پاکستان مٹنے کے لئے نہیں بنا

پچھلے دنوں جو حالات وطنِ عزیز کو درپیش تھے وہ بےشک بحیثیت پاکستانی کے میرے لئے خوشگوار نہ تھے لیکن ان حالات کو جسطرح الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اُچھالا، و ہ میرے لئے خاصا مایوسی کن تھا۔ ایک لکھنے والے موصوف”مہران بیس“ پر دہشت گردوں کے حملے سے از حد مایوس تھے اور یہ مایوسی اُن کی گفتگو سے بھی جھلکتی رہی۔۔۔ میںنے اس درجہ مایوس ہونے کی وجہ پوچھی تو اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ”اب پاکستان مٹنے والا ہے“۔ میں موصوف کی سوچ پرسوائے تاسف کے کچھ نہ کرسکی۔۔ شکست خوردہ الفاظ کبھی قوم کو مثبت راہ نہیں دِکھاپاتے۔۔ اسلئے میں نے میں نے سچے محب والوطن ہونے کے ناطے سے کہا۔
”برادر! پاکستان مٹنے کےلئے نہیں بنا۔۔۔“

لیکن اُن حضرت کو میری بات کا یقین ہی نہیں آیا کیونکہ اُنہوں نے پہلے سے طے کر رکھا تھا کہ ”پاکستان تباہ ہونے والا ہے۔۔۔“ اس سلسلے میں بحث بھی ہوئی ، دلائل کا تبادلہ بھی ہوا لیکن حضرت کو میری بات کھ کھ سمجھ نہ آئی۔۔۔ میں نے سوچا چلو ایک منفی سوچ سے میری دھرتی کا کیا بگڑتا ہے۔ لیکن جب میں نے اپنے چاروں طرف منفی سوچوں کا منہ اُٹھاتا طوفان دیکھا تو حیرت ہوئی۔ جو اخبار اُٹھاؤ، جو چینل لگاؤ ہر جگہ ایک ہی شور سنائی دیتاہے ”پاکستان مٹنے والا ہے۔۔۔“ پاکستان تباہ ہوجائے گا ، پاکستان اب دنیا کے نقشے پر ایک بھولی بسری داستان رہ جائے گا۔۔۔!! پاکستان کی سا لمیت خطرے میں ہے۔ دفاعی ادارے اس صورتحال سے غافل ہیں۔۔۔ امریکہ غیر محسوس انداز میں پاکستان پر قابض ہو رہاہے۔۔۔ پاکستان مٹنے والا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

یہ کیسا شورہے؟ یہ کیسے الفاظ ہیں؟ یہ کیسے افکار ہیں؟ یہ کیسی سوچیں ہیں کہ ہر طرف مایوسی کا بسیرا ہوتا جارہاہے۔ مایوسی گناہ ہے کم از کم میں تو مایوس نہیں نہ پاکستان کے حال سے نہ پاکستان کے مستقبل سے۔۔۔ اچھے برے وقت قوموں پر آیا کرتے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے پر الزام لگا کے فرار کی راہ ڈھونڈ نے لگتے ہیں۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ یہ ”دھرتی کوئی معمولی دھرتی نہیں ہے۔۔۔ اس کی مٹی اتنی حقیر نہیں کہ جو چاہے ، جب چاہے اپنے مقاصد کے محل کھڑے کرلے۔۔۔ اس دھرتی میں ہزاروں شہید وں کا لہو شامل ہے، ماوؤں کے جگر کے ٹکڑے اس کے صدقے میں نچھاور ہوئے ہیں۔ بہنوں اور بیٹیوں کی دعاوؤں کا ثمر ہے یہ دھرتی۔۔
میری اور آپ کی دعا کا نام ہے”پاکستان“

کوئی لاکھ کہے پاکستان مٹنے والا ہے، مجھے یقین ہے کہ اس پاک دھرتی کو مٹانے والے خود نیست و نابود ہوجائینگے، شکست و ریخت کی تصویر بن جائینگے کیونکہ یہ دھرتی، زمین کا ایک ٹکڑا ہی نہیں بلکہ ”اسلام کا قلعہ بھی ہے“۔

