٭……ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے اور اس سے کیسے
بچا جا سکتا ہے؟ بی بی سی نیوز پر سامنے آنے والی تحقیق ”انتہائی اہمیت کی
حامل ہے“ شعور، لاشعور کی بحثیں ہمارے ہاں، بغیر مطالعہ کے ہر کوئی اپنا حق
سمجھتا ہے کہ اس پر پھر پور لکھے، چلتے چلتے آپ سے اتنی گزارش ہے کہ ”شعور“
کے سبجیکٹ پر لکھنے والے”ع“ کو بھول جاتے ہیں اور ”ع“ کے بغیر شعور پر
لکھتے ہوئے صرف”شور“ پر لکھتے چلے جا رہے ہیں۔اب آتے ہیں بی بی سی کے محقق
کی تحقیقاتی رپورٹ پر وہ لکھتے ہیں ”آپ انٹرنیٹ پر کسی آن لائن سٹور پر ہیں
اور آپ کا کچھ خریدنے کا دل کر رہا ہے۔ اور وہ چیز آپ کے بینک اکاؤنٹ میں
موجود رقم کے حساب سے کچھ مہنگی ہے لیکن اس وقت وہ آپ کے لیے دنیا کی سب سے
اہم چیز بن چکی ہے۔اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے
خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو
گا؟اس جذباتی کیفیت میں آپ اپنے دماغ میں حساب کتاب لگاتے ہیں اور اسے
خریدنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنے بینک کارڈ کے نمبر کا
انداراج بھی نہیں کرنا کیونکہ وہ آپ کے کمپیوٹر براؤزر میں پہلے سے ہی
محفوظ ہے۔بس آپ نے بٹن دبانا ہے۔ مگر اس کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا شروع ہو
جاتا ہے یا اس سے بھی برا یہ کہ آپ قرض میں چلے جاتے ہیں۔حالیہ برسوں میں
بیہویرل اکنامکس اور نیورو اکنامکس کے شعبے میں ہونے والی تحقیق اور مطالعے
میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے حالات جن میں ہم غیر معقول فیصلے کرتے ہیں
یہ اکثر ہماری مالی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔لیکن اس حوالے سے ہماری سب سے
عام مالی غلطیاں کون سی ہیں اور کیسے ہم اپنے ”دماغ“ کے جھانسے میں آنے سے
بچ سکتے ہیں؟اس کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم اپنی روز مرہ
زندگی میں کن عادتوں کو اپنا کر اس سے بچ سکتے ہیں۔
کیا آپ ایک ذی شَعْور شخص ہیں؟فاؤنڈیشن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریشن آف
برازیل میں نیور سائنس اور نیور اکنامکس کے مضامین کی کورڈینٹر پروفیسر
ریناتا تاویروس کا کہنا ہے کہ ”روایتی معاشیات نے طویل عرصے سے انسان کو
منطقی، سرد اور معروضی سمجھا ہے اور جو اپنی فلاح و بہبود، اپنے معاشی
فائدے اور اپنے مفاد کو زیادہ سے زیادہ بہتر کرنا چاہے گا“لاشعوری طور پر
فیصلہ سازی کو جو منطقی طور پر نہیں ہوتی،ایک خرابی سمجھا جاتا ہے اور اس
لیے یہ اس تحقیق کا حصہ نہیں بنتی۔مگر 1970 کی دہائی کے آخر میں محقیقین کے
ایک گروہ نے ان خرابیوں کو دیکھتے ہوئے ایک تحقیق کی جس نے معاشیات کے دنیا
میں انقلاب برپا کر دیا۔جس کے بعد بہیوریل اکنامکس کے شعبے نے جنم لیا اور
جس کے پیش کنندہ ایک ماہر نفسیات تھے، ماہر نفسیات، سنہ 2002 کے نوبیل
انعام یافتہ پروفیسر ریناتا وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”اس تحقیق نے اس
بحث کو جنم دیا کہ ہمیں یہ احساس ہو سکے کہ کچھ اور عناصر بھی ہماری قوت
فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ صرف فائدہ، اچھی صحت اور زیادہ سے
زیادہ کام کرنا ہی نہیں ہے“1980 کی دہائی میں اس متعلق ایک اور تحقیق پر
مزید کام کیا گیا۔ جس میں بیہوریل اکنامکس یعنی رویوں کے ساتھ منسلک
معاشیات اور نیورو سائنس اور نیورو اکنامکس کی تکنیک کا استعمال کیا گیا۔اس
تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ انسان جب کسی غیر ضروری چیز کو
خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے دماغ میں کیا ردعمل ہوتا ہے۔پروفیسر
ریناتا کا کہنا ہے کہ ”اب ہمارے لیے اس بلیک باکس کو کھولنا ممکن ہے جسے
ماہر معاشیات انسانی ذہنوں کے فیصلے کہتے ہیں۔ درحقیقت اگر آپ دیکھیں تو
سمجھیں گے کہ کیا ہو رہا ہے جب کوئی انسان فیصلہ لینے لگتا ہے تو اس کے
دماغ میں کیا ہوتا ہے”وہ مزید کہتی ہیں کہ ”جب آپ نیورو اکنامکس پڑھتے ہیں
جس میں یہ خیال ہے کہ ہم اپنے رویوں، فیصلہ سازی کو قابو کر سکتے ہیں اور
جو ہم کرتے ہیں وہ ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ فیصلہ سازی کے محرکات منطقی،
عقلی اور تجزیاتی نوعیت کے نہیں ہوتے۔ یہ فیصلے بہت حد تک جذبات کے ساتھ
منسلک ہوتے ہیں۔خود کو”نہ کہنا‘‘سیکھیں،سب سے پہلے یہ جاننا اچھا ہے کہ
جذبات اور احساسات کا ہمیشہ خراب ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ہماری
بقا کے لیے بہت ضروری ہیں۔ساؤ پولو کی وفاقی یونیورسٹی کے پروفیسر اور
نیورو سائنسدان ایلوارو ماخادو دیاس کا کہنا ہے کہ ”قدرت نے ہمیں محبت اور
منطق دونوں چیزیں عطا کی ہیں اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ بیکار نہیں ہیں۔
جب آپ جذبات سے عاری ہو جاتے ہیں تو دوسروں کے لیے احساس نہیں رکھتے۔ ہمارے
فیصلہ زیادہ خود غرض ہو جاتے ہیں اور یہ معاشرہ مجموعی طور پر تباہ حال ہو
جاتا ہے“لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جذبات ہم سے سنگین غلطیاں کروا دیتے ہیں
جو ہمیں یا تو پچھتاوے یا قرضوں میں دھکیل دیتی ہیں۔اس لحاظ سے بیہوریل
اکنامکس اور نیورو اکنامکس ہمارے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے کہ وہ ہمارے غیر
منطقی فیصلوں کو حساب لگا لے اور ہم غلط فیصلے کرنے سے بچ جائیں۔اس کا سب
سے پہلا قدم کو تھوڑا مشکل ہے وہ خود کو نہ کہنا سیکھنا ہے۔ایلوارو خبردار
کرتے ہیں کہ ”جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں جب تک یہ جائزہ نہ لے سکیں
کہ بعد میں پچھتاوا آپ کی پارٹی کو خراب نہ کریں۔ اپنے مستقبل کو بہتر
انداز میں سمجھیں اور اپنی ضروریات اور تقاضوں کو سمجھیں۔ خود کو نہ کہنا
ایک بچے کو انکار کرنے جیسا ہے، یہ مشکل ضرور ہے لیکن یہ مثبت ہے“ریناتا
تیویروس کے مطابق اپنے اس طرح کے ردِعمل کو روکنے میں رکاوٹ درحقیقت
ادائیگی کرنے کے آسان طریقوں میں اضافے کی وجہ سے بھی پیدا ہوئی ہے۔ویب
سائٹس پر استعمال ہونے والے کیو آر کوڈز اور کریڈٹ کارڈز اس کی مثال ہیں۔اس
کے علاوہ ڈوپامائن نامی اعصابی ہارمون جو کہ دماغ کو ”انعام کا احساس“دلاتا
ہے وہ بھی اس میں مداخلت کرتا ہے۔جب ڈوپامائن خون میں شامل ہوتا ہے تو اس
سے ہمارا بلا سوچے سمجھے کام کرنے کا رویہ متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ کیسے کام
کرتا ہے؟ آپ کو کچھ حاصل کرنے کی اْمید ملتی ہے۔ یہ دولت، صحت، لذت یا
دوسروں کے سامنے ایک اچھا تاثر بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ جذباتی رویہ آپ میں
