شاہ رخ کے بیٹے آرین خان کو ضمانت ملنی تھی سو مل گئی
لیکن ان 25؍ دنوں کی کشمکش نے نواب ملک کو مہاراشٹر کی سیاست کا شہنشاہ
بنادیا۔ شرد پوار کا شمار ملک کے گھاگ سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے
نواب ملک کو اپنی پارٹی کی ممبئی شاخ کا سربراہ اور ترجمان بناکر جس اعتماد
کا اظہار کیا تھا وہ اس پر پورا اترے۔ نواب ملک اس لیے قابلِ مبارکباد ہیں
کہ انہوں نے بی جے پی کے آزمودہ حربے کو خود اسی کے خلاف اس مہارت سے
استعمال کیا کہ اس کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے۔ امیت شاہ کی حکمت عملی ہے کہ
سرکاری افسران کو استعمال کرکے مخالفین کی کمزوریاں پکڑو اور بلیک میل کرو۔
اس طریقۂ کار کاسائیڈ افیکٹ یہ ہے کہ جن افسران کو سرکاری پشت پناہی حاصل
ہوجاتی ہے وہ دلیر ہوکر ڈھٹائی سے بدعنوانی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ نواب ملک
اپنے سرکاری افسران کی مدد سے اس کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔ شئے اور مات کے
اس کھیل میں مرکزی حکومت چاروں خانے چت ہوگئی اور وہ کامیاب و کامران ہوگئے
۔ موجودہ صورتحال میں مرکز کے سامنے اپنے منظور نظر افسر کو جیل بھیجنے کے
سوا کوئی چارۂ کار نہیں بچاہے۔
مہاراشٹر میں جب بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرکے وکاس اگھاڑی کی سرکار
بنی تو لوگوں کو اصلی اور نقلی چانکیہ کا فرق سمجھ میں آگیا۔ امیت شاہ
اقلیت میں ہونے کے باوجود گوا میں سرکار بناچکے تھے جبکہ مہاراشٹر الٹا
ہوگیا۔ اس کے بعد ریاست کے سیاسی افق پر ایک ناتجربہ کار وزیر اعلیٰ ادھو
ٹھاکرے کا ظہور ہوا جو اقتدار کے گلیاروں میں اجنبی تھا۔ کورونا کی وباء نے
ثابت کردیا کہ وہ نازک گھڑی میں بغیر کسی ڈرامہ بازی کے نہایت سنجیدگی سے
عوام کی فلاح و بہبود پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے والے سنجیدہ سیاستداں ہیں۔
بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ نے جہاں ایک طرف دروغ گوئی سے اپنی اعتباریت کو
خاک آلود کردیا وہیں ادھو ٹھاکرے حقائق کا کھلے دل سے اعتراف کرکے ان سے
یکسوئی کے ساتھ نمٹتے رہے۔ صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی خاطر
پالگھر، سوشانت اور امبانی کے گھر پر آتش گیر مادہ جیسے مسائل کو خوب اچھا
لا گیا مگر وہ نہ جھکے اور نہ بکے ۔ اس دوران وزیر اعلیٰ کی مدافعت نے سنجے
راوت کو ذرائع ابلاغ میں چمکا دیا اور ان کے اکثرو بیشتر بیانات اخبارات کی
شاہ سرخی یا ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوز بنتے رہے۔
کورونا کی وباء کے دوران رمیڈیسور دوائی کی بدعنوانی کو منظر عام پر لانے
کے بعد نواب ملک کی مقبولیت بڑھنے لگی ۔اس معاملےمیں سابق وزیر اعلیٰ
دیویندر فردنویس کو منہ کی کھانی پڑی ۔ اس کے بعد آرین خان کا معاملہ
سامنے آیا۔ سشانت سنگھ کی خودکشی نے یہ بات ظاہر کردی کہ فلمی دنیا میں
منشیات کا استعمال عام ہے۔ اس بابت ابھی حال میں مرکزی وزارت برائے سماجی
انصاف نے مشورہ دیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس قلیل مقدار میں منشیات ملیں
انہیں مجرم کے بجائے متاثر مانا جائے۔ ایسے لوگوں کو جیل بھیجنے کے بجائے
ان کا علاج کیا جائے۔ اس تجویز سے قبل بھی یہ ہوتا رہا ہے۔ 2001 میں فیروز
خان کے بیٹے کو اسی طرح کے معاملے میں فردین خان کوبلا ہنگامہ ایک مہینہ
منشیات چھڑانے کے مرکز میں رکھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اٹل جی کو اس وقت اپنی