بے روزگاری، کرپشن، استحصال، بے انصافی، غربت وافلاس، لوڈشیڈنگ آسماں سے باتیں کرتی مہنگائی سے عوام پہلے ہی ڈری سہمی ہوئی ہے، غیر محفوظ مستقبل کے خوف میں مبتلا ہیں اس پر کچھ کالم نویسوں اور اینکر پر سنز نے انہیں ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کا ٹھیکہ رکھاہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام مایوسی اور نا اُمید ی کا تیزی سے شکار ہورہی ہے۔۔۔ وہ ملک اور حکمرانوں سے بد دل ہوچکی ہے یہ سب اُن چند احباب کی وجہ سے ہوا ہے جو تمام اچھائیوں کو اپنی بغل میں دبا کے زہر اُگلنے کے عادی ہیں لکھنے کے اصل مقصد سے ناآشنا۔۔۔۔

عوام کو ڈرانے کی نہیں، جگانے کی ضرورت ہے انہیں عذاب کی وید نہیں سنانی بلکہ روشن صبح کے طلوع ہونے کی نوید دینی ہے۔ انہیں عمل کی قوت سے لیس کرنا ہے اُس عمل کی قوت سے جو تریسٹھ برسوں میں حالات ، واقعات کے تیز و تند تھپیڑوں میں گم ہوگیاہے۔۔۔ آزاد صحافت بے شک جمہوری معاشروں کا جھومر ہوتی ہے لیکن آزادی کے نام پر صحافت کو ”مزاق “بنانا قطعی مہذت معاشروں کا شیوا نہیں ہوتا۔۔۔ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا پر ہر جگہ اینکر پرسنز اور کالم نویس اپنے ہی وطن کی مٹی ”پلیت“ کررہے ہیں، اپنوں کو ہی مجرم ثابت کرکے، اپنی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کی حرص میںدھرتی کی عزت و قیمت کو گرا رہے ہیں۔ الزام تراشی کا ناسور پھیلتا ہی جارہا ہے۔ صحت مند صحافت کو اس ناسور سے پاک ہونا چاہئے۔ بے شک معاشرے کے تلخ حقائق سے پردہ اُٹھانا ہر صحافی کا حق ہے لیکن اس حق کا استعمال اسطرح ہوکہ معاشرہ برہنہ نہ ہو۔۔۔ برہنگی خیال میں ہو یا افکار میں دونوں صورتوں میں بدنامی کا باعث بنتی ہے۔۔۔ پاکستان اپنی اسٹریٹیجک اہمیت کے لحاظ سے امریکہ کےلئے ”سونے کی چڑیا“ کی حیثیت رکھتاہے۔اس لئے وہ ہر ممکن طریقے سے ، اس دھرتی کو اپنے مفادات کےلئے استعمال کرناچاہتا ہے (دوسرے الفاظ میں تباہ کرناچاہتاہے) اور یہ بات بھی طے ہے کہ امریکہ ایک دوست کے روپ میں خطرناک دشمن ہے۔ جس سے دوستی یا دشمنی دونوں میں نقصان عام پاکستانی کا ہے۔۔۔ امریکہ سے دوستی میں جتنا نقصان ہم نے اُٹھایا ہے وہ شاید کسی کو نہ ہواہو۔۔۔

عوام میں شک و شبہات استعداد پر وان چڑھ چکے ہیں کہ وہ خود کو ابھی سے لاتعلق کربیٹھے ہیں بھلے سے ڈاکٹر کبوتر آنکھیں چاہے بند کرلے لیکن خطرہ تو نہیں ٹل جاتا۔۔۔

ہمیں بحیثیت قوم اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ خود کو باہمی خلفشار سے بچانا ہے، تعصبات کی آگ نے ہمیں سوائے دکھوں کے کچھ نہیں دیا۔۔۔ اب ہمیں انسان دوستی کے نام پر یکجا ہونا ہوگا ہر تعصب سے ہٹ کر قومیت کو فوقیت دینی ہوگی۔۔۔ تاکہ پاکستان میں غیر ملکی مفادات کی جو جنگ جاری ہے وہ اپنے بدترین انجام کو پہنچ جائے۔

