چین کا ہمہ گیر عوامی جمہوری ماڈل

چین میں عوامی جمہوریت کے ہمہ گیر عمل کی ترقی پر زور دیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ عوام ہی ملک کے اصل حکمران ہیں۔سی پی سی نے 2012 سے جمہوری تصورات اور جمہوری عمل کو مسلسل تقویت بخشی ہے، اور اس پورے عمل میں عوامی جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے۔ یہ جمہوری ماڈل انتخابی جمہوریت، فکری جمہوریت، سماجی جمہوریت، نچلی سطح پر جمہوریت، شہری جمہوریت اور دیگر جمہوری سیاسی عناصر کا احاطہ کرتا ہے، جس سے یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ چینی عوام انتہائی جامع ، حقیقی اور سودمند جمہوریت سے لطف اندوز ہو سکیں۔

ابھی حال ہی میں چین میں برسراقتدار جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 19ویں مرکزی کمیٹی کا چھٹا کل رکنی اجلاس اختتام پزیر ہوا۔یہ اجلاس اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل رہا کہ اس میں "سی پی سی کی صد سالہ شاندار کامیابیوں اور تاریخی جدوجہد سے متعلق قرارداد " کی منظوری دی گئی۔یہ قرارداد اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے قبل 1945 اور 1981 میں منعقدہ سی پی سی کے اجلاسوں میں دو اہم قراردادوں کی منظوری دی گئی تھی ، اس قرارداد کے بارے میں مختلف حلقوں کی رائے ہے کہ یہ چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے نئے عہد میں چینی عوام کو ایک مختلف انداز میں رہنمائی فراہم کرے گی۔چین کے سیاسی جمہوری عمل کا مشاہدہ کیا جائے تو اسے ہمہ گیر عوامی جمہوریت کا ماڈل کہا جا سکتا ہے جس میں عوام ہی ملک کے حقیقی حکمران ہیں۔اس کے برعکس دیگر کئی ممالک اور معاشروں میں دیکھا گیا ہے کہ جمہوریت ، حقیقی جمہوریت کی بجائے سرمایہ داری پر منحصر ہے ۔

مذکورہ کل رکنی اجلاس کے حوالے سے جاری اعلامیے میں چین کی جانب سے" ثابت قدمی" کے حوالے سے دس اہم نکات کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ عالمی برادری جہاں چین کی معجزاتی ترقی اور کامیابی کے راز کا مطالعہ کر رہی ہے وہاں مذکورہ دس نکات نے اس کا مفصل جواب دیا ہے ۔ ان نکات میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی "دنیا کے بارے میں مستقل فکرمندی " نہ صرف سی پی سی کے اہم تجربات میں سے ایک ہے، بلکہ سی پی سی کے عالمی نقطہ نظر کا بھی ایک اہم مظہر ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے نہ تو چین نے اپنے طور پر کسی جنگ یا تنازعے کو ہوا دی ہے اور نہ ہی اس نے دوسرے ممالک کی ایک انچ زمین پر حملہ کیا ہے۔ تاحال چین اقوام متحدہ کے تقریباً 30 امن مشنز میں 50000 سے زائد امن دستے بھیج چکا ہے،یوں چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سب سے زیادہ امن دستے بھیجنے والا ملک ہے۔ ایرانی جوہری مسئلے سے لے کر افغانستان کی صورتحال سے نمٹنے تک ، چین نے فعال طور پر امن اور مذاکرات کو فروغ دیا ہے اور عالمی و علاقائی امن و سکون کو برقرار رکھنے میں تعمیری کردار ادا کیا ہے۔