ناکامیاں چھپانے کے لیے ایسی خبروں کی ضرورت نہیں تھی جیسی کہ فی الحال
مودی جی کو ہے۔ گوتم اڈانی کی بندرگاہ پر 21ہزار کروڈ کی منشیات ضبطی ،
آشیش شرما کی گرفتاری، یوگی اور شاہ کی لڑائی اور کسانوں کی تحریک جیسے بے
شمار مسائل کو آرین خان کی گرفتاری سے چھپادیا گیا ۔
سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد وزیر اعظم کے پسندیدہ نعر ے’آپدا میں
اوسر‘( مشکل میں موقع) پر عمل در آمد کرتے ہوئے این سی بی کے افسر ان نے
فلمی ستاروں کو بلیک میل کرنے کا دھندا کھول لیا۔ اس سے شہرت کے ساتھ دولت
بھی ہاتھ آنے لگی ۔ اس دوران 25؍ ایسے مقدمات درج کیے گئے جن میں بے قصور
لوگوں کو غلط طریقے سے پھنسا کر روپیہ اینٹھنے کا الزام مع تفصیل منظر عام
پر آچکا ہے۔ ان میں سے ایک نواب ملک کے داماد سمیرخان کے خلاف بھی تھا ۔
این سی بی کے اس اقدام سے مرکزی حکومت کی بانچھیں کھل گئی ہوں گی کیونکہ اس
طرح مہاراشٹر میں این سی پی پر دباو بڑھا کر اس کے ساتھ حکومت سازی کا
امکان روشن ہوگیا تھا ۔ منشیات کے روک تھام سے متعلق بیورو این سی بی نے
سمیر خان کو 13؍ جنوری2021 کے دن نوٹس بھیج کر 14 دنوں کی عدالتی تحویل میں
لے لیا ۔ سرکاری وکیل نے سی بی ڈی آئل و دیگر منشیات کو مریجوانا کے ساتھ
ملانے کاالزام لگاکر ڈرگ پیڈلر کرن سنجوانی اورسمیر خان کے درمیان 20 ہزار
سے زائد رقم کے لین دین کو شواہد کے طور پر پیش کرکے ان کے خلاف این ڈی پی
سی کے 27 ؍اے قانون کے تحت مقدمہ درج کرلیا ۔
نواب ملک نے اس الزام کی تردید میں کہا کہ سمیر خان کے پاس موجود 200 کلو
تمباکو کو گانجہ دکھا کر انہیں پھنسایا گیا۔ اپنے داماد کو قید و بند سے
بچانے کے لیے وزیر موصوف کے سامنے کئی راہیں کھلی تھیں مثلاً کچھ دے دلا کر
کیس کمزور کرانا یا سیاسی رسوخ کا استعمال کرکے دہلی سے فون کروانا ۔ اس کے
علاوہ ذرائع ابلاغ میں شور شرابہ کرنے کا بھی موقع تھا مگر انہوں نے 14؍
جنوری کو صرف یہ ٹویٹ کیا کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اس لیے بلا
تفریق قانونی کاروائی کی جانی چاہئے۔ تاہم قانون کے مطابق انصاف ملے گا۔ وہ
عدالت کا احترام کرتے ہیں اور انہیں عدلیہ پر پورا اعتماد ہے۔ نواب ملک نے
یہ پروقار حکمت عملی غالباً اس لیے اختیار کی تاکہ یہ خبر دب جائے ۔ اس بات
کا قوی امکان تھا کہ سیاسی مصالحت یا میڈیا میں رونا دھونا اور الزام تراشی
خود ان کے خلاف جاتی ۔ سمیر خان کو ۹؍ ماہ کے بعد بالآخر ضمانت مل گئی اور
وہ باہر آگئے لیکن اس بیچ این سی بی کے ریجنل ڈائرکٹرسمیر وانکھیڈے کے
حوصلے خاصے بلند ہوچکے تھے ۔
این سی بی کے ایک ملازم نے ابھی حال میں ایک خط لکھ کر چونکانے والے
انکشافات کیے ہیں۔ ان کے مطابق سمیر وانکھیڈے کی نگرانی میں ایک ایسا
سرکاری مافیا عالم وجود میں آچکا ہے جو نہایت منظم انداز میں بارسوخ لوگوں
کو نشانہ بناکر انہیں اپنے جال میں پھنسا تاہے ۔ اس خط کے مطابق پچھلے سال،
سشانت سنگھ راجپوت کیس میں این سی بی کے سابق ڈائریکٹر جنرل راکیش استھانہ
نے کمل پریت سنگھ ملہوترا کو ایس آئی ٹی کا انچارج بنایا اورانہوں نے وزیر
داخلہ امیت شاہ کی تائید سے سمیر وانکھیڈے کو ادارے کی ممبئی شاخ کا سربراہ
بنوا دیا۔ اس کے بعد دیپیکا پڈوکون، کرشمہ پرکاش، شردھا کپور، اسکول پریت
سنگھ، سارہ علی خان، بھارتی سنگھ، ہرش لمباچیا، ریا چکرورتی، سووک چکرورتی
اور ارجن رامپال سے ان کے وکیل ایاز خان نے موٹی رقم وصول کرکے آپس میں
