بلکہ سردار داؤد کے دوسرے دورہ کے دوران افغانستان اور
پاکستان کے درمیان پیش رفت بھی ہوئی ۔ اس دوران لاہور کے شالامار باغ میں
پاکستان کے ایک سیاستدان نے سردار داؤ سے کہا کہ کیا آپ افغانستان
اورپاکستان کے درمیان کنفیڈیشن بنانے کے حق میں ہیں؟۔ تو انہوں نے جواب دیا
تھا کہ ایسے فیصلوں سے پہلے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیا ن ایک خاص ماحول
پیدا کرنے کے بعد اس قسم کے اقدامات کامیاب ہوا کرتے ہیں۔مطلب کی افغانستان
اور پاکستان کے درمیان تعلوقات میں مثبت سوچ پیدا ہورہی تھی کہ عبدلقادر
ڈگروال کی قیادت میں انقلاب بر پاہ کرکے سردار داؤد کو ہلاک کر دیا گیا۔اس
دوران پیپلز پارٹی کے اخبار’’ مساوات‘‘ نے کیمونسٹ تبدیلی کے حق میں خبر
شائع کی تھی۔ جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین دوالفقار علی بھٹو نے افغان
مجائدین کی مدد کی تھی۔بھٹو کی پھانسی کے بعد جب بیگم نصرت بھٹو پیپلز
پارٹی کی چیئرمین سربرای بنی تو افغان مہاجرین کو بھگوڑے کہا تھا اور روس
کی مکمل حمایت کی تھی۔روس نے افغانستان پر پاکستان کے حملے کا ہوا کھڑا کیے
رکھا۔ ایک وقت حفیظ اﷲ امین نے کہا تھا کہ اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو ہم
روس سے مدد کی اپیل کریں گے۔اس خواہش کو روس نے پسند کیا اور ۲۸؍ دسمبر
۱۹۷۹ء کو پاکستان کے وزیرخارجہ آغا شاہی کے دورہ کابل سے بہت ہی پہلے بڑے
پیمانے پر افغانستان میں فوجیں داخل کر دیں ۔پاکستان نے روس کی اس کاروائی
پر آغا شاہی کادورہ منسوخ کر دیا۔پھر روس نے حفیظ اﷲ پر امریکی ایجنٹ ہونے
کا الزام لگا کر اقتدار سے ہٹا دیا۔ اسی الزام میں گولی مار کر ہلاک کر دیا
اور ببرک کارمل کو افغانستان کا اقتدار دے دیا۔ ببرک کارمل وہ شخص ہے کہ جب
وہ کیمونسٹ بنا تو اسے اپنے خاندان نے قبول نہیں کیا تھا۔ ببرک کرمل کے
والد نے اسے از خود عدالت سے رجوع کر کے اس کو عاق کر دیا تھا۔اس بات معلوم
ہوتا ہے کہ افغان معاشرے میں کیمونسٹوں کو اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا
جاتا۔
اس سوچ سے روس کی خواہش پوری ہو گئی ۔ اس کو روس کے صدر برزنیف کے خارجہ
پالیسی کے ترجمان یہ کہتے ہوئے تصدیق کر دی کہ افغانستان پر روسی قبضہ کا
اقدام سلطنت روس کو جنوبی سرحدوں تک بڑھانا ناگزیر تھا۔روس کے صدر نے بھی
بیان دیا تھا، ہم افغانستان میں اس وقت تک رہیں جب تک ہماری سرحدیں محفوظ
نہیں ہو جاتیں ۔ یہ اسی قسم کا بیا ن تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ
افغانستان کے خلاف پاکستان کا مصنوی قسم کا واویلہ پیدا کیا گیا تھا۔اب
ببرک کارمل کی نام نہاد حکومت تھی اور روس خود مجائدین سے لڑ رہا تھا ۔ہر
طرف مجائدین ہی مجائدین نظر آتے تھے۔ہر طرف روس کے ٹینک اور بکتر بند
گاڑیاں اور افغان کے مجائدین کی طرف سے ہڑتالوں کی اپلیں، شب ناموں کی
تقسیم اور دیگر احتجاجی اقدامات تھے۔ مزاحمت کے نعرے بلند ہوتے تھے۔ روسی
فوج جلوسوں پر فائرنگ کرتی رکاوٹیں گھڑی کرتی۔اس وقت کے افغانیوں کے مطابق
مزاحمت جاری رہے گے جب تک اس ملک میں کیمونزم کی جگہ اﷲ کا نظام قائم نہیں
ہو جاتا۔
