"جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں "یہ جبارمرزا کی آب بیتی ہے
اور ایک ایسا آئینہ بھی ۔ جس میں مسیحاؤں کے اصلی چہرے اور جعلی پیر فقیروں
کی منحوس شکلیں بھی نظر آتی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گاکہ یہ
کتاب اس سماج کی سچی کتھا ہے جہاں انسان، مسیحاؤں کے ہاتھوں زخم زخم ہوتے
ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انسانی خدمت تو دور کی بات ہے
معالجین کی زندگی کا اب صرف ایک ہی مقصدرہ گیاہے کہ کوئی مریض ان کے ہتھے
چڑ ھ جائے پھر وہ قبر میں اترنے سے پہلے اسکی جان نہیں چھوڑتے۔ کسی دکھی
شخص نے ایک مسیحا سے کہا کہ آپ ،مریضوں کو اصل صورت حال کیوں نہیں بتاتے ۔
مسیحا بولا اگر شروع میں ہی صحیح بات کہہ دیں تو کوئی ہمارے پاس علاج کے
لیے نہیں آئیگا۔جبار مرزا دبنگ ، بے باک اور قلم قبیلے کے مشہور صحافی ہیں
، وہ جو بات کہنا چاہتے ہیں، نتائج سے بے پروا ہوکر کہہ گزرتے ہیں ۔ان کا
شمار محسن پاکستان اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے قریبی سا
تھیوں میں ہوتا ہے ۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ۔جن دنوں میں روزنامہ مرکز کا
ایڈیٹر تھا۔ رانی( جو ان کی لاڈلی بیگم تھی) ہر روز ڈیڑھ بجے میرے دفتر آ
جا کرتی ۔مجھے اپنے ساتھ لے کرگھر پہنچتی ۔کھانا اکٹھے کھاتے ۔پھر وہ مجھے
اخبار کے آفس چھوڑ جاتی ۔رانی نے باقاعدہ گاڑی چلانا سیکھی تھی۔ اس نے
زمانہ طالب علمی میں ہی رائفل چلانا بھی سیکھ لی تھی ۔وہ 23مارچ کی قومی
پریڈ میں اپنے کالج کی طرف سے سلامی دینے والے دستے میں شامل تھی ۔ وہ چار
بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ۔اپنے والد( جنہیں وہ باؤ جی کہہ کر پکارتی تھی
)کی چہیتی تھی۔رانی صحیح معنوں میں اپنے باؤ جی کی رانی تھی ۔رانی میری
زندگی میں 36سال 9 ماہ اور گیارہ دن رہی ۔رانی بالکل ٹھیک تھی لیکن اس کے
جسم میں کینسر ،پروفیسر سہیل حفیظ کی نااہلی ،کم عقلی ،حماقت ،ناسمجھی اور
جہالت کی وجہ سے پھیلا تھا ۔رانی چھ ماہ تک ان کے زیر علاج رہی۔ نہ بیماری
کاپتہ چلا اور نہ کوئی تکلیف دور ہوئی ،مسلسل ٹیسٹ اور مکرر ٹیسٹ ،درجنوں
اور بیسیوں ٹیسٹ کروائے گئے ۔ہول باڈی ایکسرے ،خون کے سارے ٹیسٹ ،بون
سکین،ڈی ایکس آر ،آر اے فیکٹر وٹامن ٹیسٹ ۔اگر سر میں درد کی شکایت کی تو
ایم آر آئی تجویز کر دیا، طبیعت میں گھبراہٹ کی بات کی تو ایک اور ٹیسٹ
لِکھ دیا۔حتی کہ جسم کی ساری رگوں کو مانیٹر کرا لیا ۔کپڑے دھونے سے ہاتھ
میں درد کا بتایا تو ہاتھ کی پشت پر ٹیکہ لگا دیا ۔میمو گرافی بھی کرائی
