پاکستان کو ’ریاستِ مدینہ ‘ بنانے کا عزم رکھنے والے وزیر اعظم عاشقان رسول ﷺ کے ساتھ کس قسم کا اقدام کرینگے؟

پاکستان میں ناموس رسالت مآب ﷺ کے مسئلہ پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے تحریک لبیک کا لانگ مارچ۰۰۰حالات سنگین

پاکستان میں عمران خان کی وفاقی حکومت کے خلاف پھر ایک مرتبہ کالعدم مذہبی و سیاسی جماعت’’ تحریک لبیک پاکستان‘‘ نے مذاکرات میں ناکامی کا دعویٰ کرتے ہوئے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کردیا جس کے بعد انتہائی سنگین صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے معاہدے پر عملدرآمد اور تحریک کے امیر مولانا حافظ سعد رضوی کی رہائی کیعلاوہ دیگر مطالبات کی تکمیل کیلئے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ گذشتہ جمعہ سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپوں میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہونے کی اطلاعات ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید ، وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک ، ڈی جی ایف آ:ی اے ، ڈی جی آئی بی نے شرکت کی۔اسلام آباد مارچ کرنے والے تحریک کے کارکنوں کو وزیر آباد کے علاقے میں پنجاب رینجرز کی جانب سے تنبیہی بینرس کے ذریعہ خبردار کیا گیا ہے کہ اس علاقے میں امن و امان کی ذمہ داری انہیں (رینجرز) کو سونپی گئی ہے اور انہیں شرپسندوں پر گولی چلانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے لہذا مظاہرین واپس چلے جائیں۔ بتایاجاتا ہیکہ پنجاب کی صوبائی حکومت کی درخواست پر یہ رینجرز کو دوماہ کیلئے صوبے میں تعینات کیا گیا ہے اور انہیں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت پولیسنگ کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اس قانون کے تحت مسلح افواج یا نیم عسکری ادارے (رینجرز، فرنٹیئرکور) کو پولیس کے اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے پولیس، فوجی یا نیم عسکری اہلکار، دہشت گردانہ اقدامات ، یا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں موجود جرائم کو روکنے کے لئے فائرنگ کرسکتے ہیں، بغیر وارنٹ گرفتاری کرسکتے ہیں اور تلاشی، کسی کی گرفتاری یااسلحے وغیرہ کی ضبطگی کیلئے بغیر وارنٹ کسی جگہ پر داخل ہوسکتے ہیں ۔وزیر داخلہ شیخ رشید نے تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ’’بہت ہوگیا ، حکومت یرغمان نہیں بنے گی ریاست کی رٹ کو ہر صورت قائم کیا جائے گا۔‘‘حکومت کی طرف سے مارچ کو روکنے کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کئے گئے ہیں۔ حالات کی مزید سنگینی کی ذمہ دار حکومت کو سمجھا جارہاہے جو کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کیلئے تحریک کے قائدین سے جو وعدے کئے ہیں وہ پورے نہیں کئے۔ گذشتہ جمعہ سے شروع ہونے والے مارچ کو مذاکرات کے حوالے سے روک دیا گیا تھالیکن پھر چہارشنبہ سے دوبارہ مارچ کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے مطابق لانگ مارچ میں شامل تحریک لبیک پاکستان کے رہنما مفتی عمیر نے کہا ہے کہ ان کے کارکنوں نے سادھوکی کے مقام پر موجود سیکیوریٹی کی تمام رکاوٹوں کو ہٹاکر آگے بڑھ گئے ہیں۔ لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز پر پولیس نے سادھوکی کے مقام پر تحریک کے کارکنوں کو روکنے کی کوشش کی اور اسکے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ اس موقع پر بتایا جاتا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جبکہ کارکنوں نے پولیس کی کم از کم چھ گاڑیوں کو اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔ خبروں کے مطابق پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ تازہ جھڑپوں میں قصور علاقے سے تعلق رکھنے والے اے ایس آئی اکبر ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ تحریک کی جانب سے پولیس پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ پولیس نے فائرنگ کی اور تیزاب سے بھری بوتلیں بھی پھینکنی۔