رسول اللہ ﷺ کا یومِ میلاد اور ہم

ولادت ِ نبویﷺکا دن یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن جسے تمام عالم کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا‘ جس سال ربیع الاول میں خلاصۂ کائنات، سید المرسلین،خاتم الانبیا، احمد مجتبیٰ،محمد مصطفیﷺ اس عالمِ رنگ و بو میں رونق افروز ہوئے۔ اگرچہ شریعت نے سالانہ آپﷺ کے یومِ ولادت کوکسی مخصوص طریق سے منانے کا حکم نہیں فرمایا، نہ اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے،لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن وقوع پذیر ہوا،وہ نہایت ہی متبرک، پیارا اور روشن دن تھا۔

آج ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی مسجد، محلے میں ذکرِ نبویﷺ کے زمزمے سنائی دینے لگتے ہیں، ہر طرف لوگ آپ ﷺکی ولادت کا جشن منانے کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں، مسجدوں اور چوراہوں پر سیرتِ نبی ﷺ کے موضوع پر جلسے منعقد کیے جاتے ہیں- یہ سب چیزیں اپنی جگہ،لیکن مضمون نگار اس وقت قارئین کے سامنے ایک درمندانہ پہلو رکھنا چاہتا ہے، وہ یہ کہ کیا سال بھر میں اس طرح چند روز اپنے حبیب کا ذکر کر لینا ہمارے لیے کافی ہو سکتا ہے؟ کیا حضرت نبی کریمﷺ کا ہم پر اتنا ہی حق ہے؟ کیا ہم آپﷺ سے اسی قدر محبت کرتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں دیں گے اور ضرور ہماری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ رحمۃ للعالمینﷺ کا ذکر پورے سال بلکہ ہر لمحے ہونا چاہیے۔

آپﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا، خاص طور سے اس زمانے میں ہماری سب سے بڑی ذمّے داری ہے، جب کہ انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ہر طرف خون خرابا اور ہاہاکار مچا ہوا ہے، انسانی زندگی بے قیمت ہو چکی ہے، ہر طرف دنیوی حرص و ہوس نے انسان کے حواس باختہ کر دیے ہیں۔ گلی، کوچے جرائم کے اڈے بنے ہوئے ہیں، سگا بھائی سگے بھائی کا دشمن ہے، اولاد ماں باپ سے نالاں ہے، والدین اولاد سے پریشان ہیں۔ کیا کہیں اور کیا کیا ذکر کریں! قلب و ذہن میں ان گنت باتیں آجا رہی ہیں، صرف امراض کا ذکر کرلینا ویسے بھی لاحاصل ہے، اس لیے اصل علاج ہی ذکر کرتے ہیں اور وہ ہے- تعلیماتِ نبویﷺ کا فروغ اور ان پر عمل درآمد کرنا۔

ایک روایت کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کم و بیش سوا لاکھ اور دیگر روایت کے مطابق کم و بیش سوا دو لاکھ انبیاے کرام علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا، جن میں سے ہر ایک کی دعوت یہی تھی کہ انسان اپنے رب کو پہچانے اور اپنی زندگی کو خالق کے منشا کے مطابق گزارے۔ ان سب نے مشترکہ طور پر یہی پیغام دیا کہ انسان کو خوں ریزی اور زمین پر فساد پھیلانا زیب نہیں دیتا، یہ تو شیطانی عمل ہے۔ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ دنیا، انسان کے لیے دار العمل ہے، جس میں الٰہی احکامات کے مطابق زندگی گزار کر آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنی ہے،آخرت دار الجزا ہے، وہاں ہر چیز کا حساب دینا ہے، جس کے مطابق جنت یا جہنم کا فیصلہ ہونا ہے۔ دنیا میں اصلاً کسی عمل کا بدلہ نہیں دیا جاتا ، گو کچھ اثر بھلے ہی ظاہر ہو جائے، وہاں اصل کا بدلہ جزا یا سزا کے طور پرملے گا۔ جو انسان اس بات کو سمجھ لے، وہی کامیاب ہے، جو دنیا میں اُلجھ کر رہ جائے، وہ خسارے میں ہے۔

رسول اللہﷺ نے کتنی پیاری مثال دے کر سمجھایا کہ انسان دنیا میں اس طرح رہے، جیسے پانی کشتی میںرہا کرتی ہے، لیکن کشتی پانی کو اندر نہیں آنے دیتی، اس لیے کہ چھوٹے سے سوراخ سے بھی اگر پانی اندر داخل ہونا شروع ہو گیا تو کشتی غرق ہو جائے گی۔ یہی معاملہ انسان کا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اگر اِس کی محبت اُس کے دل میں آ گئی،تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔ تمام انبیاے سابقین کی طرح رسول اللہ حضرت محمدﷺ کو بھی دنیا میں اسی مقصد کے تحت بھیجا گیا اور آپ کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیش کے لیے بند کر کے یہ پیغام دے دیا گیا کہ اب جو انسان کامیابی حاصل کرنا چاہے، وہ حضرت محمدﷺ کی اتباع کرے۔

