افسر شاہی ایک الگ شاہی ہے ایک الگ حکومت ہوتی ہے جس میں
کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ کلرک بادشاہ سے ڈی سی تک ہر اہلکار اپنے
اختیار سے کہیں زیادہ با اختیار ہوتا ہے۔ افسر تو افسر ہوتے ہیں مگر عوام
کے لیے تو سرکاری چپڑاسی بھی افسر ہوتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں
لینے والے سرکاری اہلکار ہوتے تو عوام کے ملازم ہیں مگر وہ عوام کو اپنی
رعایا سمجھتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری دفتر میں اپنے جائز کام کے لیے بھی آپ کے
پاس دو چیزوں کا ہونا لازم ہے ایک رشوت اور دوسری سفارش ، ان میں سے ایک
بھی کم ہو تو آپ کا کام مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے اور اگر یہ دونوں آپ کے
پاس نہ ہوں تو پھر کام کا ہونا کسی صورت بھی ممکن نہیں کیونکہ سرکاری دفاتر
میں فائلوں کو آگے بڑھانے کے لیے پہیے لگانے پڑتے ہیں جو پیسے کے بغیر نہیں
لگ سکتے اس لیے بندے کو ہر صورت رشوت دینی پڑتی ہے کیونکہ اگر آپ رشوت دے
کر فائل کو پہیے نہیں لگاتے تو پھر آپ کو اپنے جوتے گھسوانے پڑتے ہیں
سرکاری اہلکار اتنے چکر لگواتے ہیں کہ بندہ چکرا کے رہ جاتا ہے کسی نے خوب
کہا ہے کہ سرکاری اہلکار کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کی
رشوت لیتے ہیں۔
سرکاری دفاتر میں عام آدمی کا کیا حشر ہوتا ہے یہ صرف وہی جانتا جو کبھی
رشوت اور سفارش کے بغیر کسی دفتر میں گیا ہو اور اگر واسطہ کسی پٹواری سے
پڑا ہو تو پھر ستے ای خیراں۔ 9ویں سکیل کے ایک عام سے پٹواری کی طاقت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے وسیب کے سیاستدانوں کی سیاست
پٹواریوں اور تهانیداروں کے گرد گھومتی ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ
اسلام آباد اور لاہور میں ہمارے سیاسی نمائندوں کا سب سے بڑا کام اپنی مرضی
کے پٹواری اور تهانیدار کی تعیناتی یا تبادلہ ہوتا ہے اور پھر اسی سیاسی
آشیر باد اور پشت پناہی کی وجہ سے پٹواریوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا
اور وہ دونوں ہاتھ سے عوام کو لوٹتے ہیں اور اگر کبھی کوئی کچھ پوچھنے کی
جرآت کر لے تو قلم چھوڑ ہڑتال کر دیتے ہیں۔
لیه میں پچھلے کئی روز تک پٹواریوں نے ہڑتال کئے رکھی وہ حال ہی میں تعینات
ہونے والی اسسٹنٹ کمشنر شیزا رحمان کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ان کا مطالبہ
تھا کہ اے سی لیه کا فوری طور پر تبادلہ کیا جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ
اسسٹنٹ کمشنر شیزا رحمان کتنی ایمان دار افسر ہیں مگر جب پٹواریوں کو ان کے
خلاف ہڑتال پر دیکھا تو یقین ہو چلا کہ وہ دوسروں کی نسبت بہتر ہونگی کہتے
ہیں کہ جب کسی کے خلاف تمام چور لٹیرے ٹھگ اکھٹے ہوجائیں تو سمجھ لیں بندہ
ایماندار ہے۔
شیزا رحمان ایک ہفتہ قبل لیه میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئی ہیں لیه میں کسی