ایک مغربی اخبار نویس مارسس ایلائسن نے جنوری ۱۹۸۰ء میں بازار میں ایک
افغان سے ملاقات کی۔ چائے کی چسکی لگاتے ہوئے اس نے اس سے پوچھا کہ لڑائی
کیا نیا رخ اختیار کیا ہے۔اس نے جواب دیا کہ برف سے اٹے ہوئے بازار میں
افغانی نے بتایاکہ صبر کرو برف پگلنے دو، یہ دس سال کابچا بھی جنگ میں شریک
ہو جائے گا۔افغانستان کے گھر گھر میں لڑائی ہو گی۔ افغان عوام کا یہ دعویٰ
کچی مبالغہ نہیں۔نہ ہی بہادری اورزعم کی نشاندہی کرتاہے۔ بلکہ یہ ایک حقیت
ہے۔اس کا اعتراف لندن آبزرور کے پریم بھاٹیہ نے افغان مجائدین کی تین روزہ
قید کے ددران کیا۔ پریم بھاٹیہ کے بقول’’ افغان انیسویں صدی کی ازکار فتہ
بندوقوں سے روس کے سپاہیوں ، افسروں، ٹینکوں ،آرمڈ گاڑیوں ، آواز سے زیادہ
تیز رفتار بمباروں، توپ بردار ہیلی کاپٹروں، راکٹوں ، نیپام بموں، اور
زہریلی گیس کے بموں، کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں۔ قندھار کا گورنر
اپنا محل چھوڑ کر قندار ایئر پورٹ پر روسیوں کی کڑی حفاظت میں پناہ گیزن ہو
چکا ہے‘‘
نیویارک کے نامہ نگار نے ۲۹جنوری ۱۹۸۰ء کوتحریر کیا’’ببرک کارمل حکومت کے
کام کرنے کی کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔کارمل کابل کی جنوبی حصہ میں واقع
گرمائی محل میں مقیم ہے۔ جس کے گرد روسیوں کی بہت بڑی جمعیت ہر وقت ہرقسم
کے اسلحہ سے لیس حفاظت پر مامور رہتی ہے۔ ببرک کارمل کے بیانات براستہ
ماسکو نشر ہوتے ہیں۔ ببرکارمل نے کسی نئے پروگرام کا اعلان نہیں کیا۔ اور
نہ ہی کابل کے جنوبی حصہ میں اپنی جلاوطنی ختم کر کے پیپلز پیلس میں منتقل
ہونے کے کسی ارادہ کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ پیپلز پیلس کی حفاظت کے لیے
چاروں طرف زمین سے فضا میں بمار کرنے والے میزائل نصب کیے جا چکے ہیں۔
افغان پیدائشی طور پر جنگجو ہیں۔افغانیوں نے پونے دو سال کے اندر جو صورت
حال پیدا کر دی تھی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان عوام کا ضمیرمردہ ہوا نہ
روح کچلی جا سکی۔ افغانیوں ننے جنگی مہارت رکھنے والے اعلی دماغوں کو سوچنے
پر مجبور کر دیا کہ افغانستان عملاً روس کے لیے ویت نام بن چکا ہے۔
افغانستان کے عوام ایسے معاشرے کی پیداوار ہیں جہاں فرد کی آزادی کا تصور
اتنا راسخ اور پختہ ہے کہ اسے دنیا کے کسی ترقی یافتہ معاشرہ پر قیاس نہیں
کیا جا سکتا۔ وہاں عام مارنا اور مرنازندگی کے روز مرّہ کا معمول ہے۔ ہر
آدمی کے پاس اسلحہ ہے اور آزادی کا تحفظ بھی اپنے طاقت پر ہی کیا جاسکتا
ہے۔ایک اور وجہ کہ کیمونسٹ انقلاب سے پہلے افغان حکومت نے اپنے بیس سال کے
شہریوں کے لیے فوجی ملازت لازمی کر رکھی تھی۔وہ مذید بیس سال تک
’’ریزروفوجی‘‘ کی حیثیت میں رہتے تھے۔اس سے انہیں اسلحہ کے استعمال کی
تربیت مل جاتی تھی۔افغان دین اور غیرت پر حملہ معاف نہیں کرتے۔
کیمونسٹوں نے ایسے بھیانک اور نا قابل جراہم کیے۔ لہٰذا افغان اپنی اس جنگ
کو بھی برطانوی استعمار لے خلاف تین جنگوں یا روسی زاؤں کے خلاف پہلی جنگ
کی ماند منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے سپر ڈال دیں گے۔ ایں خیال و محال
است و جنوں!
