ابھی حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 19ویں مرکزی
کمیٹی کا چھٹا کل رکنی اجلاس اختتام پزیر ہوا جسے اپنی اہمیت کے اعتبار سے
ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ اجلاس" چینی خواب"
کی تعبیر اور چینی قوم کی عظیم نشاتِہ الثانیہ کی منزل کی جانب ایک اہم سنگ
میل کی نشاندہی کرتا ہے۔اجلاس میں گزشتہ صدی میں پارٹی کی اہم کامیابیوں
اور تاریخی تجربے سے متعلق قرارداد کی منظوری دی گئی ہے ۔ سی پی سی کی
قیادت کے گزشتہ 100 سالوں کا تجزیہ کیا گیا اور مستقبل قریب کے لیے ایک
لائحہ عمل بھی ترتیب دیا گیا۔ اجلاس میں سی پی سی کے رہنماؤں کے پیش کردہ
مارکسزم۔لینن ازم کے انقلابی افکار کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ملک کے
نظریاتی جھکاؤ اور اعلیٰ دانشمند قیادت نے اس "اٹوٹ میراث" پر گامزن رہتے
ہوئے آج چین کو ایک بہترین مقام پر فائز کر دیا ہے ،یہ اسی نظام کا ہی ثمر
ہے کہ ہر جانشین اپنے پیشرو کی مضبوط بنیاد پر کھڑے ہو کر ملک کو مزید ترقی
کی جانب لے جاتا ہے۔
بنیادی طور پر، چھٹے کل رکنی اجلاس نے ملک کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی
اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور قومی اور بین الاقوامی دونوں طرح کے چیلنجز سے
کامیابی سے نمٹنے کے لیے سمت کا تعین کر دیا ہے۔ چین کی چند بڑی کامیابیاں
جنہوں نے عالمی سطح پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اُن میں اقتصادی ترقی ،سائنسی
جدت ، سماجی بہبود ، ٹیکنالوجی کا فروغ ، غربت کا خاتمہ اور انسداد وبا کی
جنگ سرفہرست ہیں۔ان کامیابیوں کی اساس کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ہے جس نے
عوام کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے مضبوط فیصلہ سازی سے چین کو عروج کی جانب
گامزن کیا ہے۔
بلاشبہ سی پی سی چین کے موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا بنیادی محرک
ہے، جس میں صدر شی جن پھنگ کی مرکزی حیثیت ہے اور یہ اسی ولولہ انگیز قیادت
کا سحر ہی ہے جو ملک کے مستقبل کو نئے افق کی جانب لے جا رہا ہے۔ چین ایک
جامع معتدل خوشحال معاشرے کے قیام سے اپنے ماضی کے اہداف کو پورا کر چکا ہے
اور اب جرات مندی سے مستقبل کے نئے دور کی جانب دیکھ رہا ہے۔اس سفر میں
اضافی خوبی یہ ہے کہ چین اپنی محنت سے حاصل کی گئی کامیابی میں دوسروں کی
شمولیت کا بھی خواہاں ہے۔ چین چاہتا ہے کہ جو ترقی اُس نے اپنے بل بوتے پر
حاصل کی ہے وہ صرف چینی عوام تک ہی محدود نہ رہے بلکہ دنیا کے وہ تمام خطے
اور عوام جو آج بھی ترقی کے سفر سے کوسوں دور ہیں ، وہ بھی چین کی کرشماتی
ترقی سے استفادہ کریں کیونکہ صرف اسی صورت میں ہی چینی صدر کا بنی نوع
انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
دنیا کو یہ شعور ہونا چاہیے کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے اپنی 100 سالہ
تاریخ میں غیر ملکی طاقتوں کے ذریعے چین پر مسلط کیے گئے تمام غیر مساوی
سمجھوتوں اور سامراجی طاقتوں کا خاتمہ کیا ہے۔ چین کو دھمکانے کی کوشش کرنے
والوں کو چین کی تاریخ کا مزید باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
چین سی پی سی کی قیادت میں جس چٹانوں کی مانند مضبوط عزم اور غیرت کے ساتھ
اپنے وقار اور خودمختاری کی حفاظت کر رہا ہے ، وہ ناقابل تسخیر ہے۔موجودہ
وبائی صورتحال کا ہی جائزہ لیا جائے تو کووڈ۔19 کی سنگین تباہ کاریوں کے
باوجود، چینی حکومت نے بھرپور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوم کو کسی کے
رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ اس وبا کو شکست دیتے ہوئے بحرانی صورتحال کو
ایک موقع میں تبدیل کر دیا۔ یہ ملک ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک تحریک بن
چکا ہے اور ساتھ ساتھ امید کا پیغام بھی کہ اگر کسی بھی ملک کو مخلص قیادت
میسر آ جائے تو کوئی بھی طاقت اسے ترقی کے سفر سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی
ہے۔چین نے ترقی پذیر ممالک کو سکھایا ہے کہ بیرونی قوتوں کے دباؤ سے قطع
نظر اپنی آزادی اور قومی مفادات کے دفاع میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔
چینی صدر شی جن پھنگ جب 2012 میں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری
منتخب ہوئے، تو انہوں نے دو "صد سالہ اہداف" کو اپنا مشن قرار دیا تھا ۔
2021 تک چین کو ایک معتدل خوشحال معاشرہ بنانا ، اور 2049 تک ایک عظیم جدید
سوشلسٹ ملک کی تعمیر کرنا۔ان میں سے پہلا ہدف تو بخوبی مکمل کر لیا گیا ہے
اور حالیہ کل رکنی اجلاس نے دوسرے صد سالہ ہدف کے حصول کی جانب ایک نئے سفر
کا آغاز کیا ہے۔جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے
چینی عوام کو کامیابی کے ساتھ چینی طرز کی جدیدیت کی راہ پر گامزن کر دیا
ہے ، چین کی یہ جدید راہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی ایک صدی کی جدوجہد کا
نتیجہ ہے جو چینی خصوصیات اور چین کے زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ اس
جدیدیت کا مقصد ملکی سطح پر تمام لوگوں کی مشترکہ خوشحالی کا فروغ، انسانیت
اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کا ادراک اور بیرونی طور پر دنیا
کی پرامن ترقی کو فروغ دینا اور بنی نوع انسان کے ایک ہم نصیب سماج کی
تعمیر ہے۔سی پی سی کی صد سالہ جدوجہد کا سب سے قیمتی نچوڑ یہی ہے کہ ایسی
ترقیاتی راہ کی جستجو کی جائے جو چین کے اپنے قومی حالات کے مطابق ہو۔چین
نے دنیا پر اپنے قول و فعل سے ثابت کیا ہے کہ جدیدیت چند ممالک کا پیٹنٹ ہر
گز نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی دوسرے ملک پر نافذ کیا جا سکتا ہے ، ہر ملک
اپنے قومی تقاضوں کے مطابق ترقیاتی راہ اپنانے میں آزاد ہے اور کسی دوسرے
ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا ماڈل زبردستی دوسروں پر مسلط کرے۔یہی وہ
سوچ ہے جس نے اقوام عالم میں چین کو نمایاں ترین درجے پر فائز کر دیا ہے
اور دنیا کی امیدیں چین سے وابستہ ہو چکی ہیں۔
|