شیخ خالد زاہد کی کتاب ‘قلم سے قلب تک‘ کا جائزہ

مجھے یاد ہے کہ میرا پڑھائی کا سال ہفتم تھا اور عیسوی کیلنڈر کا سال 1962- اسلامیہ ہائی اسکول کا طالب علم تھا -استاد محترم مولانا عبدالشکور صاحب تھے - انہوں نے ‘میری پسندیدہ کتاب ‘ پر مضمون لکھنے کے لئے دیا - میں نے فیروز سنز کی کتاب "کشمیر کی بیٹی " کو اپنی پسندیدہ کتاب قرار دیا اور اس پر مضموں لکھا - وہ کسی کتاب پر میرا پہلا تبصرہ تھا - - اس زمانے میں اردو کے استاد روائتی اسکولوں سے سند یافتہ نہیں ہو کرتے تھے بلکہ اس زمانے کے کچھ دوسرے کورسز ادیب فاضل' عالم فاضل کئے ہوتے تھے - - استاد مکرم نے حوصلہ افزائی کی اور کتاب پر تبصرہ کرنے کے کچھ اور بھی ہنر بتائے - اس کے بعد کتابوں پر تبصرہ کرنے کا سلسلہ جو شروع ہوا تو اب تک جاری ہے -

شیخ خالد زاہد کی کتاب سامنے ہے -انہوں نے اتنے مختلف الجہت موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور ہر ایک ہی جامع اور مکمل ہے -
ان کی تحریر میں ان کا قلب دھڑکتا دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب قاری کے دل کو بھی اپنے ساتھ ہم آہنگ کرلیتا ہے - لیکن ساتھ ساتھ قاری کو کچھ سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے -
کتاب کے سرورق کا جائزہ لیا تو چونک پڑا - ایک کیمرہ ہے جو دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا ہے -
اور ایک قلم ہے جو اس جانچ پڑتال کو کو قرطاس ابیض کے سپرد کر رہا ہے - غور سے دیکھا تو ایک دوسرا پہلو بھی نظر آیا یہ روشنائی کی دوات ہے جو قلم کی معاون بنی ہوئی ہے اور قلم لکھتا جارہا ہے - دونوں ہی صورتوں میں چاہے اسے کیمرہ سے تشبیہ دیں یا دوات تصور کریں یہ کتاب ارد گرد میں ہونے والے واقعات پر تبصرہ کر رہی ہے - جب کتاب خود تبصرہ کر رہی ہو اور اور تبصرہ کر نے والے شیخ خالد زاہد ہوں تو میرا تبصرہ مدھم پڑ جاتا ہے -