مظالم کی کہانی یہ ہے کہ ملاشور بازار جو افغانستان کا مشہور دینی خاندان
ہے۔ اس خاندان کا ایک فرد ایک فرزند محمد ابراھیم مجددی بیان کرتے ہیں کہ
رات کے وقت ان کے گھر کوگھیر لیا گیا ۔سیکڑوں فوجی ان کے گھر کے باہر کھڑے
تھے۔ فوج دروازے توڑ کر ان کے گھر داخل ہوئے۔ مرودوں عورتوں اوربچوں سب کو
گرفتار کر لیا۔ کپڑے تک تبدیل کرنے کی مہلت نہ دی اور جیل میں بند کر دیا۔
اس سے آگے کیا ہو ا غیرت کی وجہ سے وہ بتا نہیں رہے تھے۔افغانستان میں
ترکئی حکومت نے پہلی دفعہ عورتوں کی گرفتار شروع کی۔ایک افغانی نے بتایا کی
ترکئی حکومت میں نابالغ لڑکیوں قید کی گئی جس میں ایک بھی پتہ نہیں چلا کہ
کدھر گئیں۔ مرووں کو جب جیل میں قتل کر دیا جاتا تو حکام کہتے کہ وہ
پاکستان فرار ہو گیا۔ ایسے میں جب عورتیں اپنی مرودں کی تلاش میں جیل حکام
سے رابطے کرتیں، تو عورتوں سے بے شرم کیمونسٹ کہتے کہ تمھارے مرد ایران اور
پاکستان بھاگ گئے۔ تمھیں صرف مرد ضرورت ہے تو ہم فراہم کر دیتے ہیں۔
ترکئی نے ایک ایسی حر کت کی کہ ڈیڑھ ہزار افغان لڑکیوں کو جمع کیا اور
انہیں روس بیھجوا دیا۔ والدین نے احتجاج کیا تو ان پر تشدد کیا گیا۔ اس
حلات میں کیمونسٹوں کے خلاف نفر ت میں اضافہ ہوا۔افغان فوج کے لوگ فوج سے
بھاگ کر مجائدین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ تین سال تک روسی صرف چھاونیوں تک
محدود رہے۔فرانس کے عظیم دانشور فلسفی ژان ساتر نے ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء کو کہا
تھا کہ ’’ سویٹ یونین نے ایک چھوٹے ملک افغانستان کے خلاف کاروائی کی ہے جو
پہلے ہی اس کے خلاف تھا۔اس لیے سویٹ یونین کے خلاف تادیبی اقدام کیا جانا
چاہیے‘‘ جبکہ افغان عوام روس کو شکست دینے میں لگے ہوئے ہیں۔فرانس کے ایک
اور دانشور ساکالر الیگزنڈر بینگسن نے ۲۳ مارچ ۱۹۸۱ء کو افغانستان میں روس
کی جارحیت اور افغان مجائدین کی جد و جہد کا جائزہ لیتے ہوئے کہا’’روس کا
افغانستان پر حملہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ کیمونسٹوں نے ۱۹۷۸ء میں
افغانستان پر حکومت قائم کرنے کے بعد افغان عوام کو اپنے خلاف کر لیا
ہے۔پچھلے تین سالوں میں افغان حریت پسند مضبوط ہوئے ہیں ان کے اعتماد میں
اضافہ ہوا ہے کیونکہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی روس افغانستان میں
قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔پروفیسربینگسن کہتے ہیں کہ میں یہ بات
سمجھ نہیں سکا کہ روس نے افغانستان کے خلاف جارحیت کا رتکاب کیوں کیا؟ اس
کے پیچھے کون سا فوری یا مستقل کا مقصد پوشیدہ تھا۔ میں اس کسی بھی دوسرے
مسئلہ کے ساتھ متعلق نہیں کر سکتا میں صرف یہی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں
کہ روس کا آپریشن افغانستان میں کیوں کامیاب نہیں ہوا‘‘(باقی آیندہ ان شاء
اﷲ)
|