بتایا جاتا ہیکہ جمعہ کو اس لانگ مارچ کا آغاز ہواتھا اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے ، اس سلسلہ میں مفتی عمیر نے جو مریدکے میں تحریک لبیک کے دھرنے میں موجود ہیں انکا کہنا ہیکہ جماعت کی قیادت کی جانب سے حکومت کو ان کے مطالبات پر عمل درآمد کا وقت منگل کی رات تک دیا گیا تھا جو ختم ہوچکا ہے ، ان مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ تحریک کا جو ہے وہ پاکستان میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا ہے۔ جس کے بارے میں حکومت پاکستان نے ان سے اس سال اپریل میں معاہدہ بھی کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائیں گے۔ تحریک لبیک کی مجلس شوریٰ کے رکن کا کہنا ہیکہ منگل کے روز صرف وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ان کی جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن عنایت شاہ کے ساتھ صرف ایک ملاقات کی تھی جبکہ منگل کی رات کے وقت بھی انہیں دوبارہ مذاکرات کیلئے بلایا گیا تھا جس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔مفتی عمیر کے مطابق جب تک تحریک کے مطالبات پر عمل نہ کیا جائے گا اس وقت تک تحریک کے کارکن اپنا لانگ مارچ جاری رکھیں ینگے۔ انکا کہنا تھا کہ چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ کی سربراہی میں ان کی جماعت کی قیادت کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے اس میں حکومتی وفد کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان کے مطالبات پر عمل درآمد ہوگا لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ اب دیکھنا ہے حالات مزید کتنے خراب ہوتے ہیں ، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جو سہ روزہ دورہ سعودی عرب سے واپس آچکے ہیں ۔ ملک کی صورتحال پر کس قسم کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان سے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے مطالبے کے علاوہ دیگر معاملات پر اتفاق ہوچکا ہے اور وہ منگل کی شب اور چہارشنبہ کو تنظیم کے رہنماؤں سے بات چیت میں درخواست کرینگے کہ وہ اپنے اس مطالبے پر دوبارہ غور کریں۔ اس طرح حکومت کی ایک اور کوشش کہ فرانس کے سفیرکی بے دخلی ناکام ہوچکی ہے۔ ناموس رسول ﷺ کے سلسلہ میں تحریک لبیک پاکستان کااحتجاج سنگین صورتحال اختیار کرسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ حکومت پاکستان تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کو ختم کرنے کے لئے سخت پولیس کارروائی کرسکتی ہے اور فوج کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد رضوی حراست میں اور نہیں معلوم انہیں کب تک حراست میں رکھا جائے گا اس کے علاوہ تحریک کے کارکنوں اور قائدین پر کئی ایک سنگین الزامات عائد کئے ہیں ۔ اگر عمران خان کی حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرتی ہے تو حکومت کو ڈر ہیکہ یوروپی ممالک پاکستان سے رشتہ توڑ لینگے اور اگر سفیر کو ملک بدر کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں مسئلہ کو نہیں اٹھایا گیا تو تحریک کی جانب سے مزید سخت احتجاج کیا جاسکتا ہے البتہ حکومت طاقت کے زور پر اسے روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کررہی ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ مظاہرین کے خلاف مزید کس قسم کی کارروائی کی جائے گی۰۰ اگر رینجرز کی جانب سے فائرنگ کی گئی تو اس سے بہت بڑاجانی و مالی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ۔اور پاکستان کی ساکھ بھی اس سے شدید متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ ناموس رسالتمآب ﷺ کے نہتے کارکنوں کے خلاف کارروائی حکومت کی ناکامی یا نا اہلی قرار پائے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا عزم رکھنے والے وزیر اعظم پاکستان اپنے ملک کے ان عاشقان رسول ﷺ کے خلاف کیا اقدام کرتے ہیں۰۰۰

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوبارہ قربتیں
