کو گلوبل ولیج کا نام کیوں دیا گلوبل ویلج کی ضرورت
کہاں سے آٹپکی. یہ باتیں کافی غور طلب ہیں اور انسان کی ترقی اور فطرت کا
دوغلا پن تو دیکھیے کہ اپنے سوشل اکاوئنٹس پر وہ بیشمار دوستوں کوایڈ رکھتا
ھے اور حقیقت میں اسے چند لمحے بھی کسی کے ساتھ گزارنا بھاری محسوس ھونے
لگتے ہیں وہ پوری توجہ اور دھیان سیاپنے موبائیل یا اپنی سوشل اپ ڈیٹ کے
بارے میں ہی سوچتا رھے گا اور وہ انسانی محفل سے اٹھ کر ایک خاموش بے جان
چیز جسے موبائیل کہتے ہیں اس کے پاس جانے کے لیے بیقرار ر ھیگا.موبائیل کی
اختراح کا مقصد یہ تھا کہ انسان کی مشینی ترقی کو اجاگر کیا جائے کہ ہم کئی
میل دور بیٹھ کر بھی اپنے پیاروں کو دیکھ سکتے ہیں مجھے تو لگتا ھے انسانی
ترقی کی اس پر حالات یوں واضح ھوتے ہیں کہ ہم نے دور والوں کو تو پاس کر
لیا ھے مگر جو پاس ہیں جنکا ہم پہ پہلا حق ھے انکو ہم دور کر رھے ہیں اس
طرح سے اگر ہم سوچیں تو انسانی ترقی ابھی پستی کی راہ پر ھی گامزن ھے کاش
اب ترقی یافتہ دور ھوتا اور یہ دور ایسا دور ہوتا کہ جہاں انسان غربت سے
نکل چکے ھوتے ہر ملک ھر خطہ ھر شہر علاقہ انسانی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت
ھوتا انسانی ترقی کا مزا اسمیں نہیں کہ ہر بندہ موبائیل پکڑ لے اور أپنی
آنکھیں اسی زاویے پہ سیٹ کر لے جو موبائیل کی دنیا میں دیکھائی دے بلکہ
ہماری کامیابی اسمیں ھوتی کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرتا اپنے شعور اور آگہی سے
دوسروں کے لیے بھلائی کے کام کرتا.ھر انسان انسانیت کے ناطے ایک دوسرے کی
مدد کے لیے بے چین رہتا اگر یہ انسانی رویے ہم جانچیں تو کچھ دیر ہم اس بات
پر مکمل یقین کر سکتے ہیں کہ موجودہ انسانی حالات اور نفسیات کسی طور بھی
ایک ترقی یافتہ دور کہلانے کا حق نہیں رکھتیں.ابھی تو یہ دور شائد مشینوں
کی کامیابی اور کامرانی کا دور ھے مگر اگر ہم کوشش کریں تو اس دور کو ہم
بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں ترقی والا دور ؤہ دور ھوگا جس میں امن ھو گا جس
میں مسئلہ فلسطین مسئلہ اور کشمیر حل ھوئے ھونگے انسانی جانوں کا ضیاع بم
دھماکوں میں نہیں ھوگا کسی طاقتور کو کسی کمزور پر جارحیت کی جرات نہ ھوگی
بچے اورعورتیں اپنی آذادی اور مرضی سے گھوم پھر سکیں گے کیا ایسا نہیں ھونا
چاھیے... موجودہ دور میں ابھی مزید انسانیات کے مضمون کو کھنگالنے کی ضرورت
ھے تاکہ انسانی بھلائی کے رجحان پیدا کیے جائیں تو پھر جو ماہرین موجودہ
دور کو ترقی یافتہ دور کہتے ہیں وہ اپنی علمیت تحقیق اور اندازوں پر نظر
ثانی کریں اور دوبارہ سے وضح کریں کے کس طرح کا معاشرہ بہتر معاشرہ ھوگا وہ
جسمیں ہر انسان دوسرے سے بے خیر ھوگا بھوک اور جنگی آلات سے مر رھا ھو گا
یا کہ وہ جسمیں سب ایک دوسرے کے ساتھ بلا خوف رہیں گے جہاں لوگ بھوک سے