چین نے ایک جامع خوشحال معاشرے کی تعمیر میں مطلق غربت کا خاتمہ کیا ہے جبکہ عالمی سطح پر انسداد غربت میں چین کی شراکت کا تناسب 70 فیصد سے زائد ہے۔عالمی اقتصادی ترقی میں چین کی معاشی شراکت کی شرح مسلسل 15 سالوں سے دنیا میں پہلے درجے پر ہے۔ چین اور "بیلٹ اینڈ روڈ" سے وابستہ ممالک کے درمیان سال 2020 تک مجموعی تجارتی حجم 9.2 ٹریلین امریکی ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ ان ممالک میں چین کی مجموعی براہ راست سرمایہ کاری کی مالیت تقریباً 140 بلین امریکی ڈالر ہے۔یوں "بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو متعلقہ ممالک کے عوام کے بہتر معیار زندگی میں مدد فراہم کر رہا ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ کا بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کا تصور اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں میں شامل کیا گیا ہے ۔ یہ عالمی گورننس کی بہتری میں سی پی سی کا ایک اہم تعاون ہے۔موجودہ عالمی وبائی صورتحال میں بھی چین دنیا کی بھرپور مدد کر رہا ہے لیکن اس سارے سفر میں سی پی سی کی تاریخ اور لغت میں لفظ "بالادستی" کبھی بھی شامل نہیں رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں ایک ہسپانوی اخبار لا ناسیونل نے کہا کہ "مغربی جمہوریت بحران کا شکار ہے"۔اخبار میں شائع شدہ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ آج کے مغربی معاشرے میں شہریوں کو ووٹ ڈالنے جیسے سیاسی حقوق تو حاصل ہیں، لیکن یہ اس بات کی ضمانت نہیں دیتے کہ وہ سیاسی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔ شارٹ کٹس طاقتور لوگوں کو عوامی منشاء کے برعکس سیاسی فیصلے کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ تجزیہ دنیا کو واضح طور پر دکھاتا ہے کہ کچھ مغربی ممالک کی "انتخابی جمہوریت" دراصل امیروں کے لیے ایک "کھیل" ہے، حقیقی جمہوریت ہرگز نہیں ہے۔

دوسری جانب چین میں عوامی جمہوریت کے ہمہ گیر عمل کی ترقی پر زور دیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ عوام ہی ملک کے اصل حکمران ہیں۔سی پی سی نے 2012 سے جمہوری تصورات اور جمہوری عمل کو مسلسل تقویت بخشی ہے، اور اس پورے عمل میں عوامی جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے۔ یہ جمہوری ماڈل انتخابی جمہوریت، فکری جمہوریت، سماجی جمہوریت، نچلی سطح پر جمہوریت، شہری جمہوریت اور دیگر جمہوری سیاسی عناصر کا احاطہ کرتا ہے، جس سے یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ چینی عوام انتہائی جامع ، حقیقی اور سودمند جمہوریت سے لطف اندوز ہو سکیں۔

کوئی بھی ملک جمہوری ہے یا نہیں، اس ملک کے عوام ایسا کہنے میں حق بجانب ہیں ۔ امریکی پولنگ ایجنسی کے تازہ ترین سروے نتائج کے مطابق چینی عوام کی حکمران جماعت "کمیونسٹ پارٹی آف چائنا" اور اپنی حکومت سے متعلق شرح اطمینان بالترتیب 95 فیصد اور 98 فیصد تک ہے۔ یہ چینی عوام کا اپنے جمہوری حقوق کے حوالے سے بہترین جواب ہے۔یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کسی بھی انفرادی ملک یا کسی مخصوص سماج کا پیٹنٹ ہرگز نہیں ہے اور تمام ممالک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جمہوری ترقی کے راستے کا انتخاب کریں۔ایک سو سالہ جدوجہد کے بعد، سی پی سی نے عوامی جمہوریت کےہمہ گیر عمل کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ سی پی سی نے چینی عوام کے اپنے سیاسی نظام پر بلند اعتماد کا بھرپور پاس رکھا ہے اور ترقی پذیر ممالک کی اکثریت کو ان کے قومی حالات کے مطابق جمہوری ماڈل تلاش کرنے کے لیے ایک مفید حوالہ بھی فراہم کیا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616660 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More