انسان کی زندگی میں بسا اوقات ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں
کہ اگر وہ ان پہ غور و فکر کرے تو یہ واقعات اس کی زندگی کا رخ موڑ دیتے
ہیں۔ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنہری موقع ہوتے ہیں جو گمراہیوں کے
بھنور میں پھنسے ہوئے انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف متوجہ کرنے کے
لئے عطا ہوتے ہیں۔ اب اگر قسمت میں سعادت ہو تو ان سے فائدہ اٹھا کر انسان
دنیوی و اخروی منافع حاصل کر لیتا ہے ورنہ اگر بد بختی غالب ہو تو ان
واقعات سے کوئی نصیحت حاصل کئے بغیر انسان اپنی بدمستیوں میں مگن رہ کر خسر
الدنیا والآخرۃ کا مصداق ہوجاتا ہے۔گذشتہ برس ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ
بھی پیش آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے پیروں میں اچانک شدید درد کا عارضہ لاحق
ہوگیا۔ کچھ دن تکلیف برداشت کرنے کی ناکام کوشش کی مگر جب معاملہ قابو سے
باہر ہوتا دکھائی دیا تو فون پر ہی ایک ڈاکٹر دوست سے رابطہ کیا۔ انہیں فون
پر اپنی کیفیت بتائی تو انہوں نے مرض کی مناسبت سے کچھ دوائیں تجویز کیں
اور ان کے نام مجھے میسج کر دیئے۔ ڈاکٹر صاحب سے پرانی نیاز مندی ہے اور
اکثر میں اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لئے ان سے دوائیں پوچھتا رہتا ہوں۔
انہوں نے جو دوائیں تحریر کی تھیں وہ خود جا کر میڈیکل اسٹور سے خریدیں اور
رات سونے سے پہلے ان دواؤں کی ایک خوراک لے لی۔ صبح بیدار ہوا تو درد میں
خاطر خواہ آرام محسوس ہوا۔ اس پر خداکا شکر ادا کیا اور دفتر چلاگیا۔ دفتر
میں دس بجے کے لگ بھگ دوا کی دوسری خوراک لی اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں
مشغول ہوگیا۔ طبیعت بھی ہشاش بشاش محسوس ہو رہی تھی اور تکلیف میں بھی
افاقہ لگ رہا تھا۔ میری پبلک ڈیلنگ کی ملازمت ہے جس میں کاؤنٹر پر بیٹھ کر
میں دفتر میں مختلف امور کے لئے آنے والے افراد کے کام انجام دیا کرتا
ہوں۔اسی دوران اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میرے کمرے کا تمام عملہ بشمول میرے
افسر کے میری کرسی کے گرد جمع ہے اور پریشانی کی حالت میں مجھے آوازیں دے
رہا ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ بھائی کیا ماجرا ہے؟ مجھے بات کرتا دیکھ
کر سب نے سکون کا سانس لیا اور مجھ سے میری خیریت دریافت کرنے لگے۔ میں نے
پھر کہا کہ مجھے معلوم تو ہو کہ بات کیا ہے اور آپ لوگ سب میرے ارد گردکیوں
کھڑے ہوئے ہیں؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ میں کرسی پر بے سدھ پڑا ہوا تھا
اور میرے سامنے کاؤنٹر پر ایک صاحب مجھے اپنے کام کے سلسلے میں بار بار
پکار رہے تھے مگر میں اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ تھا۔ اس پر سب لوگ پریشان
ہو گئے اور مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔ مجھے چونکہ ہائی بلڈ پریشر
اور ذیا بطیس کا مرض بھی لاحق ہے جس کی میں پابندی سے دوائیں لیتا ہوں، اسی
وجہ سے دفتر والوں کو یہ خدشہ ہوا کہ کہ مجھے خدانخواستہ کسی سنگین مرض کا
حملہ نہ ہوگیا ہو۔ یہ تفصیل سن کر میں بھی پریشان ہو گیا اور دفترمیں موجود
بلڈ پریشر کے آلہ سے ریڈنگ چیک کی تو وہ بحمدللہ نارمل نکلی۔خون میں شکر کی