نبوی تعلیمات‘جو کہ قرآن و احادیث اور سیرت وغیرہ کی شکل میں امت کے پاس بعینہ موجود ہیں، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مستند دینی باتوںتک رسائی حاصل کرنے اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے۔شیطان‘ جو کہ انسان کا ازلی دشمن ہے، اُس نے تو یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ انسان کو دائیں، بائیں، آگے ، پیچھے گویا چہار جانب سے بہکانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہے، جس سے وہ کبھی غافل نہیں ہوتا، اگرچہ انسان اپنے دشمن سے غافل ہو جاتا ہے۔رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ شیطان انسان کے دل کے پاس اپنی سونڈ لیے بیٹھا رہتا ہے اور جب اُسے غافل پاتا ہے، اس کے دل میںوسوسوں کے زہر سے بھری سونڈ چُبھو دیتا ہے۔ شیطان کو یہ قدرت نہیں کہ کسی انسان سے جبراً کوئی بدی کروا سکے، وہ تو صرف وسوسہ ہی ڈالتا ہے، آگے اسے عملی جامہ خود انسان پہناتا ہے۔آج آپ دیکھ لیں کہ کس طرح اس نے انسانوں کو انسانوں کا، غیروں کو مسلمانوں کا ، بلکہ بعض مسلمانوں کومسلمانوں کا دشمن بنا کر اس طرح کھڑا کر دیا ہے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہوئے بھی ہر وقت بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔ ان میں سے کتنے وہ ہیں، جو دین و مذہب کے نام پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرتے ہیں اور کتنوں نے بدعات و خرافات کو دین سمجھ کراصل دین کی طرف دعوت دینے والوں کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے۔ آپﷺ نے دشمن کے ساتھ بھی کبھی ایسا معاملہ نہیں کیا، جیسا ہم اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کے ساتھ معاملہ روا رکھتے ہیں۔

رحمۃ للعالمین ﷺدنیا میں رحمت کو عام کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، آپ کا مقصد جہنم میں جا رہی قوم کو جنت میں داخل کروانا تھا، آپﷺ لوگوں کو شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کے نور میں داخل کرانا چاہتے تھے، آپﷺ نے نہ صرف مسلمانوں کو آپس میں بھائی بن کر رہنا سکھایا، بلکہ مشرکوں اور اغیار سے بھی احسان کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی۔ جسے مثالیں دیکھنی ہوں، وہ احادیثِ شریفہ کا مطالعہ کرے۔

آپ ﷺنے بچیوں کو جینے کا حق دیا، آپﷺ نے عورتوں کو معاشرے میں عزت دی، آپﷺ نے والدین و رشتے داروں سے حسنِ سلوک کی تاکید کی، آپﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق کی نشان دہی کی، آپﷺ نے غیروں سے حسنِ سلوک کرنا سکھایا بلکہ آپﷺ نے جانوروں کو تکلیف پہنچانے پر جہنم کی وعید سنائی۔ آپﷺ نے قیدیوں سے بے جا بدسلوکی سے منع کیا، آپ نے مقتولین کے مُثلے سے روکا، آپ نے پھل دار درخت نہ کاٹنے کی ہدایت دی- اس کے باوصف کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ایک طرف جہاں اغیار اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، وہیں بعض نام نہاد مسلمان بھی اپنے قول و عمل سے اسلام کی پاکیزہ شبیہ کو داغ دار بنانے سے احتراز نہیں کرتے۔

ماہِ ربیع الاول -جس میں خلاصۂ کائنات حضرت محمدﷺ اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے، اس موقع پر گلیوں کو ہری جھنڈیوں سے سجا لینا، چند دن یا راتوں میں نعتیہ اشعار گنگنا لینا، لمبی چوڑی تقریریں سُن یا کر لینا- صِرف اس سے بعثتِ نبوی کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے تو ہم میں سے ہر ایک کو آپﷺ کی تعلیمات اپنی زندگی میں رچانی بسانی ہو گی، ورنہ تباہی کے دہانے پر کھڑی انسانیت کو کبھی امن نصیب نہیں ہوگا۔

رسول اللہﷺ کی تعلیمات کو-- خواہ وہ عائلی ہوں یا قبائلی-- ہمیںقلب و جگرسے اپنانی ہوں گی اور سچے عاشقِ رسول بن کر دکھانا ہوگا، نیز اخلاقِ حسنہ کے ذریعے آپﷺ کی تعلیمات کا ڈنکا سارے عالم میں بجانا ہوگا۔ اپنے اہلِ خانہ اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا ہوگا، اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے نیک کاموں میں ان کا دست و بازو بن کر کھڑا ہونا ہوگا، نیز اپنے ملک کی سالمیت کا ہر دم لحاظ رکھنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو سمجھیے کہ ہم نے آپﷺ کے امتی ہونے کا فرض نبھانے کی کوشش کی، ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ- جس نے اپنے حبیبﷺ کے ذکر کو قرآنِ کریم میں{ انک لعلی خلق عظیم} کہہ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے بلند کر دیا، اُسے ہم جیسوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری سخت محرومی کی دلیل ہے کہ اپنی من مانی کرکے ہم اپنے رب کی رضا و خوشنودی کا خواب دیکھیں۔ جیسا کہ شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے فرمایا تھا:’ اپنے آقا کی خوشنودی سے محروم ہے وہ شخص، جو اس کی تو تعمیل نہ کرے جس کا وہ حکم فرماوے اور جس کا اس نے حکم نہیں دیا، اس میں مشغول رہے۔ یہی اصل محرومیت اور اصل موت اور اصل مردودیت ہے‘۔
وما توفیقی الا باللہ
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347171 views (M.A., Journalist).. View More