ہندوستان میں بنو امیہ کے دور حکومت میں محمد بن
قاسم ثقفی نے مکران ،سندھ اور ملتان پر قبضہ کیا تھا۔ تین سو سال بعد میں
اس دفعہ درہ خیبر کے راستے افغان خراسان کے سبتگین کے زمانے میں پہلی مرتبہ
داخل ہوئے۔لاہور سے کابل تک کا حکمران ایک ہندوراجہ جے پال تھا۔جے پال نے
سبتگین کی حکومت پرحملہ کر دیا مگر شکست کھائی اور باجگراز بننے پر رہائی
پائی۔خراج نہ اد کرنے پر سبتگین نے راجہ جے پال کی حکومت پرحملہ کر کے
پشاور پر قبضہ کر لیا۔سبتگین بیس سال حکومت کرنے کے بعد انتقال کر گیا۔ اس
کے بعد اس کالڑکا محمود غزنوی حکمران بنا۔ محمود نے خوارزم ، بخارا اور سمر
قند پر قبضہ کر کے سلطنت کوو سعت دی۔محمود نے راجہ جے پال کی مدد کرنے والے
ہندوستان کے کئی راجاؤں کو شکست دے کر لاہور پر مکمل کنٹرول حاصل کر
لیا۔محمود کا آخری بڑا حملہ سومنات پر ہوا۔پھرمحمود نے سندھ پر حملہ کر کے
اسے بھی اپنی سطلنت میں شام کر لیا۔ہندوستان پر محمد نے کل سترہ حملے
کیے۔محمود کی فوجیں دہلی،متھرا،قنوج،کالنجر اور سومنات تک پہنچ گئیں۔محمود
ایک بڑا فاتح اور سپہ سالار تھا۔ رعایا پرور بادشاہ تھا۔ اس کے عدل و انصاف
کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔ایک سوداگر کے پیسے محمود کے بیٹھے نے روک رکھے
تھے۔ محمود کو شکایت پہنچی تو اسے بیٹے سے فوراً پیسے سوداگر کو ادا
کرائے۔محمود غزنوی علم ادب کابڑا مربی اور سرپرست تھا۔ اس کے دربار میں چار
سو شعرء تھے، جن میں سب سے مشہور فردوسی کا نام ہے۔
محمودغزنوی کے بعد غوری خاندان کے حکومت قائم ہوئی۔اس دور میں شمالی
ہندوستان اور بنگال میں اسلامی حکومت قائم ہوئی۔غور کے باشندے نسلاً پٹھان
تھے۔ غوریوں کے دور میں پٹھان پہلی مرتبہ اسلامی تاریخ میں ایک عظیم قوم کے
طور پر سامنے آئے۔شہاب الدین غوری نے جو اپنے بھائی غیاث الدین کا نائب
تھا۔ بھائی کی وفات کے بعد غوری سلطنت کا باشاہ بن گیا۔ اس نے شمالی
ہندوستان پر گرفت مضبوط کی۔ ملتان اور اُوچھ پر حملہ کر کے اسمعٰیلی فرقہ
کو شکست دی۔اس کے بعد دیبل اوربھٹنڈہ کو فتح کیا۔ اس وقت اجمیر پر راجہ
پرتھوی کا قبضہ تھا۔ پرتھوی نے کرنال کے قریب تلوڑی کے میدان میں محمود کے
خلاف دو لاکھ فوج جمع کی۔ دونوں فوجوں میں لڑائی ہوئے۔ شہاب الدین کو شکست
ہوئی۔ شہاب الدین نے بدلہ لینے کے لیے ایک دفعہ پھر تلوڑی کے میدان میں فوج
جمع کی ۔ دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی لڑئی ہوئی۔ راجہ پرتھوی کو شکست
ہوئی ۔وہ اس لڑائی میں مارا گیا۔ شہاب الدین نے دہلی اور اجمیر فتح کر لیا۔