مقدار کم ہونے کے خدشہ سے کچھ میٹھی چیز بھی کھا لی لیکن اس اچانک بے ہوشی
یا غشی کا معمہ حل نہ ہوا۔
شام جب گھر واپس پہنچا تو میڈیکل اسٹور والے سے اتفاقاََپوچھ لیا کہ بھائی
کل جو میں نے تم سے یہ تین دوائیں لی تھیں وہ کن امراض میں استعمال کی جاتی
ہیں؟ اس نے بتایا کہ ان میں سے دو تو درددور کرنے کی دوائیں یعنی پین کلر
تھیں اور ایک نیند کی دوا تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میرے ڈاکٹر دوست نے مجھے
نیند کی دوا کیوں تجویز کی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کرکے یہی بات دریافت
کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے تو کل تم کو نیند کوکوئی دوائی نہیں دی۔
اس پر میں مزید حیران ہوا اور میں نے موبائل کو غور سے دیکھا تو اپنی حماقت
پر ایک لمحہ کو خود بھی ہنس پڑا۔ دراصل کچھ عرصہ قبل میں نے کسی اور کے لئے
ڈاکٹر صاحب سے نیند کی دوا دریافت کی تھی جو انہوں نے اسی وقت تجویز کردی
تھی۔ میرا ان سے رابطہ عموماََ واٹس ایپ پر رہتا ہے لیکن اتفاق سے دونوں
بار خلافِ معمول انہوں نے دواؤں کے نام ایس ایم ایس پر بھیجے تھے۔ مجھے کل
رات مغالطہ ہوا اور میں نے درد کی دواؤں کے ساتھ نیند کی دوا بھی خرید لی۔
رات کو تو نیندہوتی ہی ہے لیکن صبح کو دفتر میں بھی غلطی سے میں نے نیند کی
دوا کی دوسری خوراک لے لی جس کے اثر سے میں اچانک اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے
سو گیا۔ جب یہ بات میں نے ڈاکٹر صاحب اور دفتر والوں کو بتائی تو سب نے
میرا خوب مذاق اڑایااور وہ اس میں حق بجانب بھی تھے مگر میرے لئے یہ واقعہ
سوچ کے نئے دریچے کھول گیا۔ مجھے یہ فکر دامن گیر ہوگئی کہ اگر کبھی اسی
طرح اچانک بیٹھے بٹھائے موت آ گئی تو پھر میرا کیا بنے گا؟ کیا بروزِ قیامت
حساب کتاب کے لئے میری فائل تیار ہے؟ کیا میں اللہ رب العزت اور اس کے
پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کے تمام احکامات پر کاربند ہوں؟ کیا میں اپنے
ذمہ واجب حقوق اللہ اور حقوق العباد مکمل طور پرادا کرتا ہوں؟ یقین جانیں
کچھ دنوں تک تو مجھ پر سناٹے کی کیفیت طاری رہی کہ اگر دفعتہ دنیا سے کوچ
کا نقارہ بج گیا تو میرے دامن میں بارگاہِ الہٰی میں پیش کرنے کو کیا ہے؟
اپنی تمام زندگی کی محنت کھوٹی دکھائی دینے لگی۔ تمام اعمال غارت ہوتے ہوئے
محسوس ہوئے کیونکہ اس دربار کے لائق تو میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں بالکل تہی
دامن حیراں و سرگرداں تھا کہ موت تو وہ اٹل حقیقت ہے جس سے کسی صورت مفر
نہیں۔ جو دنیا میں آیا ہے اسے لازمی طور پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ قبر کی
منزل عبور کرنی ہے۔ میدانِ حشر میں پیش ہونا ہے۔ اپنے اچھے برے تمام اعمال
کا حساب دینا ہے۔ یہ سب سوچ کر میری جھرجھری بندھ جاتی اور میں گم صم بیٹھا
رہ جاتا۔ ایسے میں مجھے موت سے متعلق نبی کریم ﷺ کے ارشادتِ گرامی یاد آگئے
جن میں سے کچھ احادیث ِ مبارکہ اپنے اور قارئین کرام کے استفاضہ کی نیت سے
تحریر کررہاہوں۔
۱۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال
کیاکہ کون سا مؤمن عقلمند ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو موت کو زیادہ یاد کرے اور