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ 3جنوری 2017ء کی بات ہے میں نے پروفیسر سہیل حفیظ سے
کہا چھ مہینے ہوچلے ہیں آپ کے پاس آتے ہوئے آپ نے بے تحاشہ ٹیسٹ کروا لیے
نہ مرض کا پتہ چلا اور نہ مریض کو آرام آیا۔اگر آپ کو پتہ نہیں چل رہا تو
آپ کسی اور ڈاکٹر کو ریفر کردیتے ۔ میری اس بات پرڈاکٹر سہیل نے گھنٹی
بجائی ۔کیشئر اندر آیا تو ڈاکٹر سہیل نے کہا ان کی آج کی معائنہ فیس واپس
کردیں ۔میں نے کہا ہمارے چھ مہینے کون واپس کرے گاجو ہم نے آپ کے پاس آآ کے
گزار دیئے ہیں ۔اس پر ماحول پر سناٹا چھا گیا ۔ڈاکٹر صاحب اٹھ کر کمرے سے
باہر نکل گئے اور رانی اپنے ہاتھ میں اپنی بے نام بیماری کی فائل اٹھائے،
مجھے باہر لے آئی۔ایک اور ڈاکٹر کے پاس ہم علاج کے لیے گئے تو انہوں نے بھی
الٹرا ساؤنڈ اور میموگرافی کے علاوہ کچھ ٹیسٹ فاسٹنگ کے لکھ دیئے۔ تین دن
بعد ساری رپورٹیں لے کر ہم اس کے پاس گئے توانہوں نے کہا کینسر کا شبہ ظاہر
کیا ہے۔پھر اس ڈاکٹر نے بیس سینٹی میٹر سرنج منگوائی رانی کے کچھ نمونے لیے
اور ٹیسٹ کرانے کے لیے کہا ۔ہم نے وہ ٹیسٹ لاہور میں شوکت خانم اور دوسرا
ٹیسٹ آغا خاں لیبارٹری کراجی بھجوادیا جس پر سات ہزار ٹیسٹ فیس لگ لی گئی ،جبکہ
شوکت خانم نے10200/- روپے الگ وصول کیے ۔سارے ٹیسٹ دیکھ کر ڈاکٹر ارم بولی
آپ لوگوں نے آنے میں دیر کیوں کردی۔ یہ کم ازکم تین چار سال پرانا کیس لگ
رہا ہے اور تیسر ی چوتھی کیٹگری میں پہنچا ہوا لگتا ہے۔مرزا صاحب نے جواب
دیا ہم پروفیسر سہیل کے چھ ماہ تک زیر علاج رہ چکے ہیں ،پھر بھی وہاں مرض
تشخیص نہ ہوا ۔ بہرکیف مرض بڑھتا رہا جو ں جوں دوا کی ۔ ہر ڈاکٹر ہر معالج
نے مریض کاصحیح علاج کرنے کی بجائے مزید ٹیسٹوں پر ہی زور دیئے رکھا ۔
بالاخرجبار مرزا کی رانی 17جنوری 2021ء کو بروز اتوار اس ظالم دنیا کو چھوڑ
کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔۔لیکن جبار مرزا نے اپنی اہلیہ رانی کے علاج
معالجے کے لیے جس جس گھاٹ کا پانی پیا اور جہا ں جہاں خاک چھانی ۔اس کی
تفصیل کتاب پڑھنے کے بعد ہی آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ فرہاد کو شریں کے
لیے نہر کھودتے تو سنا ہے، مہینوال کے عشق میں مبتلا سوہنی کو چناب میں
کودتے بھی سنا ہے ،رانجھے کو ہیر کے لیے چودہ سال بھینیس چرانے کی کہانی
بھی عام ہے لیکن اسلام آباد کے جبار مرزا نے اپنی رانی کو بچانے کے لیے
جتنے جتن کیے ان کا الفاظ میں ذکر نہیں کیا جا سکتا ۔یہ مرزا صاحب کی اپنی
رانی سے بے لوث محبت کا اظہار ہے ۔ |