نہیں مرینگے سبکو برابر حقوق ملیں گے تو وہ ماھرین جو ادوار کو کسی بھی
حثیت سے حساب کتاب کر کے خوشحالی یا بد حالی کی رپورٹ تیار کرتے ہیں ان سے
گزارش ہے کہ موجودہ دور کی ایمانداری سے رپورٹ تیار کریں اور بتائیں کہ
موجودہ حالات میں دنیا ترقی کے کس مقام پہ ہے سوچنا صرف یہ ہے کہ انسانی
خوشحالی چائیے یا مشینی خوشحالی.. اصل خوشحالی اور کامیابی کاش اس چیز کو
گردانا جاتا کہ انسانی قدروں کو اہمیت دی جاتی انسانیات کو پڑھا جا تا
انسانوں کے رویوں میں جاکر انسانی مشکلات کو حل کیا جاتا مگر ہم نے تو اس
دور کو اپنے لیے اسقدر مشکل بنا دیا ھے ہر انسان کو ہم دولت کے ترازو میں
تولنے لگے ہیں کیا انسانی ارتقا کے عمل سے لیکر اس وقت تک کوئی ایسا مضمون
شامل نصاب نہ ھوسکا کہ جسکی تعلیم سے انسانی غربت کو انسانی بھوک کو کسی
طور کم کیا جا سکے کتنے بڑے بڑے نام کتنے بڑے بڑے ادارے انسانی فلاح کے لیے
کھربوں کے فنڈ دیتے ہیں کیوں مگر کیوں پھر بھی انسانیت غربت سے نہیں نکل
رھی ہمارے ملک میں بھی بچے سکولوں سے باھر ہیں مزدور کے طور پر کام کرتے
ہیں بھٹہ مالکاں کے شکنجوں میں ہیں.کدھر کدھر کے دکھ بیاں کیے جائیں چھوٹے
بچے جنکا حق سکول جانا ہے وہ محنت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں
کیونکہ انکے کنبے کا سربراہ اکیلے اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے گھروالوں کی
کفالت کر سکے جسکی سزا چھوٹے بچوں کو ملتی ہے اور وہ پڑھاتی سے دور ھو جاتے
ہیں اور شعور کی منزلیں طے کرنے میں بعض اوقات فیل ھوجاتے ہیں کیونکہ تعلیم
کی آگاھی ہاتھ نہیں آتی..اور ہم بے مقصد ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ہمیں
اس بات کو پھیلانا ہے کہ اس وقت ترقی کے لحاظ سے زمانہ بہت آگے ھو گا بلا
شائبہ مگر انسانی فلاح کے حساب سے اصول انتھروپولوجی مناسب کام نہ کرسکے
لہذا ایک نئے انداز اور عزم سے انسانی رویوں اقدار کو چانچنے کی اس وقت اشد
ضرورت ہے کہ جس سے ہم انسان کو اس معیار پر دوبارہ رکھ سکیں کہ انسان ہی
اشرف المخلوقات ہے اس کی کامیابی ہی دراصل زمانے کی کامیابی ھے مشینوں اور
انسانی ہاتھ سے بنی انسان کو تھکا دینے والی اشئیا ترقی تو ہیں مگر یہ ترقی
وہ ترقی نہیں ہیں جسکا مقصد کالم لکھنا ھے.. وہ لوگ جو سمجھے بیٹھے ہیں کہ
زمانہ بہت آگے نکل گیا اب سب کچھ حاصل ھوگیا سب چیزیں انسانی پہنچ میں آ
گئی ہیں اب کوئی مشکل نہیں تو سوچیے یہ ترقی چند لوگوں کی ترقی ہے اصل ترقی
وہی ھو گی جب سبکو یکساں حقوق ملیں گے جب لوگوں کو بھوک آور کھانے کی فکر
سے آزادی نصیب ھوگی ذہنی اور قلبی سکوں میسر ھوگاجب مزدور کو اسکی مزدوری
پسینہ خشک ھونے سے پہلے ملے گی..اس تمام تحریر پر اگر غور کیا جائے تو امید
راسخ ھے کہ انسانی ترقی کے لیے کوئی بہتری کی امید نظر آئے گی اور انسان کی
خوشحالی سب سے مقدم ھو گی
|