خاتون اے سی کی پہلی تعیناتی ہے انھوں نے آتے ہی سب سے پہلے مختلف پیٹرول
پمپوں کے پیمانے چیک کئے اور متعدد پیٹرول پمپوں کو کم پیمانے رکھنے پر
جرمانے بھی کئے اس علاوہ شوگر ملز لیه میں چینی کے سٹاک کا ریکارڈ بھی چیک
کیا اور تنبیہ کی کہ ہول سیل ڈیلرز حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر چینی فراہم
کی جائے۔ اس کے علاوہ پٹواریوں کو عوام کے ساتھ رویہ بہتر کرنے کے ساتھ
ساتھ کام کی رفتار تیز کرنے کا کہا کیونکہ کام کی سست روی کا ایک مقصد یہ
ہوتا ہے کہ سائل کو رشوت دینے پر مجبور کیا جائے۔
پٹواریوں کی پچھلے ایک ہفتے تک جاری رہنے والی ہڑتال کی وجہ سے لوگوں کو
شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لوگ تو پہلے بھی پٹواریوں کے کام کے انداز
سے تنگ تھے اور اوپر سے انکی ہڑتال نے لوگوں کو مزید مشکلات سے دوچار کر
دیا دوسری طرف وکلاء ، سول سوسائٹی ، سماجی حلقے اور شہری بھی اسسٹنٹ کمشنر
کے حق میں باہر آگئے ہیں بار روم کے بعد ختم نبوت ٹی ڈی اے چوک میں بھی
شہریوں کی کثیر تعداد نے اے سی لیه شیزا رحمان کے حق میں واک کا اہتمام
کیا۔ یہ امر نہ صرف خوش آئند بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ شہری سرکاری
اہلکاروں اور خاص طور پر پٹواریوں کی کرپشن اور لوٹ مار سے تنگ ہیں اور
انہیں اے سی لیه سے امید کی ہلکی سی کرن نظر آئی تو وہ اس کے ساتھ کھڑے
ہوگئے۔
یوں تو پاکستان تحریک انصاف سے لوگوں نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی
تھیں مگر ان میں ایک امید یہ بھی تھی کہ عمران خان جب اقتدار میں آئیں گے
تو ملک سے رشوت سفارش اور لوٹ مار کے کلچر سے نجات مل جائے میرٹ کی بالا
دستی ہوگی انصاف کا بول بالا ہوگا مگر تین سال کی کہانی میں جہاں ہمیشہ بڑے
چوروں کو بڑی بڑی سزائیں دینے کے بڑے بڑے وعدے اور دعوے تو کئے جاتے ہیں
مگر وہاں ہر ضلعے ہر تحصیل ہر ادارے ہر محکمے اور ہر دفتر میں بیٹھے ان
چوروں اور لٹیروں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو بظاہر تو چھوٹے ہیں مگر
حقیقت میں یہ زیادہ بڑے اور خطرناک ہیں جو براہ راست عوام کو ذلیل کرتے اور
دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں کسی بھی حکومت کی کامیابی اور ناکامی میں ان کا
بڑا کردار ہوتا ہے آج اگر پی ٹی آئی اپنے کرپشن سے پاک ملک کے ویژن میں
ناکام نظر آتی ہے تو اس کی سب سے اہم وجہ دفاتر میں ہونے والی کرپشن سے چشم
پوشی ہے جہاں نیچے سے اوپر تک کرپشن کمیشن اور حصوں کا ایک بازار گرم ہے
اور کوئی پوچھنے والا نہیں ایسے میں کہیں سے بھی مال پانی یا مفادات کو زک
پہنچنے کا خطرہ ہو تو سرکاری اہلکار ہڑتال کر دیتے ہیں جو کہ ریاست کی گرفت
کے کمزور ہونے کی علامت ہے اب جبکہ پٹواریوں کی ہڑتال ختم ہوگئی ہے تو
دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو کام چوری ، رشوت اور لوٹ مار سے نجات مل پائے گی
یا حسب معمول سب کو حصے ملتے رہیں گے اور عوام کی جیبں کٹتی رہیں گی۔؟
مظہر اقبال کھوکھر
|