فوراً یہ انعام حاصل کرنے کی لگن پیدا کر دیتا ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ
خریداری کے مرحلے میں وہ طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جو اکثر گیمز میں
ہوتے ہیں۔ یعنی خریداری کے کام کو ایک گیم میں بدل دیا گیا ہے۔سپرمارکیٹس
اور آن لائن شاپنگ ایپس خاص تعداد میں خریداری کر کر کے پوائنٹس تک پہنچنے
کے بدلے میں انعامات مثلاً ڈسکاؤنٹس یا مفت چیزوں کا وعدہ کرتی ہیں۔تیویروس
نشاندہی کرتی ہیں کہ برازیل میں شہریوں پر بھاری قرضوں کی وجہ اس طرح کے
برے فیصلوں کو قرار دیا جا سکتا ہے۔نیشنل کنفیڈریشن آف کامرس آف گڈز، سروسز
اینڈ ٹورازم کے اگست 2021 کے مطالعے میں پایا گیا کہ چار میں سے ایک
برازیلی (25.6 فیصد) اس مہینے میں اپنے قرضے ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے
تھے۔برازیل میں ہمارے ہاں سنگین مسائل ہیں اور خریداری پر ابھارنے والی یہ
سب چیزیں اس صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کر رہی ہیں۔اس لیے اس طرح کے بلا
سوچے سمجھے فیصلہ کرنے کے رویے سے بچنے کے لیے سنہری مشورہ ہے کہ کوئی چیز
خریدنے سے پہلے 'ایک مرتبہ ضرور مڑیں۔وہ کہتی ہیں: 'میں اکثر صارفین کے
کریڈٹ کارڈز پر ایک سٹیکر چپکا دیتی ہوں جس پر لکھا ہوتا ہے کہ 'تھوڑا اور
آگے چلیں، تھوڑا انتظار کریں، سانس لیں۔اس کیمیائی مادے پر وقت کا اثر ہوتا
ہے اور جلد ہی 'مجھے یہ ضرور چاہیے' کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور مذکورہ
شخص اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ اس پیسے کو کہیں اور استعمال کر سکتے
ہیں۔”دماغ میں حساب کتاب نہ کریں“مگر خریداری سے پہلے بھی ان غلط فیصلوں سے
بچا جا سکتا ہے۔ریناتا تیویروس کہتی ہیں کہ جب آپ کو مکمل طور پر معلوم ہو
کہ آپ کے مالی حالات کیا ہیں تو قرض میں ڈوبنا مشکل ہوتا ہے۔'ہر کسی میں یہ
ہمت ہونا بہت ضروری ہے کہ وہ مالی حالات کے بارے میں جانیں اور اپنے حساب
کتاب دیکھتے رہا کریں۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہے مگر ایسا کرنے کے
بعد اْنھیں اچھا احساس ہوتا ہے۔ اگر آپ انھیں دیکھنے سے ڈرتے ہیں تو آپ ہر
طرح کے ذہنی جال میں پھنس سکتے ہیں۔ان میں سے ایک جال 'ذہن میں حساب کتاب
کرنا’“ ہے۔ ہم اپنی مالی حالت کے بارے میں جو دماغی حساب کتاب لگاتے رہتے
ہیں ان میں سے زیادہ تر غلط ہوتی ہیں۔ہم حساب لگاتے ہیں۔ ”اگر میں سو کماؤں
گا تو 50 سپرمارکیٹ میں خرچ کر سکتا ہوں، 20 شراب خانے میں، اور صرف 10
کھانے پر۔ اس کے علاوہ میرے پاس 15 دیگر اخراجات کے لیے بھی ہوں گے۔ تو آپ
15 کا سو کے ساتھ اور 10 کا سو کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں مگر یہ حساب ٹھیک
نہیں بیٹھتا۔ پھر معلوم ہوتا ہے وہ بندہ گھاٹے میں ہے۔جس کام کی ضرورت ہے
وہ اپنے اخراجات کو قلم سے لکھنا ہے۔ آپ اپنی تمام کمائی اور تمام اخراجات
کو واضح طور پر لکھیں تب آپ کو صحیح اندازہ ہو گا کہ آپ کتنے پیسے خرچ کر
سکتے ہیں۔”اپنے مستقبل“کا خیال رکھیں،ہمیں جو سب سے اہم فیصلے کرنے چاہئیں
ان میں سے ایک اپنے مستقبل کے بارے میں سوچانا اور اس کی منصوبہ بندی کرنا
ہے۔بے روزگاری، غیر رسمی کاروبار اور مہنگائی والے کئی ممالک میں لوگوں کے