پھرپورے شمالی ہندوستان پر شہاب الدین کا قبضہ ہو گیا۔شہاب الدین کے زمانے
میں کافی تعداد میں غیر مسلم اسلامی میں شامل ہوئے۔پنجاب کے کھوکھروں نے
بغاوت کی۔ شہاب الدین غور نے اس بغاوت کو شکست دے کر واپس لاہور کی طرف
آرہا تھا کہ جہلم کے ایک مقام پر ایک اسمٰعیلی نے فدائی حملہ کر کے شہا
الدین غوری کو شہید کر دیا۔ شہان الدین غوری نے اسمٰیعلیوں کے حکومت کا
خاتمہ کیا تھا۔ اس طرح اس شہادت کے ساتھ ہی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔
شہاب الدین غوری، کا ایک ترک غلام قطب الدین ایبک تھا۔ یہ خاندان عرصہ دراز
تک افغانستان میں رہ کرپٹھان ہی بن گئے تھے۔ شہاب الدین کے ساتھ لڑائیوں
میں شریک رہا اور بڑی بہادری دکھائی۔ دہلی سے بنارس تک کے علاقے اسی نے فتح
کیے تھے۔۱۱۹۲ ء میں شہاب الدین نے اسے ہندوستان کا صوبہ دار بنایا۔ جب
۱۲۰۶ء میں سلطان شہاب الدین غوری کا انتقال ہوا تو لاہور میں ایک خود
مختیار بادشاہ کے طور پر تخت نشین ہوا۔ صرف چار سال حکمران رہا اگر صوبے
ساری کا زمانہ بھی شامل کر لیا جائے تو اس کی حکمرانی اٹھارہ سال بنتی ہے۔
لاہور میں اس کا انتقال ہوا۔ قطب الدین ایک عادل بادشاہ تھا۔ اس وجہ سے
عوام اسے لکھ بخش کہتے تھے۔ اس نے دہلی میں ایک مسجد’’ قوت اسلام‘‘ کے نام
سے بنائی تھی جس کے گھنڈرات اب بھی دہلی میں موجود ہیں۔ قطب مینار عجوبہ
اسی مسجد کا مینار ہے۔ اس مینار کی تعمیر قطب الدین کے زمانے میں۱۱۹۹ء میں
شروع ہوئی تھے اور تکمیل اس کے جانشین ایلتتمش کے زمانہ میں ہوئی۔
ایلتتمش، قطب الدین ایبک کا غلام تھا۔ اس نے تقریباً ۲۶ سال حکومت کی۔اس کے
زمانے میں جنوب کی طرف بھپل اور اجین فتح ہوئے۔اسی زمانے میں چنگیز خان نے
ہندوستان پر حملے کیے۔ مگر یہ وحشی دریائے سندھ کو عبور کر کی ہندوستان پر
حملہ ہمت نہ کر سکے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ایلتتمش نے ہندوستان کا دفاع
مضبوط کیا ہوا تھا۔قطب الدین جس طرح ہندوستان میں اسلامی حکومت کا صحیح
بانی ہے اسی طرح ایلتتمش اس نئی اسلامی سلطنت کی بنیادیں مضبوط کی
تھیں۔ایلتتمش ایک بڑا نیک دل بادشاہ تھا۔ وہ علم و ادب کا سرپرست تھا۔انصاف
کا اس کو بڑا خیال تھا۔اس نے اپنے محل کے باہر گھنٹیاں لٹکا رکھیں تھیں
تاکہ مظلوم اسے بجا کر بادشاہ کو بلا سکیں۔
بلبن، خلاماں غلامہ کا سب سے بڑا مشہور اور باعظمت حکمران ہوا ہے۔باشاہ
بننے سے پہلے وہ شراب پیا کرتا تھا۔بادشاہ بنا تو شروب سے توبہ کی۔وہ علماء
اورنیک لوگوں کی ساتھ رہنے لگا۔ جب منگولوں نے دریائے سندھ کی طرف سے
