پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے یہاں قدرتی مناظر دیکھنے کے
قابل ہیں اس کے علاوہ تاریخی عمارات بھی موجود ہیں گزشتہ روز ہمیں پاکستان
میڈیا رائیٹرز کلب کے بانی افتخار خان کی جانب سے ایک دعوت نامہ ملا کہ کل
ہمیں لاہور قلعہ،شاہی امام اور مسجد وزیر خان کی سیر کرائی جائے گی میری
خوشی کیاانتہانہ رہی کیونکہ مجھے سیاحت کا بے حد شوق ہے لیکن کچھ مصروفیات
کی بنا پر اسے ترک کرنا پڑا میں شاہی قلعہ میں کئی بار جا چکا ہوں لیکن
وزیر مسجد اور شاہی امام میں آج تک نہیں گیا تھا ہمیں صبح دس بجے والڈ سٹی
لاہوراتھارٹی کے دفتر واقع دہلی گیٹ لاہور پہنچنا تھا ہم چند دوست وقت پر
پہنچ گئے تھے جن میں افتخار خان،شعیب مرزا،عقیل انجم،تسنیم جعفری،تہذین
طاہر ،عمر خان،عمار خان اور میں راقم ڈاکٹر چوہدری تنویر سرورقابل ذکر ہیں
ہمارا استقبال ڈائریکٹر والڈ سٹی لاہور اتھارٹی محمد زبیر صاحب ،اسٹنٹ
ڈائریکٹر محمد اصغر صاحب اور ہمارے آج کے گائیڈ لال شاہ نے بھر پور جوش و
خروش کے ساتھ کیا انہوں نے بتایا کہ ہم نے تین رنگیلا رکشے منگوائے ہیں ایک
رکشے میں چھ افراد سوا ہو سکتے ہیں ان رکشوں کو والڈ سٹی لاہور اتھارٹی
والوں نے خاص ڈیزائین سے تیار کیا ہے بہت خوبصورت رکشے ہیں لال شاہ نے
بتایا کہ موجودہ حکومت نے مزید رکشے بھی والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کو فراہم
کئے ہیں موجودہ حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے جو خوش آئیند بات
ہے سب نے اپنی اپنی گاڑیاں پارکنگ میں لگائیں اور ان رکشوں پر سوا ہو گئے
ہمارے گائیڈ نے سب سے پہلے ہمیں دہلی گیٹ کے بازار کے بارے میں بتایا کہ
یہاں اب تمام بجلی کے کھمبے اور تاریں ہٹا دی گئی ہیں اور سب کو انڈر
گراؤنڈ کر دیا گیا جو ایک خوش آئیند بات ہے حکومت کو چاہیئے کہ لاہور شہر
کی تمام بجلی کی تاریں انڈر گراؤنڈ کر دے تا کہ آئے دن پیش آنے والے حادثوں
سے بھی بچا جا سکے انہوں نے ہمیں وہ تصویر بھی دکھائیجب بازار میں بجلی کے
کھمبے نصب تھے اور پھر وہ تصویر بھی دیکھی جس میں کھمبے اکھاڑ دئے گئے اور
بجلی کی تاروں کو زمین کے نیچے کر دیا گیا ہے خیر ہم نے اپنی آنکھوں سے بھی
بازار کا یہ منظر دیکھا جس میں ہمیں کوئی بجلی کی تار نظر نہیں آئی ۔
اسی بازار میں ایک گلی سورجن سنگھ ہے ہمیں پہلے اس میں لے جایا گیا اندورون
شہر میں ایسی بہت سی گلیاں ہیں جو انتہائی تنگ ہیں میں نے پہلی بار اتنی
تنگ گلی دیکھی جس میں سے ایک بندہ ہی گزر سکتا ہے ہمارے گائیڈ لال شاہ نے
بتایا کہ یہ گلی حکیم سورجن سنگھ کے نام سے مشہور ہے ہم نے اس کی رہائش گاہ
کو بھی دیکھا گائیڈ کا کہنا تھا کہ سورجن سنگھ کی رہائش گاہ کے باہر جو
تھلہ بنا ہے مریض یہاں پر لیٹ جاتا تھا اور وہ ٹھیک بھی ہو جاتا تھا یقین
ہی انسان کو آدھا صحت مند کر دیتا ہے اس کے بعد ہم امام بارگاہ پہنچے اس
امام بارگاہ سے چہلم کا جلوس اس امام بارگاہ سے نکلتا ہے اس امام بارگاہ
کنام حویلی الف شاہ ہے ہزاروں کی تعداد میں اہل تشیع یہاں آتے ہیں اور
زیارت کرتے ہیں۔
اس کے بعدلال شاہ نے ہمیں مسجد وزیر خان کی سیر کرائی جو کہ دہلی گیٹ میں
داخل ہوں تو چند قدموں کے فاصلے پر ہے لال شاہ نے ہمیں یہاں خلیفہ کے
المشہور قیمے والے نان اور چائے پیش کی ہم نے مسجد کے اندر صفوں پرت بیٹھ
کر ناشتہ کیا اس تاریخی مسجد میں ناشتہ کرنا بھی ہمارے لئے تاریخی بن گیا
یہ لال شاہ کی محبت تھی ہم نے یہاں ایک قبر دیکھی جو مسجد کے احاطہ میں بنی
