کیا پاکستانی میڈیا کا کردار واقعی۔۔۔

چوہدری شجاعت حسین کی 12 جولائی 2011ءکو شہر کراچی آمد سے قبل کراچی میں ایک” ایس ایم ایس“ گردش کررہا تھا جس میں ماضی میں ان کے مذاکرات ،انجام اور اہل کراچی کےلئے خیر کی دعا کی۔ ایس ایم ایس میں لکھا گیا تھا کہ”چوہدری شجاعت حسین نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پرویز مشرف کے مابین تنازع کے حل کے لئے مذاکرات کئے جن کا نتیجہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی معافی اور طویل اسیری کی صورت میں نکلا۔ چوہدری شجاعت حسین نے 2006ءمیں سابق گورنر ووزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی سے صدر مشرف کے کہنے پر مذاکرات کئے اور دعویٰ کیاکہ معاملات حل ہونے والے ہیں مگر کچھ ہی دن بعد نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان کی پہاڑیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے دفن کردیا گیا۔ جون اور جولائی2007ءمیں چوہدری شجاعت حسین نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع کے حوالے سے مذاکرات کئے اور دعویٰ کیا کہ معاملات درست ہوگئے ہیں اور جلد تنازعہ حل ہوجائے گا لیکن بم اور بارود سے لال مسجد کو چور چور کرنے کے ساتھ جامعہ حفصہ کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔جہاں پر سینکڑوں معصوم بچیوں کو شریعت کے نفاذ کے نعرے کے جرم میں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے دفن کردیا گیا۔ایس ایم ایس کے آخر میں لکھا ہوا تھا کہ یا اللہ اب اہل کراچی پر اپنا رحم فرما ! کیونکہ چوہدری شجاعت ایک مرتبہ پھر مذاکراتی مشن پر کراچی آرہے ہیں۔

13 جولائی 2011ءکی رات عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید کی رہائش گاہ پر کمشنری نظام، کراچی کی سابقہ انتظامی حیثیت اور پولیس ایکٹ 1861ءکی بحالی کی خوشی کی تقریب میں سندھ کے سینئر وزیر ،پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے سینئر نائب صدر اور صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی زبردستی میڈیا کے سامنے آکر زہر افشانی نے” ایس ایم ایس “والے خدشے کواس وقت درست ثابت کیا جب ڈاکٹر ذوالفقار مرزانے تقریباً رات 10 بجے میزبان کے منع کر نے کے باوجود اپنی شعلہ بیانی کے جوہر دکھائے اور پھررات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد شہر میں ہر طرف گولیوں، نعروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ا ور جلاﺅ گھیراﺅ کا سلسلہ شروع ہوا جو اگلے دن شام تک جاری رہا۔اگرچہ رات سے ہی پیپلز پارٹی کے مختلف رہنما معافی کا اعلان کرتے رہے لیکن ان کی کسی نے نہ سنی۔ 14 جولائی کو مرزا صاحب کی جانب سے سادہ کاغذ پر ایک بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے ذومعنی الفاظ میں بعض معاملات پر معافی کا اظہار کیا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کا مقصد ایک مخصوص سوچ کو آشکار کرنا تھا جو لوگوں کو قتل کرواتی اور مرواتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس معافی میں بھی چودھری صاحب کا بڑا کردار رہا۔ انہوں نے ذوالفقار مرزا سے ملاقات کرکے انہیں معافی کےلئے راضی کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مرزا صاحب نے چند سیکنڈ کی معافی کی ویڈیو جاری کرادی جس میں اگرچہ انہوں نے معذرت کی مگر وہ اپنے کئے پر کچھ زیادہ نادم نظر نہیں آرہے تھے۔مرزا کی شعلہ بیانی سے قبل چودھری شجاعت نے کراچی آمد کے بعد 12 جولائی کو رات گئے 90 پر متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے ملاقات کی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا جبکہ 13 جولائی کی دوپہر کو انھوں نے ذوالفقار مرزا سے وزیراعلیٰ ہاﺅس میں طویل ملاقات کی جس کے بعدرات 10بجے مرزا نے اپنے جوہر دکھائے اور پھر نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں آگ لگ گئی ۔لیکن اس سب کے باوجود چودھری شجاعت حسین نے 14جولائی کی شب کراچی ائرپورٹ میں کہا کہ” صدر نے مجھے جس مشن پر بھیجا میں اس مشن میں کامیاب ہوا ہوں“۔ اب یہ چودھری شجاعت ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کس مشن پر کامیاب ہوئے ہیں؟؟؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ذوالفقار مرزا نے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کیاتو کیوں؟حالانکہ ان کی اردو بولنے والوں میں بہت قریبی رشتہ داریاں ہیں غالباً ان کے داماد اور بہو دونوں انہی مہاجروں سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کیا۔ اس حوالے سے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ مرزا کے ذاتی الفاظ اور جذبات ہیں لیکن اکثر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ کندھا یا زبان مرزا کی تھی مگر بندوق یا الفاظ کسی اور کے تھے، کیونکہ ذوالفقار مرزا کا شمار صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قابل بھروسہ دوستوں میں ہوتاہے۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شعلہ بیانی کا تعلق سابق اتحادیوں کے مابین اختلافات سے کافی گہرا ہے ۔کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ مرزا نے بھی وہی کیا جو قیوم جتوئی نے کیا تھا دونوں واقعات میں جگہ کا انتخاب ایک اور بڑا سوالیہ نشان ہے ۔28جون 2011ءکو اتحادیوں کی جدائی کے بعد 5 سے 15 جولائی2011ءتک شہرکراچی میں 120 سے زائد افراد جاں بحق، درجنوں زخمی اور درجنوں املاک کے علاوہ 70 سے زاید گاڑیاں تباہ کردی گئیں۔ شہر کو پہنچنے والے تجارتی نقصانات کا اندازہ 10 سے 15 ارب روپے بتایا جاتا ہے۔