ہندوستان پر حملے شروع کیے تو بلبن نے اس کا بہادری سے مقابلہ کیا اور
انہیں مار بگایا ۔اس میں بلبن کے ملتان کے گرنر شیر خان اور محمد سلطان نے
بڑا نام پیدا کیا تھا۔اس طرح دہلی کے غلام بادشاہوں نے ہندوستان کو منگولوں
سے بچایا۔بلبن کے دربار میں کئی مسلمان ملکوں کے باشاہوں جن کے ملکوں کو
منگولوں تارج کیا تھے۔ ان میں سے پندرہ بادشاہ اور شہزادے بلبن کے دربار
دہلی میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔بلبن عادل اور رعایا پرور بادشاہ تھے۔ ایک
دفعہ بدیوں کے گورنر نے ایک نوکر کو قتل کر دیا۔ بلبن نے اس دہلی بلا کر
قتل کر دیا اور اس کی لاش بدیوں کے دروازہ پر لٹکا دی تاکہ اس کو دیکھ کر
لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔اس طرح سردار ہیبت خان جوکہ بادشاہ کابڑا دوست تھا
،بلبن نے ایک غریب کو قتل کرنے پرپانچ سو کوڑے لگائے اور بے حوش ہونے پر
مقتول کے وارثوں کے حوالے کر دیا کہ اس سے قصاص لیں۔ مگر سردارہیبت خان کے
ورثانے بیس ہزار خون بہا دے کر اسے آزاد کرایا۔ بلبن شہریعت پر کا بند تھا۔
انصاف و عدل کی بنیا پر اپنی حکومت کو مستحکم کیا۔مورخین نے لکھا ہے کہ اس
کے عہدے دار بڑے دیانیت دار ، فیاض اور عادل تھے۔ ان میں علاء الدین کشلی
خان، عمادلملک اور دہلی کے کوتوال فخرلدین خاص طور پر عدل و انصاف اور
رعایا پروری میں مشہور تھے۔ بلنن کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا کیقباد دہلی
کا حکمران بنا، مگر نا اہل تھااور عیش وعشرت میں پڑھ گیا۔ پنجاب کے گورنر
جلال الدین خلجی نے دہلی کے تحت پر قبضہ ر لیا۔
جلال ا لدین خلجی، بھی ترک ہونے کے باجوں ایک عرصہ تک پٹھانوں میں رہ کر
پٹھان ہی بن گیا تھا۔ اس نے کل سات سال حکومت کی۔ منگولوں کے حملوں کا
دلیرلی سے مقابلہ کیا۔ نیک اور عادل بادشاہ تھا۔اس کے دور میں مظلوں کی داد
رسی کی جاتی تھی۔ مگر اس کے نیک دل بادشاہ کو اس کے حریص اور جاہ پسند
بھتیجے علاء الدین نے دھوکے سے قتل کر کے دہلی کے تخت پر بیٹھ گیا۔علاء
الدین نے فتوحات کی طرف توجہ دی۔ اس کے دور میں مالوہ،گجرات، اور راجپوتانہ
اور دکن فتح ہوئے۔۱۳۱۱ء تک راس کماری تک سارا علاقہ فتح کر لیا گیا ۔سوائے
کشمیر کے سارا ہندوستان علاء الدین خلجی کی سلطنت میں داخل ہو گیا۔ اشیاء
کی نرخ مقررکئے۔ جس چیزیں سستی ہو گئیں اور رعایا خوش ہو گئے۔ ساتھ ہی ساتھ
حضرت نظام الدین اولیانے نے لوگوں میں نیکیاں پھیلانے کا کام شروع کیا تو
بادشاہ کے نظم و نسق اور بزرگ کے وعظ نصیت سے شراب جوا اور دوسری معاشرتی
خراببیاں کم سے کم تر ہوتی گئیں۔علاء الدین ایک ان پڑھ حکمران تھا۔مگر