لیے یہ انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔مگر جب حالات سازگار ہوں تب بھی ایسا کرنا
اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟معاشی عوامل میں سے ایک 'انٹرٹیمپورل ڈسکاؤنٹنگ'
شاید اس بات کو سمجھنے میں مدد دے سکے۔ریناتا تیویروس کہتی ہیں کہ”کوئی
دوربین اٹھائیں اور اسے الٹا پکڑ لیں۔ کیا ہوگا؟ جو دور ہے وہ چھوٹا سا نظر
آئے گا اور جو قریب ہے اس کا سائز بڑا ہو جائے گا۔”ہمیں فوری طور پر، ابھی
کے ابھی انعام چاہیے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس فائدے سے بڑا نظر آ رہا ہوتا ہے
جو مستقبل میں ہے اور ہم سے پوشیدہ ہے، جس کے بارے میں ہم نہیں
جانتے۔نیورواکنامک مطالعوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم مستقبل کے لیے پیسے
بچانے کے بارے میں سوچتے ہیں تو دماغ کے وہی حصے فعال ہوجاتے ہیں جو کسی
اجنبی کو پیسے دینے کے خیال سے فعال ہو جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر زلزلے
کی شدت سکیل پر پانچ ہو تو یہ چار شدت کے زلزلے سے دس گنا زیادہ طاقتور
ہوگا اور اس میں 31 گنا زیادہ توانائی کا اخراج ہو گا۔اس سے معلوم ہوتا ہے
کہ ہمارے دماغ کے لیے مستقبل کے لیے پیسے بچانا اور وہی پیسے کسی اور کو دے
دینا ایک برابر ہے۔ریناتا تیویروس کے مطابق اس کا ایک حل اپنے اندر تھوڑی
سی ”کوشش“ پیدا کرنا ہے جو آپ کی اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ بہتر انداز
میں سوچنے میں مدد کر سکتا ہے۔'میں اکثر ایک کام کرتی ہوں کہ اْن ایپس کا
استعمال کرتی ہوں جس سے آپ بوڑھے نظر آتے ہیں۔ اس سے آپ اس تصویر سے اپنے
آپ کو جوڑ پاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ آپ اس شخص کے لیے
کیا چاہیں گے۔ چنانچہ آپ اپنے اور اپنے مستقبل کے درمیان ایک دماغی کنکشن
بنا لیتے ہیں۔اپنے آپ کو ”ہاں“ کہنا سیکھیں“نیوروسائنٹسٹ ایلوارو ماخادو
دیاس خبردار کرتے ہیں کہ جہاں پیسے بچانا اہم ہے وہیں آپ کو خود کو اجازت
دینا بھی آنا چاہیے۔یہ نہ تصور کر لیں کہ خود کو (خرچ کرنے کی) اجازت دینا
ہمیشہ ہی برا ہوتا ہے اور نہ ہی اس غلط تصور میں پھنسیں کہ اپنے آپ کو
مسلسل خوشی سے روکے رکھنا ضروری ہے۔ ہم آج ایسے لوگوں کا سمندر دیکھتے ہیں
جن میں جینے کی کوئی تمنّا نہیں ہے۔ایلوارو کے مطابق ہم زندگی کے بارے میں
جو فیصلے لیتے ہیں، چاہے وہ معاشی ہوں یا نہ ہوں، ہمیشہ بالکل منطقی حساب
سے نہیں لیے جا سکتے اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔کبھی کبھی ہم پر جذبات
کا غلبہ ہو جاتا ہے اور درحقیقت اس سے برے نتائج بشمول افسوس تک پیدا ہو
سکتا ہے۔مگر منطقی فیصلوں کے باعث ہمارے گروہ، ہماری نوع اور ہمارے معاشرے
کے لیے اچھے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے مشورہ یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا
چاہیے کہ اپنی توانائی اور اپنے خدشات کہاں استعمال کرنے ہیں۔وہ کہتے ہیں
'نہ ہی اس کا وقت ہے اور نہ ہی یہ معقول ہے کہ آپ اپنے ہر فیصلے کو منطقی
اعتبار سے پرکھنے لگیں۔ آپ کو اپنی جنگ کا انتخاب خود کرنا ہوگا۔ اْن آپشنز
پر غور کریں جو آپ کے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو آپ کی
شناخت بنتی ہیں۔
|