13اور14جولائی کے سانحہ سے قبل 10 جولائی 2011ءکو سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے گھر سیاسی اجتماع ہوا جس میں مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ اورجمعیت علماءاسلام(ف) کے سوادئگرسیاسی اور مذہبی جماعتوں کو مدعو کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف دیگر جماعتوں کا ایک مضبوط اجتماع ہے۔بعض لوگوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ جماعت اسلامی کو صوبے میں گورنر شپ دینے کی بھی بات ہورہی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ کراچی کی سطح پر ہونے والے اس مبینہ اتحاد کا اصل مقصد کراچی کی سطح پر متحدہ قومی موومنٹ اور ملکی سطح پر مسلم لیگ( ن) کو تنہا کرناہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینا نتائج مندرجہ بالا ہی نکلتے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذوالفقار مرزا کے بیان نے پیپلز پارٹی کے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا اس پر بھی مختلف آراءہیں۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ مرزا نے کسی کے کہنے پر اس طرح کا بیان دے کر ایک مرتبہ پھر متحدہ قومی موومنٹ کو مہاجر قومی موومنٹ کی جانب واپسی کے سفر پر مجبور کیا جبکہ ایک طبقے کا یہ کہنا ہے کہ اس بیان کے ذریعے متحدہ قومی موومنٹ کو لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوگئیں ہیں اور لوگ شہر میں بجلی کے شدید بحران ، مہنگائی کے طوفان، بیروزگاری، بدامنی اور دیگر مسائل کے بارے میں سوال کرنے کے بجائے اب صرف قومی وقار کے تحفظ کےلئے متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس بیان سے پیپلزپارٹی نے بھی اندرون سندھ اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرلی ہیں اور سندھ کے مختلف علاقوں میں لوگ ذوالفقار مرزا کو بطور ہیر و یا ولن پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیںجس کا فائدہ یا نقصان آئندہ الیکشن میں ظاہرہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 13 جولائی 2011ءکو سندھ اسمبلی نے صوبے میں بلدیاتی نظام 1979،،کمشنری نظام، پولیس ایکٹ 1861ء،لینڈ ریونیو ایکٹ 2011ءاور اعلیٰ تعلیمی بورڈ کا بل 2008ء سمیت چار اہم بلوں کی منظوری دی اور 14 جولائی کو قائم مقام گورنر سندھ نے ان بلوں کی توثیق بھی کی۔ حالانکہ یہی بنیادی اختلافات تھے جن کی وجہ سے 2008ءسے اب تک متعدد مرتبہ اتحادی جماعتوں کے مابین شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ لاکھ کوشش کے باوجود پیپلز پارٹی نے جو کام چند منٹ میں کیا وہ گزشتہ تین سالوں میں نہیں کرسکی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے فوراً علیحدگی کے بعد قائم مقام گورنر سندھ نے پہلے ان نظاموں کی بحالی کے لئے آرڈی ننس جاری کئے۔ پھر چند دن بعد ہی اسمبلی کی منظوری کے بعد انھیں قانونی شکل دے دی ۔کہا جاتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ چاہتی تو پیپلز پارٹی کوشش کے باوجود ان چاروں بلوں کی منظوری میں40 منٹ کی بجائے 40 دن نہیں تو کم از کم 4 دن لگا سکتی تھی لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کے احتجاج سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید وہ بھی کسی حد تک صرف احتجاج برائے احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔

اگرچہ 13 جولائی کو لگنے والی آگ 14 جولائی کی شام کو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی اپیل کے بعد ٹھنڈی ہوگئی لیکن اس آگ میں15 افراد جاں بحق، 30 سے زائد زخمی، 40 سے زائد گاڑیاں نذر آتش، متعدد دکانوں اور درجنوں پتھاروں کو تباہ کردیا اس کا زمہ دار کون ہے؟ وہ ذوالفقار مرزا جس نے ایک قوم کی تضحیک کی، وہ لوگ جو پرامن احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ، وہ انتظامیہ اور حکومت جس نے عوام کو تحفظ فراہم نہیں کیا، چودھری شجاعت کا کامیاب صدارتی مشن یا وہ دانشور اور میڈیا اس کا ذمہ دار ہے جو کراچی کے مخصوص حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے رپورٹنگ کرنے کے بجائے اپنی شعلہ بیانی سے اس آگ پر تیل ڈالتے رہے بعض دانشور اس شہر کے حالات کی نزاکت، اس کے جغرافیہ، اس کے سیاسی انتظام، ماضی کے حالات، یہاں پائے جانے والی تلخیوں اور دوستیوں کو دیکھے بغیر ہی اسلام آباد، لاہور، پشاور اور ملک کے مختلف حصوں میں بیٹھ کر ایسے تبصرے کرتے ہیں جو نہ صرف شہر میں بلکہ پورے ملک میں آگ لگانے اور عدم برداشت کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اب کی بار اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جہاں ان نقصانات کی ذمہ داری حکومت ،سیاسی جماعتوں اور ذوالفقار مرزا پر عائد ہوتی ہے وہیں پر اس کا ایک بڑا ذمہ دار میڈیا بھی ہے۔ لوگوں نے اب یہ بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ ممالک کی تعمیر وترقی میں میڈیا کا اہم کردار ہے لیکن شاید پاکستان کا میڈیا تعمیر وترقی کے بجائے ملک کو دو لخت کرنے میں کوشاں ہے۔

چودھری شجاعت کے دورے کے اب تو یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ سابق اتحادی ایک مرتبہ شیر وشکر ہونے والے ہیں مگر متحدہ کے اقدام سے فی الحال ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن پاکستانی سیاست کی پر خار وادی میں ایسا ناممکن بھی نہیں ہے ۔بعض مبصرین متحد ہ کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی دوبارہ واپسی کا بھی چرچا کر رہے ہیں یہ واپسی ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کی مکمل اسکرین سے آؤٹ ہوئے بغیر ایم کیو ایم کی رضامندی سے ہوئی تو یقیناً متحدہ کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گاجبکہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے لئے پارٹی کی رضامندی کے بغیر واپسی ایک بہت بڑا امتحان ہوگا۔سابق اتحادیوں کے اس تنازع میں متحدہ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد کراچی کے در ودیوار میں مہاجر صوبے کے مطالبے کے نعروں کا یقیناً زیادہ فائدہ مسلم لیگ( ن) کو ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ( ن) کو نیچے دکھانے اور ان کوکمزور کرنے کےلئے جس سرائیکی یا ہزارہ صوبے کی بات کی تھی کراچی کے در ودیوارپر لکھے ہوئے ان نعروں نے پیپلز پارٹی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ کیونکہ اگر لسانی بنیادوں پر سرائیکی، پنجابی ،ہزارہ اور پختون صوبہ بن سکتا ہے تو پھر بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مہاجر صوبہ کیوں نہیں!۔ اس نعرے نے شدت اختیار کی تو سندھ پاکستان کاواحد صوبہ ہوگا جہاں اس نعرے کی بنیاد پر جنگ وجدل ہوسکتا ہے کیونکہ سندھ کے لوگ کسی صورت یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کراچی الگ ہو۔ اس وقت صوبہ سندھ مجموعی طور پر ملک کو 70 فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے جس میں سے 55 فیصد حصہ صرف کراچی کا ہوتا ہے۔ پاکستان کے ٹیکس کا 50 فیصد سے زائد حصہ صرف کراچی دیتا ہے۔ یہاں پر 50 لاکھ کے قریب لوگ مزدوری اور دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں جس کا اثر پوری ملکی معیشت پر پڑتا ہے۔ کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے 5 سے 10 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر روزانہ 10 ارب روپے کی امپورٹ جبکہ 5 ارب روپے کی ایکسپورٹ ہوتی ہے اور یہاں ملک کی واحد متحرک بندرگاہ ہے ۔کراچی کی معاشی سرگرمیوں کا براہ راست تعلق ملکی سیاست، معیشت، اور حالات پر پڑتے ہیں اس لئے کراچی کاامن تو پاکستان کاامن ہے۔ کراچی کی بدحالی پورے پاکستان کی بدحالی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم اب ملک بچانے کےلئے اٹھ کھڑی ہو اور انفرادی نعروں کے بجائے پاکستانیت کا علم لے کر آگے بڑھے۔ یہی ہم سب کو تباہی سے بچا اور تعصبات سے نکال سکتا ہے اور اسی میں ہم سب کی بقاءہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 96694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.