کیا ایم کیو ایم حکومت کا حصہ بن جائے گی؟

سندھ کے سینئر وزیر اور پیپلزپارٹی کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ایک غیر ذمہ دارنہ بیان کے بعد کراچی اور اندرون سندھ میں ایک بار پھر فسادات پھوٹ پڑے۔ جن میں رینجرز کے 2 اہلکاروں سمیت 16 افراد جاں بحق، 48 گاڑیاں، 17 دکانیں، متعدد ہوٹل اور پتھارے نذر آتش کیے گئے۔

یوں تو کراچی میں قتل و غارت گری کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے ،لیکن متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی ساتھ ہی بعض حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ لسانی، احتجاجی اور خونی سیاست کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد حالات کی سنگینی میں مزید شدت آئی۔ پھرڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جمعرات کی شام کو موصوف نے اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر معذرت کی جس کے جواب میں متحدہ کے قائد الطاف حسین نے کارکنوں کو احتجاج ختم کرنے کا حکم دیاتو شہر بھر میں فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ کی کاروائیاں بند ہوگئیں۔

کراچی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر صدر زرداری نے چودھری شجاعت کو ایم کیو ایم کو منانے اور صلح صفائی کا ٹاسک دیا۔ اس کے لیے وہ کراچی آئے۔ انہوں نے یہاں متعددرہنماﺅں سے ملاقاتیں بھی کیں اور اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے واضح کیا کہ صدر نے جس مشن پر کراچی بھیجا تھا وہ کامیاب ہوگیا۔ بعض مبصرین کے مطابق ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا بیان وقتی جوش کا شاخسانہ نہیں بلکہ قیادت کے حکم پر دیا گیا اور اس کے لیے پیشگی سوچ بچار کرلیا گیا تھا، لیکن حکمران اتحاد نے کراچی میں جو جوا کھیلا وہ کامیاب نہ ہوسکا۔لیکن ایک بات طے ہے کہ پی پی اینٹی متحدہ ووٹروں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں ضرور کامیاب ہوگئی ہے۔ پی پی قیادت کو بخوبی اندازہ ہے کہ کراچی سے ایم کیو ایم کے ووٹر تو اُنہیں ویسے بھی سپورٹ نہیں کریں گے، اس لیے اس طرح کے اقدام سے پی پی کو کراچی میں کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ۔البتہ اندرون سندھ سندھیوں کی حمایت اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں وہ ضرور کامیاب ہوگئی ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے متحدہ کے قائد کے خلاف نعرہ لگایا اور اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف کرلیا تو اینٹی متحدہ ووٹ بینک کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ،لیکن پھر خود الطاف حسین سے رابطہ کرنے اور اپنے ”مشن“ سے دستبردار ہونے پر عمران خان کو سیاسی طور پر نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بعد ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے ایم کیو ایم کے خلاف مہم شروع کی تو متحدہ کے مخالفین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوگئیں۔ لیکن نواز لیگ نے بھی ایم کیو ایم سے اتحاد کی پینگیں بڑھائیں جس پر ایک طرف اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری طرف سندھ کے قوم پرست رہنماؤں سے کی گئی ملاقاتیں بھی رائیگاں گئیں اور وہ بھی میاں صاحب سے اب ناراض ہیں۔

بہرحال ہمارے سیاست دانوں کو اپنے اختلافات سیاست تک ہی محدود رکھنے چاہئیں۔ کراچی میں ہڑتالوں کی سیاست سے ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ قومی رہنماﺅں کی ساکھ کو بھی بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس طرز سیاست سے ہمیں ریونیو کی مد میں کتنا بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں ہڑتالوں کی وجہ سے حکومت کو ریونیو کی مد میں 20 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق روشنیوں کے شہر میں یہ سلسلہ رواں سال 11 مارچ سے شروع ہوا جب حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کی کال دی جو ہڑتال میں تبدیل ہوگئی۔ اس کے بعد 4 اپریل کو ذوالفقار بھٹو کی برسی کے موقع پر شہر میں کاروباری سرگرمیاں مفلوج رہیں جبکہ اس کے اگلے ہی دن آل کراچی تاجر اتحاد کی اپیل پر بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے خلاف ہڑتال کی گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے پہلی ہڑتال کی کال 3 مئی 2011ءکو دی گئی جس کے بعد ہڑتالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو اب تک وقفے وقفے سے جاری ہے۔ جبکہ بدامنی کے باعث غیر اعلانیہ ہڑتالیں اس کے علاوہ ہیں۔ یوں کراچی میں جنوری سے 15 جولائی 2011ءتک 8 ہڑتالیں کی گئیں۔ جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

ایم کیو ایم کی حکومت میں واپسی سے متعلق میڈیا میں افواہیں گردش کررہی ہیں۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ جلد حکومت کا حصہ ہوگی۔ پی پی اور متحدہ معاملات طے پاگئے ہیں۔ اس حوالے سے ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ رابطے میں ہیں،خواہش ہے کہ وہ حکومت میں واپس آجائے۔ سندھ کے سینئر وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے کہا کہ ایم کیو ایم کو منانے کے لیے حکمت عملی تیار کرلی۔ یہ سب اپنی جگہ درست لیکن حکومتی اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ اب پیپلزپارٹی کو متحدہ کی حکومت میں واپسی سے متعلق کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حکومت سندھ نے متحدہ کے مستعفی وزراءکے 6 محکموں کے قلمدان نئے حلف لینے والے 4 وزراءاور 3 مشیروں کو الاٹ کردیے ہیں، جبکہ پی پی کے 2 وزراءآغا سراج درانی اور ایاز سومرو کو بھی اضافی چارج دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں فنکشنل لیگ سے تعلق رکھنے والے امتیاز شیخ کو بھی وزیر اعلیٰ سندھ کا مشیر مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، جس کے بعد سندھ کابینہ میں فنکشنل اورق لیگ کے وزراءاور مشیروں کی تعدادچار ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے اس اقدام سے تو یہی لگتا ہے کہ اب متحدہ کی حکومت میں واپس کے راستے عملاً بند ہوگئے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی کو ایم کیو ایم کی دوبارہ واپسی میں دلچسپی ہوتی تو وہ 9 جولائی کمشنری اور پرانا پولیس نظام بحال نہ کرتی۔ ویسے بھی آیندہ عام انتخابات میں ایک ڈیڑھ سال ہی رہ گیا ہے اور پی پی قیادت کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ متحدہ کو ساتھ رکھنے سے اندرون سندھ اس کی سیاسی قوت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جبکہ سندھ کے بعد وفاقی کابینہ میں بھی آیندہ ہفتے ردوبدل اور توسیع کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہرجماعت ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اپنے ”پتے“ مہارت سے استعمال کرنا چاہتی ہے قوم کی درگت بنتی ہے تو انہیں اس سے کیا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.