پاکستان وزیر اعظم عمران خان گذشتہ دنوں سہ روزہ دورے پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے جہاں ان کا ریاض کے ڈپٹی گورنر نے استقبال کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ پاکستانی معیشت کے استحکام کے لئے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے، وزیر اعظم نے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ سہ روزہ ’گرین مشرق وسطیٰ سربراہ کانفرنس‘ میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایاجاتا ہیکہ دونوں قائدین نے کاربن کے اخراج میں کمی اور ماحولیاتی تحفظ کی خاطر کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا۔وزیر اعظم کے دورے کے موقع پرپاکستان میں وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے سعودی عرب کی ترقی میں خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے کردار کو خراج تحسین پیش کیااور سعودی ویژن 2030 کیلئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تعریف کی اور انہوں نے گرین سعودی عرب فورم اور گرین مشرق وسطیٰ سربراہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو مبارکباد دی۔وزیر اعظم نے کہا کہ سربراہ کانفرس سے موسمیاتی تبدیلی کے چیالنج سے نمٹنے کیلئے سعودی قیادت کے عزم کا واضح اظہار ہوا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ گرین سعودی عرب اور گرین مشرق وسطیٰ سربراہ کا انیشی ایٹو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے کلین اینڈ گرین پاکستان اور بلین ٹری سونامی کے منصوبوں میں مماثلت ہے۔بتایا جاتا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی سعودی عرب کے ساتھ گہرے بردرانہ تعلقات اور پاکستان کی جانب سے ان تعلقات کو دی جانے والی اہمیت کو اجاگر کیا۔ دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات کو مزید مضبوط بڑھانے پر زور دیا۔وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ اس لئے کامیاب سمجھا جائے گا کیونکہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو پھر ایک مرتبہ معاشی استحکام کیلئے تین ارب ڈالر کی مدد اور تیل کی خریداری کیلئے ایک ارب بیس کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ عمران خان نے سعودی عرب کی جانب سے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرنے اور مالی معاونت پر سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے چہارشنبہ27؍ اکٹوبر کو اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’پاکستان کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر ڈپازٹ کرنے اور پٹرولیم کی مصنوعات کیلئے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے ذریعے پاکستان کی مدد کرنے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ک شکریہ ادا کرتا ہوں۔ماضی کی طرح سعودی عرب پاکستان کو مدد فراہم کررہا ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی ترقیاتی فنڈ نے کہا ہے کہ ’یہ شاہی ہدایات برادر ملک پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں سعودی عرب کے موقف کا پختہ ثبوت ہے- مملکت ہمیشہ کی طرح اب بھی پاکستان کی معیشت کے استحکام کیلئے اقدامات کررہی ہے‘‘۔ اس امداد کے بعد اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی مشیر خزانہ شوکت ترین نے سعودی عرب سے ملنے والی مالی مدد کے بارے میں ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے پاکستان اور عمران خان کے تعلق سے کہے ہوئے جملے دہرائے انہو ں نے کہا کہ سعودی ولیعہد محمد سلمان نے کہاکہ ’’پاکستان ہمارے لیے اسپیشل جگہ رکھتا ہے اور وزیراعظم بھی اسپیشل جگہ رکھتے ہیں۔‘‘واضح رہے کہ یہ رواں برس وزیراعظم عمران خان کا سعودی عرب کا دوسرا دورہ ہے۔اس سے قبل انہوں نے مئی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور اس موقع پر متعدد معاہدوں پر دستخط کئے تھے۔

سعودی ولی عہد کا مملکت کو سرسبز و شاداب بنانے کا عزم
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ہفتہ کو ریاض میں گرین سعودی عرب منصوبے کے پہلے سالانہ فورم کا افتتاح کیا ۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ 2021 میں گرین مڈل ایسٹ انیشیٹو کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد قدرتی ماحول اور کرہ ارض کو محفوظ رکھنا ہے۔بتایا جاتا ہیکہ ’سعودی عرب2060 تک کاربن کے زیرو اخراج کا ہدف حاصل کرلے گا‘۔دارالحکومت ریاض میں سعودی گرین انیشیٹو فورم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ’ان کا ملک 2060 تک نیٹ زیرو کاربن کے اخراج کا ہدف حاصل کرلے گا۔