انشاء نے تو ناجانے یہ مصرعہ کس
کے شہر کے لئے کہا تھا اور کس کے چلے جانے سے وہ شہر ویران ہوا تھاکہ
انشاءکو کوچ کی سُوجھی لیکن مجھے تو یہ شہرِلہولہان کراچی کے لئے کہنا پڑا
ہے۔کراچی جسے مِنی پاکستان،روشنیوں کا شہر کہنے والوں نے کہااب مدت ہوئی کہ
اس شہر کی روشنیاںلسانی،مذہبی،سیاسی تعصب اور شرپسندوں نے گُل کر دئیں،کہیں
کوئی روشنی نہیں رہی ہرطرف خوف وہراس ،بد امنی،لوٹ مار ہے شرپسندوں نے اس
شہر کے دنوں اور راتوں کو اُجاڑ ڈالا ہے اُجڑے شہروں میں کس کا ”دل“لگتا
ہے؟؟جدھر نظر کرو کوئی نہ کوئی نعش اپنے ناحق قتل کا حساب مانگ رہی ہوتی ہے
کراچی کے حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے،لیکن کبھی اتنے بُرے بھی نہی ںرہے کہ
دل کُوچ کا سوچے!!سیا ست اسمبلیوں اور ایوانوں سے جب نکلتی ہے تو ایسا ہی
خون خرابا ہوتا ہے،سیا ست کو آج کے حکمرنوں نے اقتدار اور کرسی کا کھیل ،تماشہ
بنا دیا ہے اور اس تماشے میں اگر کسی کا نقصان ہوتا ہے،ہو رہا ہے ہو رہا ہے
تو وہ بے چاری عوام ہے میں اور آپ کہیں جانے کا ارادہ پکڑو تو سننے میں آتا
ہے کہ”حا لات خراب ہیں“کراچی خاص کر اورنگی، قصبہ اور کٹی پہاڑی اور ان کے
آس پاس کے لوگ تو اپنے ہی شہر میں ،اپنے ہی گھروں میں محصور ہو چکے ہیں
یہاں جرائم پیشہ گروہوں کی اجاراداری کا یہ عا لم ہے کہ ان سے کوئی محفوظ
نہیں، ٹارگٹ کلنگ نے کراچی کے گلی کوچے رنگین کر دئے ہیں اور شہریوں کو
اذیت نا ک خوف میں مبتلا کر ڈالا ہے ایک ایسا خوف جس کا مداوا نہ تو حکومت
کر رہی ہے ناہی سیا سی پارٹیاں کراچی کے امن وامان کے حوالے سے سنجیدہ
دکھائی نہیں دیتی ہیں سیا سی گٹھ جوڑ ذاتی اور سیا سی مفادات سے آگے نہیں
بڑھتا!!الطا ف حسین نے کہا کہ” انہیں حکومت سے الگ ہونے کی سزا دی جا رہی
ہے اور اردو بولنے والوں کوچُن چُن کر مارا جا رہا ہے“اب الطاف حسین خود تو
لندن میں ہیں اور مر بے چارے کراچی کے لوگ رہے ہیں سیا سی کشیدگی میں پِس
عوام رہی ہے،دوسری طرف وزیراعظم یوسف رضا گیلا نی کا کہنا ہے کہ”ہم ہر صورت
متحدہ کے ساتھ تعاون چا ہتے ہیں“پتہ نہیں وزیراعظم کس طرح کے تعاون کے
متمنی ہیں کہ کراچی لہولہان ہو رہا ہے اور صدر زرداری نے اپنے حالیہ بیان
میں کہا ہے کہ” ایم کیوایم کے اپوزیشن میں جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا
اور کچھ دشمن جمہوریت کو نقصان پہچانا چا ہتے ہیں“جمہوریت بچی کہاں
ہے؟؟؟کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے آپ کے نزدیک جمہوریت ہے؟؟جمہوریت کا
راگ الاپنے سے کچھ نہیں ہوتا،حقیقی معنوں میں جمہوریت کی روح کو بحا ل
کیجیئے ورنہ عوام نے جب بے بسی کی چادر اتار کر اپنے حق کی آواز اُٹھا ئی
نا تو ”جمہوریت“کوآنے سے کوئی نہیں روک پائے گا اور جب بھی جمہوریت کے لئے
عوامی سطح پر آواز اُٹھی ہے تو سیا سی ایوانوں میں لرزاہٹ سے تمام نام نہاد
سیاسی بت گر کر چُورچُور ہوئے ہیں۔۔۔۔خدارا!کراچی کو سیا سی یا لسانی دَنگل
مت بناﺅہر ایک سیاسی مفادات کی جنگ لڑرہا ہے عوام کی فلاح وبہبود کہیں
نہیںنظر آتی گرینڈ الائنس کی با ت ہو رہی ہے لیکن عوام خاص کر کراچی کے
عوام کے مسائل ،اور خوں ریزی کا حل کسی کے پاس نہیں!!قصبہ،اورنگی اور کٹی