رعایا کے مسائل جاننے کی وجہ ے کامیاب حکمران ثابت ہوا۔ علاء الدین کے
زمانے میں دہلی میں علماء، برزگان دین اور شعرا بڑی تعداد جمع ہو گئے
تھے۔مورخ فرشتہ نے ایسے چھیالیس ممتاز علماء کے نام لکھے ہیں، جو دہلی میں
موجود تھے۔ جن میں نظام الدین اولیاء ،رکن الدین شاعروں میں امیر خسرو اور
میر حسن سنجری ممتاز ہیں۔مورخ فرشتہ یہ بھی لکھتا ہے کی اس دور میں مساجد ،
مدارس، تالاب،سرائیں، خانقائین اور قلعے تعمیر ہوئے جو کسی اور بادشاہ کے
دور میں تعمیر نہیں ہوئے۔
دہلی سے متصل شہر’’ سیری‘‘ آباد کیا۔اس موت کے بعد امراء نے غازی ملک کو
بادشاہ منتخب کر لیا۔ جو بعد میں غیاث الدین تغلق کے نام سے تحت نشین ہوا۔
غیاث الدین تغلق،اس نے صرف چار سال حکومت کی۔اس نے اس چار سالوں میں ایسے
کام کیے جو پہلے بادشاہ پچاس سال میں بھی نہ کر پائے۔غیاث الدین بادشاہ
بننے سے پہلے دیپال پور اورملتان کا صوبہ دار تھا۔یہ سرحدی صوبے تھے اور
منگولوں کو روکنے کے ذمہ دار تھے۔ اس نے اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے ادا
کیا۔۲۹ لڑائیوں میں منگولوں کو شکست فاش دی۔ اس طرح اس نے ہندوستان کو
منگولوں سے بچایا اور غازی ملک کہلایا۔باشاہ بننے کے بعد دکن اور جنوبی ہند
کی ہندو ریاستیں جو ابھی تک باجگزار تھیں ان کو ختم کر کے دہلی کی سلطنت
میں شامل کیا۔ رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کیا۔ ماتحتوں کو حکم تھا کہ رعایا
سے نرمی سے پیش آئیں۔ کسانوں پر محصول اتنا کم کر دیا کہ وہ خوشحال ہو گئے۔
آپاشی کے لیے نہریں کھدوائیں۔ باغات لگوائے۔ ویران بنجر زمینیں آباد ہو
گئیں مورخ لکھتا ہے کہ ’’ اس کے عہد میں رہزن پاسبان بن گئے۔ انہوں نے
کمانیں بیچ ڈالیں اور تلواروں کو توڑ کر آلات زراعت بنا لیے‘‘ اس کے عہد
میں رعایا جتنی خوشحال تھی اتنی کسی بادشاہ کے دور میں نہیں تھی۔اس کے بیٹے
محمد تغلق نے ۱۳۳۰ء میں تابے کا سکہ چلا کر نئی جدت پیدا کی۔اس کے بعد اس
کا چچافیروز شاہ تغلق تحت نشین ہوا۔فیروز شاہ نے اپنے دور میں تین نہریں
نکالیں۔چالیس مساجد اور بیس خانقائیں بنوائیں۔تیس بڑے بڑے مدرسے قائم کیے۔
آبپاشی کے لیے تیس بڑے حوض تعمیر کروائے۔سوشفاخانے بنوائے جس میں عوام کا
مفت علاج ہوتا تھا۔سو اسو شہر اوربستایاں تعمیر کروائیں۔جونپور، فیروز پور
اور ہوشیار پور ان کے بنائے ہوئے شہر ہیں۔اس کو باغ لگوانے کا بیت شوق تھا۔
دہلی کے اردگردبارہ سوباغ لگوائے۔۱۴۵۱ء میں ایک پٹھان سردار بہلول لودھی نے
دہلی پر قبضہ کر کے لودھی خاندان کی بنیاد رکھی۔ |