تقسیم کرلی ۔سمیر نے جھوٹے مقدمات بنانے کیلئے وشو وجے سنگھ، آئی او ایس
آشیش رنجن، کرن بابو، وشواناتھ تیواری اور جے آئی او سدھاکر شندے، او ٹی
سی کدم، ریڈی، پی ڈی مورے وغیرہ پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی اور یہ
کاروبار زور و شور سےپھلنے پھولنے لگا ۔
اس دوران جب آرین خان پر ہاتھ ڈالا گیا تو نواب ملک تال ٹھونک کر میدان
میں آگئے اور انہوں نے اس معاملے کو پرت در پرت اس طرح کھولا کہ بازی الٹ
گئی۔ سمیر وانکھیڈے کو عدالت سے خود کو اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے کی
خاطرعدالت میں دہائی دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ دوسروں کی تفتیش کرنے والے کے
خلاف خود این سی بی نے تفتیش شروع کردی ۔ سمیر وانکھیڈے نے آرین خان کی
گرفتاری میں اس قدر بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا اور قانون و ضابطے کو اس طرح
بالائے طاق رکھا کہ اسے ان کے وکیل نے بجا طور پر اغواء قرار دے دیا ۔ اس
معاملے میں سب سے پہلے تو گرفتاری کی خاطر استعمال کیے جانے والے نجی افراد
نے شک و شبہ پیدا کیا اور اس معاملے میں سازش کی بوباس آنے لگی۔
آرین کے ساتھ بی جے پی کے رہنما منیش بھانوشالی کی تصاویرنے ایک سیاسی
بھونچال پیدا کردیا کیونکہ فیس بک پر اس کی مودی ، شاہ اور نڈا کے ساتھ
تصاویر موجود تھیں ۔ اڈانی کے مندرا بندرگاہ میں منشیات کی ضبطی کے بعد
گجرات میں اس کی نقل و حرکت نے معاملے کو اور بھی الجھا دیا ۔ اس کے علاوہ
آرین کا ہاتھ تھامنے والے نام نہاد 'پرائیویٹ جاسوس' اور بی جے پی کا حامی
کِرن پی گوساوی کے خلاف کئی مقدمات سامنے آگئے ۔ فی الحال اسے پونے پولس
نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے بعد ایک سرکاری گواہ پربھاکر سیل نے حلف نامہ
داخل کرکے 25 کروڈ کی رشوت کا مطالبہ اور 18کروڈ کی ڈیل میں سے 8 کروڈ سمیر
کا حصہ ہونے کا انکشاف کر دیا۔ بالآخر کروذ میں موجود منشیات کے بین
الاقوامی اسمگلر سام ڈیسوزا کو گرفتار نہ کرنے کے الزام نے سمیر کا بیڑہ
غرق کردیا اور وہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔
سمیر وانکھیڈے کے خلاف جب محاذ کھلا تو بی جے پی نے اسے فرض شناس افسر کے
خطاب سے نواز کر نواب ملک پر ذاتی انتقام لینے کا الزام لگادیا ۔ یہ بی جے
پی کی دوہری غلطی تھی اول تو وہ سمیر وانکھیڈے کے ہمنوا کی حیثیت سے سامنے
آئی اور دوسرے اس معاملے کو ذاتی رنگ مل گیا۔ اس کے بعد سمیر وانکھیڈے کی
ذاتی زندگی تنازعات کا شکار ہوگئی۔ اس کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ وہ
مسلمان ہے اس لیے پسماندہ ذاتوں کے کوٹے میں اس کا ملازمت حاصل کرنا
جعلسازی ہے۔ اس الزام کے حق میں سمیر کے پیدائشی سرٹیفکیٹ سے لے کر نکاح
نامہ تک پیش کردیا گیا اور پھر اپنی پہلی بیوی سے طلاق نے اس کے کردار کو
مزید مسخ کردیا۔ یہ الزامات سمیر کو جیل بھیجنے کے لیے کافی ہیں ۔ ان شواہد
تک رسائی حاصل کرکے نواب ملک انہیں ذرائع ابلاغ میں بتدریج پیش کرتے رہے۔
یہ خاصہ پتاّ ماری کا کام تھا ۔ اس لیے آرین خان کی ضمانت میں التواء سے
بی جے پی کے حصے میں تو بدنامی آئی مگر نواب ملک کو اس کازبردست فائدہ ملا
اور اب ان کا شمار ملک مقبول ترین رہنماوں میں ہوتا ہے یعنی اب یہ سوال
کوئی نہیں کرسکتا کہ نواب ملک کون ہے؟ ان کی اس کامیاب جدوجہد پرسید صادق
حسین کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
|