دانا کہتے ہیں کہ کسی بھی علمی یا ادبی کام کے بارے میں سوال اٹھانا کہ اس سے قوم کی کیا خدمت ہوتی ہے عموماً بے محل ہوتا ہے کیونکہ ایسا کام اپنا جواز آپ ہوتا ہے - لیکن سوال کر نے والے اس کے باوجود یہ سوال کرتے ہیں - اگر اس لحاظ سے جناب خالد زاہد کی کتاب کے بارے میں کہا جائے تو انہوں نے ایسے سلگتے مسائل پر مباحث کئے ہیں جن کا آج ہر پاکستانی کو سامنا ہے اور ان کے سبب وہ پریشان ہے - انہوں نے اس کے حل بھی اپنی فہم کے مطابق پیش کئے ہیں ہیں جو آنے والے وقتوں میں مستقبل کے معماروں کو راہ عمل متعین کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں - موضوعات ایسے چنے ہیں کہ قاری کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے کسے پڑھوں - یہی حال میرا ہوا -
ایک عنوان ہے "غیر منظم منصوبہ بندیاں " پاکستان کے سب سے بڑے انجینئرنگ کے ادارے میں روسی ماہرین کے زیر نگرانی کام کرتے ہوئے اس بارے میں کافی آگاہی ہے لیکن اتنے وسیع مضمون کو تین ساڑھے تین صفحات میں اس طرح سمو دینا کہ قاری اس کی باریک نکات سے پوری طرح واقفیت حاصل کر لے سہل نہیں تھا لیکن مصنف اس میں کافی حد تک سرخرو رہے - وہ کہتے ہیں کہ بعض جگہ تو ہمارے سیاست دان عوام کو ایسے منصوبوں کے خواب دکھا تے ہیں جن کی عوام کو مخصوص علاقے میں ضرورت ہی نہیں ہوتی - میں تھوڑا سا اضافہ کر نا چاہتا ہوں کہ خواب دکھاتے ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ایسے مںصوبوں کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچا دیتے ہیں - جنرل ضیاءالحق کے دور میں ایک وزیر برائے معاشی امور جناب ڈاکٹر محبوب الحق کا تقرر کیا گیا تھا - انہوں نے ایک رپورٹ دی تھی کہ اس وقت تک کتنے ایسے منصوبے مکمل کئے گئے تھے یا مشینیں خریدی گئیں تھیں جن کی ملک کو ضرورت ہی نہیں‌تھی - جناب شیخ خالد زاہد طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک میں صرف خاندانی منصوبہ بندی پر توجہ دی جاتی رہی ہے - کالم نگار جناب حسن نثار نے بھی ایک مرتبہ اس بارے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پچھلے کئی عشروں سے یہ پروگرام چل رہا ہے اور ملک کی آبادی ہے کہ قابو میں ہی نہیں آرہی - پچھلے دو تین برس کی ہی آبادی کا تجزیہ کرلیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک فی صد ہے اور پاکستان میں یہ شرح دو فی صد ہے

کوٹا سسٹم کے بارے میں بہت لکچھ لکھا جاتا رہا ہے لیکن تجویز کوئی نہیں دیتا کہ حل کیا ہے --جناب شیخ خالد زاہد نے اس بارے میں اچھی بات کہی ہے کہ کوٹہ سسٹم پر جدید سطور پر کام ہونا چاہیئے اور اس کی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں -میرا تعلق بھی بلوچستان کے دور افتادہ مقام سے ہے اور ہم طالب علم اونٹوں پر بیٹھ کر اسکول جایا کرتے تھے - میرے ایک ساتھی جو خلائی تحقیق کے ادارے میں میرے ہم راہ تھے کہتے تھے کہ ان کے گاؤں میں بچے ننگے پیر اسکول پڑھنے آیا کرتے تھے - ظاہر ہے کہ ہمارا معیار انگریزی وہ نہیں تھا جو اچھے ترقی یافتہ شہر کے بچوں کا ہوتا ہے - بلکہ ایک ترقی یافتہ شہر میں بھی اچھے اسکولوں(جہاں فیس ہی لاکھوں میں وصول کی جاتی ہے ) اور عام قسم کے اسکولوں کے بچوں کا معیار بھی ایک جیسا نہیں ہوتا -
ملائشیا کے سابق سربراہ مہا تیر نے بھی ملک کو ترقی دینے کے لئے اور سب علاقوں کے افراد کو ایک جیسے ترقی دینے کے لئے 'کوٹا سسٹم' کا نفاذ کیا تھا انہیں کئی مقامات پر بہت ہی مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا - مولانا وحیدالدین مرحوم (بھارت ) نے بھی اس سلسلے میں روشنی ڈالی ہے کہ کسی قوم سے کب مایوسی ملتی ہے ---- قصہ مختصر جناب شیخ خالد صاحب نے بال ارباب اختیار کی کورٹ میں پہنچادی ہے اب ان کا کام ہے کہ ان خطوط پر آگے بڑھیں اور سوچیں -
کتاب کے اندر موجود پروف کی غلطیاں آنکھوں کو بھلی نہیں لگتیں - نئی نسل پہلے سے ہی اردو مشکل سے قابو کر رہی ہے - اس طرح کی غلطیاں انہیں اورمزید دشواریوں میں مبتلا کر سکتی ہیں -
امید ہے کہ ہمارے ناشر ان باتوں کا خیال رکھیں گے -
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 354860 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More