ہوئی تھی لال شاہ نے بتایا کہ یہ قبر حضرت میراں شاہ صاحب کی ہے جو مسجد
بننے سے پہلے کے یہاں مدفون ہیں جب ہم اس دربار کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ
ایک راستہ نیچے دربار میں بھی جاتا ہے جب ہم کچھ دوست نیچے پہنچے تو میراں
شاہ کی اصل قبر جو کہ نو دس فٹ ہے کیونکہ اس وقت قبریں کافی لمبی بنائی
جاتیں تھیں ہم نے فاتحہ پڑھی اور پھر اوپر مسجد دیکھنے کے لئے آ گئے یہاں
ہم سب نے کچھ تصویر اور ویڈیوز ریکارڈ کیں میں ساتھ ساتھ ویڈیوز ریکارڈ
کرتا جا رہا تھا تا کہ سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کر سکوں
وزیر خاسن مسجد کے بارے میں لال شاہ نے بتایا کہ یہ چار سو پہلے تعمیر کی
گئی تھی یہ بادشاہی مسجد سے چالیس سال پہلے تعمیر کی گئی تھی یہ مسجد
94کنال پر مبنی ہے لال شاہ نے مزید بتایا کہ اس مسجد میں سٹیل کا استعمال
نہیں کیا گیا ہے مسجد وزیر خان ترکی فن تعمیر کی طرز پر بنائی گئی ہے اس پر
جو نقش و نگار ہیں وہ مختلف دالوں اور چونے کو مکس کر کے بنائے گئے ہیں اسے
ستارہویں صدی میں مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کیا تھا سات سال کے عرصہ
میں اسے تعمیر کیا گیا تھا اس مسجد کی بہت خوبصورت کاشی کاری کی گئی ہے اگر
آپ غور سے دیکھیں تو اس کے بڑے مینار آپ کو ایک طرف جھکتے ہوئے نظر آئیں گے
اس پر لال شاہ نے بتایا کہ اس وقت یہاں ارد گرد کے اطراف میں آبادی نہیں
ہوتی تھی اس لئے ان میناروں کا جھکاؤ مسجد سے باہر کی طرف کیا گیا تا کہ
زلزلے کی صورت میں اگر مینار گر جائیں تو یہ باہر کی جانب گریں مسجد میں نہ
گریں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس مسجد میں آج بھی پانچ
وقت کی نماز پڑھائی جاتی ہے اور جمعہ کی نماز بھی یہاں ہوتی ہے مسجد پر کچھ
کام بھی جاری تھی تا کہ اس کی اصل عمارت کو یونہی قائم و دائم رکھا جا ئے
یہ ہمارا قومی ورثہ ہے اس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے آپ بھی اس مسجد کا وزٹ
ضرور کریں ۔
اس کے بعد ہمیں شاہی حمام جو کہ اسی دہلی بازار میں واقع ہے مسجد سے چند
قدم آگے کی طرف ایک گلی میں واقع ہے وہاں کے انچارج نے ہمارا استقبال کیا
اور تمام ممبران کو گفٹ دئیے پھر لال شاہ نے بتایا کہ اس شاہی حمام کو بھی
شاہ جہان کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا شاہ جہان کے گورنر وزیر خان نے اسے
تعمیر کروایا تھا تا کہ شاہی مہمان اور مسافر اس شاہی حمام سے مستفید ہو
سکیں جیسے جیسے ہم شاہی حمام کے اندر داخل ہوتے چلے گئے اس دور کے اس
شاہکار کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے کیا کمال کا حمام بنایا تھا ایک جگہ
گرم پانی سے غسل لیا جاتا پھر ایک جگہ مساج کیا جاتا جسم کی میل وغیرہ
اتاری جاتی اور پھر ایک جگہ سے نہا کر انسان پاک و صاف ہو کر باہر نکل جاتا
اس کے اطراف میں پچاس کے قریب کمرے بھی بنائے گئے تھے جن میں مہمان اور
مسافر ٹھہرتے تھے یہاں پانی گرم کرنے کے لئے چمنیاں بنائی گئیں تھیں جن میں
کوئلے کا استعمال کیا جاتا تھا اس شاہی حمام کو ایک خاص انداز سے بنایا گیا
ہے ہم ان کی اس عقل و دانش پر انہیں داد دیتے ہیں یہاں کھدائی کے وقت کچھ
ٹوٹے برتن اور مٹی کے کھلونے بھی ملے ہیں انہیں بھی یہاں ایک شیشے کے ریک
میں محفوظ کر لیا گیا یہاں انہیں یونیسکو کی جانب سے ایوارڈ آف میرٹ بھی مل
چکا ہے جو خوش آئیند بات ہے اگر آپ کو موقعہ اور فرصت ملے تو اس شاہی حمام
کو ضرور دیکھیں آپ بھی ان کی کاریگری کو دیکھ کر داد دئے بغیر نہیں رہ سکیں
گے یہاں پہلے سکول اور دکانیں تھیں لیکن کھدائی کے بعد اس شاہی حمام کا پتا
چلا لاہور تاریخی عمارات سے بھرا پڑا ہے لاہور ایک ایسی کتاب کی مانند ہے
جس کے ا وراق کو الٹاتے جائیں تو ہر ورق پر ایک خوبصورت تاریخی مقام اور
منظر نظر آئے گا واقعی لاہور لاہور اے۔۔۔۔
شاہی حمام کا خوبصورت منظر دیکھنے کے بعد ہمیں بڑی سکرین پہ اس کی تاریخی
کہانی بھی دکھائی گئی لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ہم اسے مکمل نہ دیکھ سکے
لیکن ہمارے گائیڈ لال شاہ نے بتایا کہ آپ اس ویڈیو کو یوٹیوب پر بھی دیکھ
سکتے ہیں اس کے بعد ہم دوبارہ والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے رکشوں پر بیٹھ کر
شاہی قلعہ لاہور پہنچے لال شاہ نے بتایا کہ یہ دنیا کی پہلی بڑی پکچر وال
ہے اس کا نام ورلڈ ریکارڈ بک میں بھی شامل کیا گیا ہے یہ قلعہ کے بالکل
بیرونی طرف آتی ہے اس پر کچھ کام جاری تھا جو اگلے چند ماہ میں مکمل کر لیا
جائے گا انتہائی خوبصورت وال ہے انہوں بتایا کہ اس وال پر جہانگیر کے دور
میں کام شروع کیا گیا لیکن اسے شاہ جہان کے دور میں مکمل کیا گیا تھا اس
دیوار پر چائنہ ڈریگن،ہنٹنگ پکچر،الیفنٹelphent پکچر، بلbull فائٹنگ پکچر
ملیں گی جو اس دور کے مشہور کھیل ہوتے تھے ان سب کی تصاویر آپ کواس دیوار
پر ملیں گی اس کی اونچائی ستر میٹر ہے جب کہ اس کی لمبائی چار سو میڑ ہے ری
سٹور ہونے کے بعد اس وال کو ضرور دیکھیں اس کے بعد ہم شاہی قلعہ میں داخل
ہوا یہاں ہمارے گائیڈ لال شاہ نے بتایا کہ یہ سامنے جو عمارت ہے یہ کھڑک
سنگھ کا محل ہے اس کے ساتھ ہی دیوان خاص ہے جس میں شاہ جہان عدالت لگایا
کرتا تھا ۔
اس کے بعد ہمیں ڈیرہ گورداوارہ صاحب لے جایا گیا یہاں ہمیں بتایا گیا کہ یہ
جو جھنڈا لہرا رہا ہے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس گورداوارہ میں چوبیس گھنٹے
لنگر چلتا ہے اور لوگوں کا آنا جانا ہے یہاں پر سب لوگوں کو مفت رہائش دی
جاتی ہے ان کا کہنا تھا کہ اب بھارت کے پنجاب سے بھی سکھوں کی ایک بہت بڑی
تعداد آتی ہے اس لئے اس میں ایک ہال بھی تعمیر کیا گیا ہے تا کہ زیادہ سے
زیادہ لوگوں کو یہاں ٹھہرایا جا سکے اور ان کے لنگر پانی کا بھی بندوبست
کیا جا سکے ہمارے لئے ایک کمرہ بھی کھولا گیا جو عام وزٹرز کے لئے نہیں
کھولا جاتا گائیڈ نے بتایا کہ اس کمرے میں سکھوں کی کتاب گروگرنتھ ہے جب
انہیں زندہ تصور کیا جاتا ہے تو انہیں یہاں رکھا جاتا ہے یہاں گرمیوں میں
چوبیس گھنٹے اے سی چلتا رہتا ہے جب کہ سردیوں میں ان پر چادر اور کمبل سے
ڈھانپا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ یہ کتابیں جہاں ہوں گی ان کے اوپر سونے کا
تاج بناہو گا جیسا کہ یہاں بھی بنا ہوا تھا اس سے پہلے ہمیں یہ معلوم نہیں
تھا اس لئے دوستو سیر و سیاحت ضرور کیا کریں اس سے نہ صرف معلومات ملتی ہیں
بلکہ آپ کی صحت کے لئے بھی مفید رہتا ہے ۔
ایک بات گائیڈ نے اور بتائی کہ جس طرح مسلمانوں میں سور کا گوشت حرام ہے
اسی طرح سکھوں میں سگریٹ نوشی بھی حرام ہے اسی لئے یہاں سگریٹ نوشی کرنے
والوں کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اپنے ساتھ سگریٹ لے کر اندر جائیں ہمارا
آج کا دن بہت خوشگوار گزرا اس کے بعد ہمیں انہوں والڈ سٹی کے رکشوں میں
پارکنگ تک پہنچایا گیا ہم نے گائیڈ کا اور گائیڈ نے ہمارا شکریہ ادا کیا ہم
کافی تھک چکے تھے اور کچھ دوستوں کو جلدی بھی جانا تھا اس لئے ہم نے ایک
دوسرے سے سلام دعا کی اور اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ
ہوئے۔
|