پہاری تو شرپسندوں کے ہا تھوں ٹارگٹ کلنگ کا گڑھ بن چکے ہیں اور نئی بات
سنیے کہ امریکہ کو شہرِکراچی کی بگڑتی امن وامان کی صورتحال پر تشویش ہےہے
ناعجیب بات؟امن وامان کی بگڑتی صورتحال میں کہیں نا کہیں امریکہ کی ایماء
شامل ہے اور میرے وطن کی سا لمیت اور خودمختاری کو اس سے زیادہ کس نے پا
مال کیا ہےامریکہ نے ہمیں سیا سی میدان میں تو اپنے مفادات کے جنگ میں جکڑ
رکھا ہی تھا اب ہماری اسلامی ثقا فت اور اسلامی اقدار کو بھی مسخ کرنے کے
لئے ہم جنس پر ستی کو نوجوان نسل میں پھیلانے کی سازش کی جا رہی ہے۔نوجوان
نسل کو گمراہی کی راہ دکھائی جارہی ہے اور حکومت محوَتماشہ ہے ۔قومَ لوط کا
شرم نا ک انجام یاد کرلینے کا وقت ہے !!اچھا بات ہورہی تھی کراچی کی،کراچی
آج کل شرپسندوں کے ہا تھوں یرغمال ہے اور وہ جب چاہتے ہیں کسی کے گھر کو
شعلوں میں جھونک دیتے ہیں، اوربے گناہوں کو مار کر امن وامان کی دھجیاں
بکھیر دیتے ہیں اور زندگی کو عام انسان کے لئے سزا کر دیتے ہیں حالات خراب
ہوں تو نقصان تو عام شہری کا ہوتا ہے جو روز کام کرکے اپنے بچوں کا پیٹ
پالتا ہے اور بچے تو نہیں سمجھتے کہ کراچی کے حالات خراب ہیں،گولیاں چل رہی
ہیں،لوگ مر رہے ہیں،گھروں کونذرِآتش کیا جا رہا ہے رینجرز اور پولیس گشت کر
رہی اور شرپسندوں کوبھی احساس نہیں کہ بچے بھوکے ہیں اور ادھر وزریرِاعظم
کہتے ہیں کہ”کراچی کے عوام پُر امن رہیں“کراچی کے عوام تو پُرامن ہیں اتنا
کچھ ہوگیا کہ فریاد ہی کرتے ہیں کہ کراچی کاامن وامان لوٹائیں آئی جی سندھ
کا کہنا ہے کہ وہ بٹن دبا کر تو کراچی کے حالات سدھارنے سے رہے،بٹن سے
حالات ٹھیک نہیں ہوتے توبیانات سے کب ہوتے ہیں؟حالات کو حکمت عملی اور
تدبیر سے سنورا کرتے ہیںپولیس کوشرپسندوں کودیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم ہے
لیکن شرپسندوں کو تو کوئی گولی لگی نہیں البتہ اس حکم سے عام بندہ کو مرتے
ضرور دیکھا گیا جوکسی نہ کسی طرح ہتے چڑھ کر اپنی جان کھو بیٹھا ،پولیس کا
اپنی بے بسی پرکہنا ہے کہ وہ جب بھی کسی کوپکڑتے ہیں تو دباﺅ ڈال کر اسے
رہا کروا دیا جاتا ہے ایسے میں ہم عام شہری کی بے بسی اور بے چارگی کے عالم
کا اندازہ لگا سکتے ہیں اب تک ٹارگٹ کلنگ میں کتنے لوگ مرے،کتنے زخمی ہوئے
اور کتنے گھروں کے چولہے بجھے اس کی فیگر بتا ئی نہیں جا سکتی کیونکہ آگے
لمحے اس میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ہم اسکو رنگ نہیں کر سکتے رحمان ملک کا
کہنا ہے کیونکہ اسکور رنگ تو وہاں ہوتی ہے جہاں کھیل کے اختتام پذیر ہونے
کا علم ہو یہاں تو ٹارگٹ کلنگ کا کھیل کبھی بھی شروع ہوسکتا ہے اور ختم
نہیں ہوتا ،وقفہ ضرور آجا تا ہے تاکہ تازہ دم ہو کر میدان میں گولیوں اور
لہو کا ہولناک کھیل کھیلا جائے!!!!اب تک جو لوگ مرے وہ بے گناہ تھے اور بے
گناہوں کا خون جب بہنے لگتا ہے تو خدا کی رحمت روٹھ جا تی ہے اسی لئے اب
کُوچ کرنے والوں میں پرندوں کے ساتھ انسان بھی شا مل ہیں اور جب لوگ کسی
شہر سے کوچ کا سوچیں تو وہاں کچھ تو ایسا ہوتا ہے کہ جو دلوں کو نا گوار
گزرتا ہے!!انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو،اس شہر میں کیا دل کو لگا نا!
اللہ آپ سب کا حامی وناصر ہو! |