ہمارا نظام تعلیم انتہائی کمزور ہو چکا ہے ۔پاکستان میں
تعلیم کا معیار روز بہ روز گرتا جارہا ہے ۔دو سال کرونا وبا نے تعلیم کے
ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا کبھی تعلیمی ادارے کھول دیے جاتے کبھی بند
کردیے جاتے اس سے ایک طرف تعلیم کا نقصان ہوا تو دوسری طرف طالب علموں کا
قیمتی وقت ضائع ہوا ۔کرونا جاتے جاتے بچوں کو خوش کر گیا کرونا کا بہانہ
بنا کر وزیر تعلیم نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے چار چار پرچے لینے کا فیصلہ
کیا گیا ۔طالب علموں نے بغیر پڑھے امتحانات دیے اور تمام پرچہ وقت سے پہلے
انٹرنیٹ پر لیک کر دئیے گئے ۔امتحانات میں والدین اور اساتذہ طالب علموں کو
نقل کرنے میں مصروف رہے ۔
میٹرک کے امتحانات کے نتائج کا اعلان بروز جعمہ کو کیا گیا ۔امتحانات کے
نتائج کے بعد بہت طالب علم خوش اور بہت سے پریشان نظر آئے ۔ہمارا نظام
تعلیم اتنا اچھا تو نہیں لیکن طالب علموں کے اتنے اچھے نمبر دیکھ کر میں
حیران ہوں بہت سے طالب علم شکایت کرتے نظر آئے کہ ہمارے ساتھ نہ انصافی
ہوئی ہے ہميں ہماری محنت کو مد نظر رکھ کر نمبر نہیں دیے گئے ایک طالب علم
نے فیس بک پر پوسٹ کیا کہ نقل کروانے والوں کی ۵۵ فیصد جبکہ نقل کرنے والوں
کو ۹۲ فیصد نمبر دئیے گئے ۔ایک طالب علم نے پوسٹ شیر کی جس میں ایک ریل
گاڑی مسافروں سے بھری ہوئی تھی اور تصویر کے نیچے لکھا تھا آج میٹرک کے
نتائج دیکھنے کے بعد ۲۰۲۲ میں دنیا بھر سے طالب علموں کی اچھا گریڈ حاصل
کرنے کے لیے پاکستان آمد ، میرا تمام تبصروں کو بتانے کا مقصد صرف یہی ہے
تعلیم کا معیار اب ویسا نہیں رہا جیسا ترقی یافتہ ممالک کا ہے ۔ محنت کرنے
والوں بہت سے طالب علموں کے ساتھ نہ انصافی ہوئی ۔
آج کی نوجوان نسل ہی کل پاکستان کو سنمبھالے گی ۔آج اگر طالب علم محنت کریں
گے تو کل پاکستان کو کسی پریشانی کا سامنہ نہیں کرنا پڑے گا ۔ہمارے نظام
تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے سب سے پہلے ٹرينڈ ٹیچر کو بھرتی کیا جاۓ تاکہ
صورت حال کیسی بھی ہو وه اپنی ذمہ داری سے پورا کر سکیں ۔ استاد کو
ایمانداری سے تدریس کا سلسلہ برقرار رکھنا چاہیے اور اسکول انتظامیہ کو
چاہے کہ اگر ملک میں کوئی بھی ایسی صورت حال پیش آئے جس کی وجہ سے تعلیمی
ادارے بند کرنے پڑیں تو طالب علموں کو آن لائن تعلیم ديں اور دوران آن لائن
تدريس کے طالب علموں کو بجاۓ لکھوانے کہ سمجھانے کی طرف زیادہ توجہ دیں
ہمارا مقصد بچوں کو سیکھانا ہے رٹوانا نہیں ۔کرونا وبا کی وجہ پرائیویٹ
اسکولوں میں آن لائن تدريس تو جاری رہی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
اساتذہ واٹس ایپ پر ۲ منٹ کی وڈیو بنا کر سینڈ کردیتے جس میں ریڈنگ اور مشق
مکمل ہوجاتی اور ہوم ورک بھی ساتھ بھیج دیا جاتا نہ کچھ سمجھایا نہ ہی کچھ
پوچھا ایسا بچے کیسے پڑھ سکتے ہیں اساتذہ نے اپنی ذمہ داری پوری کی آب بات
آجاتی ہے کہ والدین کا کیا کردار رہا دوران آن لائن تدریس ، اساتذہ نے جیسے
تيسے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا کیونکہ ان پر اسکول انتظامیہ کا دباؤ کہ
نصاب مکمل کروانا ہے۔۳۰٪ والدین اپنے بچوں کو باقائدگی سے پڑھاتے نظر آئے
لیکن باقی ۷۰% والدین اپنے مستقبل سے کھیلتے نظر آئے اور دوران آن لائن
تدريس بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے ہاتھوں میں موبائل تھما دے کوئی چیک نہ
رکھا کہ جس مقصد کے لیے بچوں کو موبائل دیا اسی مقصد کے لیے اس کا استعمال
کیا جارہا ہے یہ نہیں بہت سے والدین نے بچوں کو خود کام کر کے دیا جس کی
وجہ سے اب بچے کافی کاہل اور سست نظر آتے ہیں ۔
ہمارا نظام تعلیم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک ہر شخص اپنی ذمہ
داری کو فرض سمجھ کر ایمانداری سے ادا نہیں کرے گا ۔جس طرح ایک پنکھے کے
تین پر ہیں جب تک وه تین ٹھیک ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں وه چلتا ہے اور
ہوا دیتا ہے ۔اسی طرح استاد ،والدین اور طالب علم تینوں کو ایمانداری کے
ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی ۔استاد اور والدین کے بغیر طالب علم کا
کوئی وجود نہیں اور طالب علم کے بغیر استاد کا کوئی وجود نہیں ۔لہذا ہمیں
مل کر کام کرنا ہوگا اور معیاری تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور اپنے ملک کا نام
پوری دنیا میں روشن کرنا ہے ۔
|