۲ مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈو آپریشن کے نتیجے میں قومی سلامتی، خودمختاری اور آزادی پر حرف آیا۔۔۔ پاکستان کی سالمیت اور دفاع پر بڑا سوالیہ نشان لگ گیا تھا میڈیا نے اس واقعے کو پتہ نہیں کون کون سے انداز میں پیش کیا۔ ملک و قوم ابھی اس حادثے کے منفی اثرات سے نبرد آزماتھے ”پی این ایس مہران بیس“ کا واقعہ رونما ہوگیا۔۔۔ دہشت گردوں نے حساس ترین تنصیبات پر حملے کئے نئے سوالوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا۔۔۔ دفاعی اداروں کی کارکردگی پر انگلیاں اُٹھائی گئیں، پاکستان کی سا لمیت اور دفاع پر تابڑ توڑ حملے ہونے لگےکہ ہماری فوج اب ملکی دفاع کے قابل نہیں رہی، وہ ملک کی سا لمیت سے غافل ہے۔ ہماری فوج بہادر نہیں رہی۔ اس کے بازوؤں میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا۔ فنانشل ٹائمز نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”پاکستانی فوجی ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے کےلئے لڑیں گے، لیکن وہ امریکی ایماءپر ایسا کرتے نظر نہیں آتے۔۔۔“

گویا اب ہم دوسروں کی ایماءپر اپنی دھرتی، ماں کو بے آبرو ہونے دینگے۔۔۔ دوسرے لفظوں میں ہم اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ دشمن ہمیں للکارے گا تو ہم آنکھ بند کرلینگے۔۔۔ امریکہ اور دنیا منہ دھو رکھے۔۔۔ پاکستانی افواج کل کی طرح آج بھی ہر لحاظ سے بہترین ہے ہمارا دشمن ”ہی کمزور“ ہے جو پیٹھ پیچھے وار کرتاہے۔۔۔“

ہماری فوجی طاقت کل کی طرح آج بھی ناقابل تسخیر ہے۔ ہماری فوج کے جوان سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں اُن کی نظر یں شہادت کو تلاش کرتی ہیں جن کےلئے زندگی وطن کی سربلندی اور سا لمیت کے سواءکچھ نہیں ہوتی۔۔۔ ہماری فوج بہادری سے پاکستان کی سا لمیت کےلئے لڑتی رہی ہے، لڑ رہی ہے وہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ پاک دھرتی کے دفاع سے ہرگز غافل نہیں۔۔۔۔ پی این ایس مہران بیس پر حملہ دہشت گردوں کی انتہائی منظم کاروائی تھی یہ کاروائی ” اور ین طیارہ“ کو حدف بنائے ہوئے تھی جن پر بھارت کو بہت ” تشویش “ تھی اور ان طیاروں کی تباہی سے پاکستان کو سوا 6 ارب کا نقصان ہواہے۔ہوسکتا ہے کہ پس پردہ پاکستان کا روایتی حریف بھارت دہشت کردی کی اس کاروائی میں شامل ہو، امریکی ہاتھ بھی اس میں شامل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ یہ دہشت گردی کا گھناؤنا واقعہ ہی نہیں بلکہ حساس ترین تنصیبات کی سیکورٹی کے حوالے سے بڑا سوال بھی ہے۔ سیکورٹی انتظامات میں کوتاہی ، کمی کی طرف اشارہ بھی، مسائل، مشکلات اپنی جگہ لیکن ہمیں قومی مورال کو ہرگز گرنے نہیں دینا کیونکہ جن قوموں نے بلند مورال کے ساتھ مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا وہ سرخرو رہیں ہمیں بھی خود کو اسی طور سر خرو کرنا ہے کیونکہ” پاکستان مٹنے کےلئے نہیں بنا۔۔۔“
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 28550 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.