ایک روز کسی نے درخت سے آکر کہا‘
لوہار کی دکان میں تمہارا دشمن تیار کیا جا رہا ہے۔ درخت نے پوچھا‘ کون سا
دشمن ۔ کیا نام ہے اسکا ؟ درخت کو بتایا گیا ‘وہ دشمن لوہے کی ایک کلہاڑی
ہے ۔ درخت نے پوچھا‘ کلہاڑی کو لوہے سے بنایا جا رہا ہے۔ وہ میرا کیا بگاڑ
لے گی۔ مجھے کلہاڑی کی پروا نہیں۔کہنے والے شخص نے کہا‘اس کلہاڑی سے تمہیں
کاٹا جائے گا۔ درخت بولا ‘یہ ممکن نہیں۔ تم مجھے خوامخواہ ڈرانے کی کوشش نہ
کرو ۔ میں کسی کلہاڑی ولہاڑی سے خوف زدہ ہونے والا نہیں ۔ چند روز بعد اسی
شخص نے درخت کو اطلا ع دی‘ کلہاڑی تیا ر ہو چکی ہے۔ بس اب تمہاری خیر نہیں۔
درخت نے کلہاڑی کی شکل و شباہت کے بارے استفسار کیا ۔ اسے معلومات بہم
پہنچا دی گئیں۔ درخت نے کہا ‘ کلہاڑی کو خالص لوہے سے تیا ر کیا گیا ہے ۔
وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ میں لو ہے سے زیادہ طاقتور ہوں۔ دوروز بعد وہ
شخص پھر سے درخت کے پا س آیا اور اسے سنسنی خیز اطلاع دی‘ کلہاڑی کو چلانے
کے لئے اس میں دستہ فٹ کر دیا گیا ہے ۔ درخت نے پوچھا ‘ یہ دستہ کیا ہوتا
ہے ؟ اسے بتایا ‘دستہ کسی درخت سے کاٹی گئی ایک موٹی شاخ ہو تی ہے ۔ دستے
کو ہاتھ میں تھام کر کلہاڑی سے وار کیا جاتا ہے ۔ اب تم کٹنے کے لئے تیار
ہو جاؤ!درخت نے ایک ٹھنڈی آہ بھر ی اور شکست خوردہ انداز میں بولا‘تم ٹھیک
کہتے ہو دوست۔ اب واقعی مجھے تشویش میں مبتلا ہو جا نا چاہیے ۔کیونکیہ میرا
اپنا دشمن سے جا کر مل گیا ہے ۔ اگردرخت کی شاخ کلہاڑی کا دستہ نہ بنتی تو
وہ لوہے کا ٹکڑا میرے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا؟
اس پرانی سندھی کہانی میں ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ جب ہمارے اپنے ہی
دشمنوں کے ساتھ مل جائیں تو ہمیں دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست سے دوچار کر
سکتی ہے۔کیونکہ وہ ہمارے تمام تر منصوبوں کے ساتھ ساتھ ہماری کمزوریوں سے
بھی بخوبی سے آگاہی رکھتے ہیں۔ ایک مشہور زمانہ کہاوت”گھر کا بھیدی لنکا
ڈھائے “ سے تو آپ بھی بخوبی واقف ہو نگے ۔ابھی چند روز قبل پیپلز پارٹی سے
تعلق رکھنے والے جناب ذوالفقار مرزا نے جس طرح سے ہم پاکستانیوں کی عزت
افزائی کی ہے اُ س نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں
ہے، کیونکہ انکے اپنے ”سنہری کلمات“نے لگ بھگ پندرہ افراد کی جان لے لی اور
مالی طور پر ملک کو خمیازہ علیحدہ بھگتنا پڑا ہے۔اگرچہ انہوں ازںبعد اس کی
تلافی ”معافی“مانگ کر دی۔مگرجناب! کیا زبان کے زخم آسانی سے بھر جا تے ہیں
کیا؟قبل ازیں اس سلسلے میں رحمن ملک صاحب نے بھی افسوس کا اظہار کیا،لیکن
کیا اسطرح کے کارنامے ہمارے سیاستدانوں کو انجام دینے چاہیے جس میں انکی
اپنی بھی خاطر خواہ”نیک نامی“ہو جاتی ہو؟ہم لوگ پھر بھی آزمائے ہوئے
”کارتوسوں“ کو بار بار استعمال کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور جب وہ
ہماری امیدوں اور اعتماد کو ایسے انداز میں توڑتے ہیں توہم پتا نہیں کیوں
نادم سے ہو جاتے ہیںحالانکہ ہم ہی تو اپنے سرپر انہیں بیٹھاتے ہیںپھر سر
بھی خود پیٹتے ہیں۔علاوہ ازیں دوسری بات یہ ہے کہ ہم خوامخواہ ہی بھارت
وامریکہ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ پتا نہیں وہ ہمارے ساتھ کیا کچھ کر دیں ۔جبکہ
ہمارے اپنے معززنا اہل لیڈران ہی ملک و قوم کا بیڑا غرق کرنے کےلئے کافی
ہیں۔سب کرپشن کوختم کرنے کےلئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرپشن کرنے میں لگے
ہوئے ہیں کہ کچھ باقی نہ رہے کہ کرپشن کی نوبت ہی آئندہ پیش آئے۔یہ عوام
دوست بن کر انکے ساتھ دشمنوں سے بھی بڑھ کر شایان شان سلوک کرتے ہیں کہ
بچاری عوام کی چیخیں ہی نکل جا تی ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا سے کیا ہو گیا
ہے؟
پاکستان کے دوست ممالک کے دوست بھی پاکستان کے دوست شمارہوتے ہیں۔ یہ سارے
دوست پاکستان کو مضبوط دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور و ہ اس سلسلے میں اپنا
کلیدی کردار سرانجام دے رہے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو سکے،
لیکن بعض دوست نما دشمن ممالک اپنی منصوبہ سازی کے ذریعے سے پاکستان کو
اندرونی طور پر کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔گذشتہ چند سالوں سے
ہونے والے دہشت گردی کے واقعات(بالخصوص جی ایچ کیو،پی ایس این مہران حملہ
کیس ایسے واقعات)، بلوچستان کی گھمبیر صورتحال،معاشی عدم استحکام اور ملک
کی سلامتی کو خطرات میں دھکیلنے والے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری صفوں
میں دشمنوں کے آلہ کار(آستین کے سانپ) گھسے ہوئے ہیں۔ جن کی سرکوبی ملک کی
سلامتی کے لئے ناگزیر ہے کیونکہ جب تک ہم اندر سے مضبوط نہیں ہونگے اپنے
ظاہر دشمنوں سے خاطرخواہ محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ اس سلسلے میں متعلقہ
اداروں کو اپنے اندر مزید بہتری لانی چاہیے اور مشتبہ اشخاص کے نفسیاتی
رحجان کی بابت معلومات کے لئے نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہیں
کیونکہ وقت پر لگا یا گیا ایک ٹانکا بے وقت کے نوٹانکوں سے بچا تا ہے۔ اس
سلسلے میں عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور تخریب کارعناصر کے
بارے میں فوری طور پر اطلاع متعلقہ اداروں کو فراہم کریں تاکہ ان جیسے دوست
نما سماج دشمن عناصر سے چھٹکارہ پا یاجا سکے یا پھر کم از کم اتنا تو کیا
جا سکے کہ پیش آمدہ نقصان کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ |