تعلیمی اداروں میں طلباء کے تابناک مستقبل ۔۔۔۔

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
منشیات اقبال کے شاہینوں کے مستقبل کو کھوکھلا کرکے زمین بوس کر رہی ہے مگر وزراء صحت اور وزراء تعلیم کی عدم دلچسپی لمحہ فکریہ بن چکی ہے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے قومی و صوبائی اسمبلی میں بل پیش کرنے کی ضرورت ہے ایسے تعلیمی اداروں میں آپریشن کی ضرورت ہے اور جس ادارے اور ہوسٹل سے منشیات ملے اس ادارے کے سربراہ پر سخت ایکشن ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر نوجوان نسل فیشن کے طور پر سگریٹ نوشی و دیگر نشہ آور اشیاء میں مدہوش ہیں اور اس نشہ آور اشیاء کو حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی کرائم کرنے سے گریز نہیں کر رہے ۔ ہر روح مضطرب اور ہر چہرہ پریشان ہے کہی روشنی کی نوید نظر نہیں آ رہی۔ تعلیمی اداروں میں ماہر نفیسات کو یقینی بنا نا چاہیے تاکہ جو طلباء برائی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں یا بنا رہے ہیں ان کی علیحدہ کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔ اساتذہ طلباء کی نفسیات سے آگاہی رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں میں ان کے برتاو کا معروضی مشاہد ہ کرتے ہوئے طلبہ کے شخصی ، انفرادی اور اجتماعی رویوں سے واقف استاد بہتر طور پر طلبہ کی تعلیمی رہبر ی کے فرائض انجام دے سکتے ہیں جیسے طلباء کے برتاو کی تبدیلیاں جیسے دباو، غم و سوگواری، چڑ چڑاپن، تنہائی پسندی اور ان کے پیچھے کار فرما وجوہات و حالات ، ناقص تعلیم و تربیت جیسے عوامل کو ہر گز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ تقریبا دنیا کے تمام ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ڈپریشن کسی کو بھی کبھی بھی ہو سکتا ہے اور نوجوان نسل اس ڈپریشن کو ختم کرنے کے لیے نت نئے تجربات سے دوچار ہو رہی ہے۔ بد قسمتی سے والدین ہوں یا اساتذہ کوئی بھی اپنی اس غلطی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ کہاں پر انہوں نے ایسا خلاء چھوڑا ہے کہ بچے بے راہ روی کا شکار ہو کر نشہ جیتی لعنت کا شکار ہو گئے ہیں۔ جب اولا د جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو والدین اور استاتذہ کو ایک پلیٹ فارم پر اپنی سوچ کو مرکوز رکھتے ہوئے نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی چاہیے ۔ماہر نفسیات الفرید ایڈلر کے مطابق تین طرح کے بچے احساس کمتری اور خوف کا جلد شکار ہو تے ہیں۔ لاڈ پیار سے پالے ہوئے بگڑے بچے، وہ بچے جن سے زیادہ نفرت کی گئی ہو اور انہیں نظر انداز کیا گیا ہواور تیسرے وہ بچے جو جسمانی یا نفسیاتی نقص میں مبتلا ہوں۔فن لینڈ دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں ایک ہی ٹیچر طلباء کو کافی سال پڑھاتا ہے جس سے وہ بچے کی سائیکی سے واقف ہو جاتا ہے اس کو منفی اور مثبت سوچ سے باخوبی واقف ہو جاتا ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ پیشہ تدریس کو کاروبار بنا کر بیٹھے ہیں کلاس میں کون سا لڑکا ، کس لڑکی سے کیا بات کر رہا ہے کوئی فکر نہیں ہے اپنی غلطی کوکوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، بچہ کہنا نہ مانے تو دوستوں میں رہ رہ کر ایسا ہو گیا ہے یا ماحول نے اسے بگاڑ دیا ہے۔ بچہ جھوٹ بولے، چوری کرے، گالی دے، بدتمیری کرے، کہنا نہ ماننے تو ہم سماج کو قصور وار ٹھہراتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے اور ہمیں پرورش کو کیسے بہتر بنانا ہے۔یہ رسمی رٹے رٹائے جملے ہم بچوں کو سیکھاتے ہیں جس کا بچہ سنی ان سنی کر کے کان سے نکال دیتا ہے۔منشیات نوجوان نسل کے لیے ناسور بن چکی ہے۔منشیات ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو انسان کو دنیا و مافیا سے بیگانہ کر دیتا ہے اس کو استعمال کرنے والا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں کے بدمست جنگل میں مست الست کا عارضی راگ الاپتا ہے۔ منشیات اپنے شکار کو اپنے جال میں کچھ اس طرح پھنساتی ہیں کہ پہلے پہل نشہ اس کی تفریح اور بعد ازاں ضرورت بن جاتا ہے نشے کی تلاش میں زندہ رہنے کی جستجو اور زندہ رہنے کے لیے نشے کی آرزو اسکا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ نوجوان نسل کو بچانے کے لیے سب سے اہم کردا ر والدین، اساتذہ، دانشور، اور قلم دان کا ہے اس کے بعد علماء دین کا ہے اور پھر میڈیا کا، نشہ آور اشیاء فراہم کرنے والے عناصر کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے اور نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کر کے پیش کیا جائے۔ یہ ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی ہے اور ہمیں معاشرے کو اس برائی سے بچانا ہے آج یہ فریضہ ہمارے لیے فرض عین کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس کے لیے ہم سب کو متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر آنا ہو گا تاکہ معاشرے کو اس لعنت سے پاک کر سکیں۔ جب تک منشیات کے استعمال کو رواج اور بڑھا وا دینے والے اسباب ومحرکات کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا، اس کے سدباب کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک اس مسئلے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا جدید تحقیق بتاتی ہے کہ ورزش اور کھیل سے بچے کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے بچوں کی ذہنی و جسمانی ، معاشرتی و اخلاقی نشو و نما کے لیے کھیل نہایت اہم ہے کھیل کے ذریعے بچے اپنی فاضل توانائی خارج کرتے ہیں اور قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اگر وہ ایسا نہ کریں تو فاضل توانائی بچوں کے جسم کو متاثر کر تی ہیں۔کھیل نوجوانوں کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں ان کی ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں سے نجات دلاتا ہے۔امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ دن میں کسی وقت بچے کو ورزش کرنے اور چہلنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ اس پر سستی و کاہلی کا غلبہ نہ ہو۔ آپ ؒ فرماتے تھے سبق پڑھانے کے بعد بچے کے لیے فکر ی راحت اور قلبی تفریح کا مناسب بندوبست کیا جائے تاکہ طلباء شوق سے پڑھے اور پڑھائی سے متنفر نہ ہوں۔سبق سے فارغ ہونے کے بعد اسے ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے کہ جس سے وہ دماغی تھکاوٹ دور کر سکے، دل ودماغ کو راحت پہنچا سکے مگر کھیل ایسا نہ ہوجو اس کو مزید تھکاوٹ میں مبتلا کر دے اور اس کا دل اکتا جائے۔بچے ہمارا سرمایہ افتخار اور روشن مستقبل ہیں خدارا ان کا بچپن نہ چھینیں۔اگر ان کی پرورش اچھی ہو گی ، وہ اپنی ساخت اور اقتدار میں بہتر ہو تو وہ بڑے ہو کر قوم کو مستحکم انداز میں پروان چڑھائیں گے۔ پاکستان زندہ باد
 

Raheel Qureshi
About the Author: Raheel Qureshi Read More Articles by Raheel Qureshi: 18 Articles with 17636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.