نیک عمل سے موت کے بعد کا سامان درست رکھے، یہ لوگ عقلمند ہیں۔
۲۔ حضرت وضین بن عطا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کو
موت سے غافل پاتے تھے تو اس کے دروازے پر کھڑے ہوکر تین بار پکار کر فرماتے
تھے کہ اے لوگو! اے ایمان والو! موت ضرور آنے والی ہے اور موت رحمت اور
آرام اور برکت لائے گی ان کے واسطے جو اللہ کے دوست ہیں اور ان کے واسطے جو
آخرت کے لئے کام کرتے ہیں۔ یادرکھو کہ ہر عمل کی انتہا ہے اور انتہا ہر عمل
کی موت ہے۔ کوئی آگے اور کوئی پیچھے جائے گا۔
۳۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گذر ایک مجلس سے ہوا جہاں لوگ
قہقہہ مار کر ہنس رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ لذت کے خراب کرنے والی
چیز کابھی ذکر کیا کرو۔ سب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ لذت کے خراب کرنے
والی کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا موت۔
۴۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دنیا
میں افضل پرہیز گاری موت کی یاد ہے اور افضل عبادت آخرت کی فکر ہے۔جس کو
موت کی یاد نے (عقلاََ) غمگین کیا (پھر اس کی اصلاح وہ اعمالِ صالحہ سے
کرلے حتیٰ کہ وہ عقلی گرانی جاتی رہے گو طبعی گرانی باقی رہے)تو وہ اپنی
قبر کو دیکھے گا کہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
۵۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر
شخص مرنے کے بعد افسوس کرتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کس بات کا
افسوس کرتا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر نیکو کار ہے تو افسوس کرتا ہے کہ
زیادہ نیکی کیوں نہیں کی اور اگر بدکار ہے تو افسوس کرتا ہے کہ کیوں
(گناہوں سے) باز نہ رہا۔
۶۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ موت کو
زیادہ یاد کیا کرو، اس لئے کہ اس سے گناہ صاف ہوتے ہیں اور دنیا کی رغبت کم
ہوتی ہے۔ اگر تم موت کو اپنی مالداری کے زمانہ میں یاد کرو گے تو یہ عیش
(کی طغیانی) کو نکال دے گی اور اگر تم تنگ دستی میں اس کو یاد کرو گے تو یہ
تم کو تمہاری موجودہ حالت ِ زندگی پر قانع بنا دے گی۔
۷۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص موت کو زیادہ یاد کرے
گا وہ پھر کسی پر حسد نہ کرے گا اور خوشی بھی کم منائے گا۔
۸۔ حضرت طارق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ
موت سے قبل موت کے لئے تیار رہو۔
۹۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ ایک عورت حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا کے پاس آئی اور اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا نے فرمایا کہ موت کو زیادہ یاد کیا کرو، یہ تمہارے دل کو نرم کر دے
گی۔
۰۱۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
قبروں پر جایا کرو کیونکہ یہ موت کو یاد دلاتا ہے۔
یہ تمام احادیث امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب نور الصدور
فی شرح القبور سے نقل کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو موت سے پہلے موت کی
تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور قبر حشر کی تمام منازل اپنی رحمت سے
عافیت کے ساتھ طے کرواکرجنت الفردوس میں دخولِ اولین نصیب فرمائے، آمین۔
|