70 سالہ خاتون عالمہ کا تعلق سندھ کےمیر بحرقبیلے سے ہے
جسے ’’دریا کے بادشاہ ‘‘ کا خطاب دیا گیااور اس قبیلے کے افراد آج بھی
کشتیوں پر بنے گھروں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان لوگوں کا مرنا ، جینا،
شادی بیاہ،اور مذہبی و سماجی رسومات سطح آب پر کشتیوں میں ہی ہوتی ہیں ۔بوڑھی
عالمہ نوڈیروکے قریب کشتی پر رہتی سے ہے۔ اس کی پیدائش 1950ء میں کشتی پر
ہی ہوئی اور جب سے وہ دریا کی سطح پر ہی رہ رہی ہے۔ اس کی شادی اسی کشتی پر
ہوئی جب کہ یہیں پر اس کے گیارہ بچوں کی پیدائش ہوئی۔ اس کے والدین کا
انتقال بھی کشتی پر ہی ہوا ، جنہیں نزدیکی قبرستان میں دفنایا گیا۔عالمہ کے
مطابق جب وہ پیدا ہوئیں تو اس وقت ان کی برادری کے زیادہ تر افراد کشتیوں
پر بنے گھروں میں رہتے تھے، مگر اب وہ لوگ مختلف شہروں اور گوٹھوں میں گھر
بنا کر رہ رہے ہیں۔ اس کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ چار بچے پیدائش کے
کچھ عرصے بعد ہی مر گئے، اس لیے اب اس کے سات بچے ہیں۔ اس کی بیٹیاں اور
بیٹے شادی کے بعد کشتی کی زندگی کو خیر باد کہہ کر ملاڑکانہ اور نوڈیرو کے
مختلف علاقوں میں گھر بنا کر رہ رہیں ہیں۔ بیٹوں نے اسے بھی اپنے ساتھ
رکھنے کی کوشش کی لیکن اس نے یہ کہہ کو ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ
اس کا جینا مرنا دھر کی بجائےکشتی کے ساتھ ہے۔ اس کی تمام زندگی دریا کے
سینے پر ڈولتی ہوئی کشتی میں گزر گئی ، اب دھرتی پر جاکے کیا کرنا ہے۔ اب
تو مرنے کے بعد ہی زمین میں دفن ہونے جاؤں گی۔ اس کے شوہر نے بھی ان کے
ساتھ جانے سے انکار کردیا۔
10سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد عالمہ نے اپنے شوہرعبدالکریم کے ساتھ
مچھلیاں پکڑنے اور مسافروں کوایک مقام سے دوسری جگہ تک پہنچانے کے لیے کشتی
رانی کا پیشہ اپنایا۔ شروع میں اسے اپنے شوہر کے علاوہ رشتہ داروں کی مدد
بھی حاصل تھی لیکن ان کے جانے کے بعد دریا کے سینے پرصرف وہ دونوںرہ گئے
ہیں ۔ اس کا شوہر ایک پاؤں سے معذورہے، پھر بھی کشتی رانی اور ماہی گیری
میں اس کی مدد کرتاہے۔ عالمہ کا اکثر بسیرا دریائے سندھ میں بائیں جانب
نوڈیرو شہر سے دو کلومیٹر دور کیٹی ممتازعلی بھٹو میں برڑہ پتن پر ہوتا
ہے۔وہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے رات کو دریا میں جال لگاتی ہے اور دن میں اپنی
کشتی سے مسافروں کو ضلع لاڑکانہ سے ضلع خیرپور میر س پہنچاتی ہیں۔
اس کے لگائے ہوئے جال میں کبھی ایک کلو تو کبھی زیادہ مچھلیاں پھنستی ہیں،
جنہیں نکال کر وہ شہر میں فروخت کرکےاپنا اور اقنے شوہر کا پیٹ پالتی ہے۔
مسافروںسے بھی کرائے کی مد میں کچھ رقم مل جاتی ہے۔ دریائے سندھ میں 2010
اوراس سے قبل کئی مرتبہ بڑے سیلابوں کی صورت حال میں عالمہ ایک سماجی کارکن
کی طرح کچے کے گوٹھوں سے لوگوں کو ریسکیو کرنے کافریضہ بھی انجام دے چکی
ہے۔عالمہ اور اس کے شوہر کے شب و روز دریا پر ہی گزرتے ہیں۔کشتی سے اتر کر
وہ اس وقت زمین پر جاتے ہیں جب ان کے رشتے داروں میں سے کسی کے گھر شادی یا
فوتگی ہو۔وہ نانی اور دادی بننے کے باوجود ابھی بھی چاق و چوبند ہیںاور
باقاعدگی سے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے علاوہ خانگی امور کی انجام
دہی بھی کرتی ہیں۔
وہ عیدیا دیگر تہواروں کے دنوں میں اپنے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں اور نواسوں
سے ملنے شہر جاتی ہیں۔ ایک سات سال کا پوتا ان کے ساتھ کشتی پرہی رہتا
ہے۔ساحلی گاؤں اور دیہات کے باسی سیلاب کے دنوں میں کی جانے والی ان کی
خدمات کی وجہ سے ان کی بہت قدر کرتے ہیں۔ فصل تیارہونے پر انہیں کچھ اناج
دان میں دیتے ہیںعالمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام زندگی کشتی میں بسر
کردی، ان کو دریا سے محبت ہے۔ انہیں کشتی میں کھانا، پکانا، اوڑھنا بچھونا
سکون دیتا ہے، جب کہ انہیں دریا سے باہر کی زندگی اجنبی لگتی ہے۔ جب تک ان
کی زندگی ہے وہ کشتی میں ہی جینا پسند کریں گی۔
|