‘شہزادہ محمد بن سلمان گرین سعودی عرب سپریم کمیشن کے سربراہ بھی ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ولیعہد نے اپنے افتتاحی خطاب میں گرین سعودی عرب انیشیٹیو کیلئے پہلے پیکج کا اعلان کیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں سعودی گرین انیشیٹیو پروگرام کے تحت کاربن کے اخراج کو سالانہ 270 ملین ٹن سے کم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’700 ارب ریال (186.63 ارب ڈالر) سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔‘یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ شہزادہ محمد بن سلمان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’سعودی عرب ملک میں 2030 تک 45 کروڑ درخت لگائے گا جبکہ 80 لاکھ ہیکٹر رقبے پر محیط بنجر زمینوں کو بحال کرے گا۔‘اسی طرح ’سعودی عرب 20 کروڑ ٹن کاربن کے اخراج کو کم کرے گا جس کے ساتھ آنے والے برسوں میں مزید اقدامات کا اعلان کیا جائے گا۔‘ ولیعہد نے کہا کہ ’آج ہم خطے کے لیے نئے سبز دور کا آغاز کررہے ہیں۔ ہم اس کی قیادت کریں گے اور سب مل کر اس کے ثمرات حاصل کرینگے۔ ہمیں یقین ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا دائرہ فطری ماحول تک ہی محدود نہیں بلکہ اس سے معیشت اور امن و سلامتی سمیت مختلف شعبے متاثر ہورہے ہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی، افراد اور نجی اداروں کو خود کو منوانے کا اہم اقتصادی موقع ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’گرین مشرق وسطی اقدام کے توسط سے مختلف قسم کا روزگار بھی مہیا ہوگا اور خطے میں جدت طرازی کو بھی فروغ ملے گا‘۔ سعودی ولی عہد کا کہنا تھا’ سعودی عرب کاربن سرکلر اکانومی کے تصور کو عملی جامع پہنانے کے لیے کوآپریٹو پلیٹ فارم ماحولیاتی تبدیلی کا علاقائی مرکز کاربن کے اخراج ، استعمال اور ذخیرہ کرنے کے لیے ریجنل کمپلیکس، طوفانوں سے قبل ازوقت خبردار کرنے کے لیے علاقائی مرکز، مچھلیوں کی پائدار افزائش کے علاقائی مرکز، مصنوعی بارش کے علاقائی پروگرام قائم کرے گا‘۔انہوں نے کہاکہ’ سعودی عرب علاقے میں کاربن سرکلر اکانومی کی ٹیکنالوجی کے مسائل حل کرنے کیلئے انویسمنٹ فنڈ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے‘۔’سعودی عرب دنیا بھر میں 750 ملین سے زیادہ افراد کو غذا فراہم کرنے کے لیے ماحول دوست ایندھن فراہم کرنے والے عالمی پروگرام میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ ان دونوں اقدامات پر 39 ارب ریال کا سرمایہ لگے گا- سعودی عرب اس میں پندرہ فیصد حصہ ڈالے گا‘۔انہوں نے کہا کہ’ سعودی عرب ان اقدامات پر عملدرآمد اور ان کی فنڈنگ کے طریقوں پر غوروخوض کیلئے علاقائی اور بین الاقوامی ترقیاتی فنڈز اور ملکوں کے ساتھ مل جل کر کام کرے گا‘۔اس کانفرنس میں برادر اور دوست ممالک کے وزرائے اعظم، صدور، بڑی عالمی کمپنیوں کے ایگزیکٹیوز، چیئرمین، عالمی تنظیموں کے سربراہان، بین الاقوامی شخصیات، سکالرز، اور سول سوسائٹی کے نمائندے شرکت کئے ہیں۔فورم اور کانفرنس کے شرکا ء تحفظ ماحولیات کیلئے جاری کوششوں پر بحث مباحثے میں حصہلیااور خصوصاً ماحولیاتی تبدیلیوں اور چیلنجوں سے نمٹنے کے طور طریقوں پر غوروخوض کیاگیا۔ سعودی عرب نے فورم میں شرکت کیلئے متعدد ممالک کے سربراہان کے علاوہ عالمی اداروں کے نمائندوں کو مدعو کیا تھا ۔

سوڈان میں فوجی بغاوت۰۰ عوامی احتجاج ۔حالات انتہائی کشیدہ
سوڈان میں فوجی بغاوت کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں، عوام سڑکوں پر فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پرتشدد کارروائیاں کررہے ہیں۔ ذرائغ ابلاغ کے مطابق 25؍ اکٹوبر پیر کو سوڈان کی خودمختار کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے فوجی بغاوت کے بعد خودمختار کونسل اور عبوری حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ایک ٹیلیویژن خطاب میں جنرل عبدالفتاح البرہان نے ملک کی سلامتی کو خطرہ بتاتے ہوئے کہا کہ’’ اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے جاری کشمکش ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے اور فوج کو اس کی حفاظت کیلئے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘سوڈان کے وزیر اعظم عبداﷲ حمدوک کو گھر پر نظر بند کردیا گیا اور متعدد سیاسی قائدین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔سوڈان میں انتہائی کشیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے عرب ممالک نے اپیل کی ہے کہ ملک میں امن قائم کیا جائے۔سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں سوڈان کی صورتحال پر تشویش کا کہا اظہار کرتے ہوئے کشیدگی کم کرنے پر زور دیا ۔ وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’فریقین حالات کو معمول پرلانے کی کوشش کریں۔ ملک کے سیاسی اور اقتصادی فوائد اور ان تمام مقاصد کا تحفظ کریں جن کا ہدف ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ہے۔‘ اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں سوڈان میں فریقین سے امن کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔‘بحرین نے سوڈان کے حالات پر ’تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مناما نے سوڈان کی سیاسی جماعتوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس صورتحال کو مذاکرات کے ذریعے حل کر لیں گی۔‘لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سوڈان میں سکیورٹی، استحکام اور امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔متحدہ عرب امارات نے کشیدگی کم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سوڈان میں ’جلد از جلد استحکام کی ضرورت ہے جو سوڈان کے لوگوں کے مفادات میں ہو۔‘ ذرائع ابلاغ کے مطابق سوڈان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے نظام میں خلل کی وجہ سے انٹرنیٹ اور فون سروسز محدود ہو گئی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

افغانستان میں عوام فاقہ کشی کا شکار۔اقوام متحدہ
افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہے ،امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی ناکام بیس سالہ جنگ کے خاتمہ کے بعد ،امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کا ملک سے فرار ہونااوراس کے ساتھ ہی صدراشرف غنی کا بھی ملک سے فراراور انکی حکومت کا خاتمہ عالمی سطح پر حیران کن معاملہ تھا۔طالبان نے جس طرح دوبارہ افغانستان پر ممکنہ حد تک بغیر خون خرابے کے افغانستان دوبارہ قبضہ کیا اور پھر عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا اس پر عالمی سطح پر اعتراضات کئے گئے کہ طالبان ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو اپنی عبوری حکومت کا حصہ بنائے اور خواتین کو ہر شعبہ ہائے حیات میں مکمل اختیارات دیں۔جبکہ طالبان نے عبوری حکومت میں صرف طالبان رہنماؤں کو ہی حکومت کا حصہ بنایا اور ملک میں خواتین کے لئے ابھی کوئی اہم فیصلہ نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے عالمی سطح پر طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ان کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کئے گئے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان کی عبوری حکومت ملک میں امن و سلامتی کے لئے حتی المقدور کوشش کررہی ہیں کیونکہ گذشتہ دنوں شدت پسند تنظیم داعش نے مساجد کے اندر اور باہر دہشت گرد حملے کئے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح معاشی استحکام کیلئے طالبان حکومت کو عالمی امداد کی اشد ضرورت ہے اور اگر عالمی امداد جلد از جلد پہنچائی نہیں گئی تو لاکھوں افغان شہری فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں اس سلسلہ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اگر افغانستان کو تباہی کے دہانے سے نکالنے کیلئے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بچوں سمیت لاکھوں افغان شہری بھوک سے مر سکتے ہیں۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو اقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے نے افغانستان کو انسانی بحران سے نکالنے کیلئے منجمند فنڈز کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے روئٹرز کو بتایا کہ افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ان کے مطابق ’بچے مر جائیں گے۔ لوگ فاقوں سے مر جائیں گے۔ صورتحال مزید خراب ہونے جا رہی ہے۔‘اگست میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد افغانستان بحران کا شکارہوگیا اور غیرملکی امداد کا سلسلہ بھی بند ہو گیا تھا۔ڈیوڈ بیسلے نے کہا کہ ’ہم جس چیز کی پیشن گوئی کر رہے تھے وہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے سچ ثابت ہو رہی ہے۔ کابل کا سقوط بھی توقع کے برخلاف ہوا اور معیشت اس سے زیادہ تیزی سے گر رہی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’آپ کو فنڈز کو بحال کرنا پڑے گا تاکہ لوگ زندہ رہ سکیں۔‘اقوام متحدہ کے خوارک کے ادارے کو 23 ملین افغانوں کو جزوی طور پر کھلانے کیلئے تقریباً 220 ملین ڈالرز کی ہر مہینے ضرورت ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایاجاتا ہیکہ سینکڑوں افغان شہری خوراک کے حصول کیلئے اپنا قیمتی سامان فروخت کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ طالبان سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ویسے طالبان کے کنٹرول سے قبل بھی افغانستان کی حالت معاشی اعتبار سے کمزور رہی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہیکہ افغانستان کو تباہی سے بچانے کیلئے امدادی ادارے بین الاقوامی برادری پر افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ رابطوں پر زور دے رہے ہیں۔ڈیوڈ بیسلے نے مزید کہا کہ ’ ’مجھے نہیں لگتا کہ عالمی رہنماؤں کو احساس ہے کہ کیا پیش آنے والا ہے‘‘۔طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کے بعد اگست میں ہی عالمی بینک نے افغانستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کی امداد روک دی تھی۔اب دیکھنا ہیکہ یوروپی اور مغربی ممالک افغانستان کو معاشی تباہی اور عوام کو فاقہ کشی سے بچانے کیلئے کس قسم کی امداد فراہم کرتے ہیں اور طالبان حکومت کے ساتھ مستقبل قریب میں کس طرح کا رویہ برقرار رکھتے ہیں۰۰۰۰

افغانستان میں طالبان کا نئی مسلح افواج بنانے کا اعلان
ایک طرف افغانستان میں عوام فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں تو دوسری جانب شدت پسند عناصر یا تنظیم عبادتگاہوں پر حملے کرکے ملک میں دہشت گردی کا ماحول پیدا کررہی ہے جبکہ طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہوچکے ہیں، ان حالات میں ملک میں امن و سلامتی کی فضاء قائم کرنے اور دہشت گردی کے حملوں سے نمٹنے کیلئے طالبان عبوری حکومت نے ایک نیا اور اہم فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان نے افغانستان کی نئی مسلح افواج بنانے کا اعلان کیا ہے جس میں سابق حکومت کے دور میں کام کرنے والے فوجیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ جانے کے بعد مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اور فوج کا اگست میں خاتمہ ہوگیااور طالبان نے دوبارہ ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ستمبر میں عبوری حکومت کا اعلان کیا۔ طالبان کے بانی و سابق طالبان حکومت کے امیر ملامحمد عمر کے فرزندملا محمد یعقوب موجودہ حکومت کے وزیر دفاع نے 24اکٹوبر اتوار کے ایک آڈیو پیغام میں وزارتِ دفاع کے اعلامیہ کے مطابق کہا کہ وزارتِ دفاع ایک آزاد اور قومی سطح کی فوج بنانا چاہتی ہے جس کے پاس زمینی اور فضائی سطح پر ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت ہو۔ملا محمد یقوب نے کہا کہ فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کی کوشش کی جائے گی۔طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’فوج ہماری ترجیح اور ملک کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ اسلامی امارت ایک بااختیار فوج بنائے گی اور افغانوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہوگی اور اس کے پاس افغانستان کے امن کا دفاع کرنے کی صلاحیت ہوگی۔‘ذبیح اﷲ کا کہنا تھا کہ نئی فوج طالبان جنگجوؤں اور سابق حکومت کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی۔بتایاجاتا ہیکہ ’اس فوج میں نئی فورسز اور افغانستان نیشنل آرمی میں کام کرنے والی فورسز شامل ہونگی۔اس طرح ان دونوں فورسز کے ساتھ ایک طاقتور فوج بنانے کے عزم انہوں نے اعلان کیا۔‘یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ملک کی معیشت پہلے ہی تباہ حال ہے اور نئی فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کیلئے بڑی رقم کی ضرورت ہوگی ۔اس میں کس حد تک اور کیسے کامیابی حاصل کی جائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۰۰۰۰
***



 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210254 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.