آہ وقت بدل گیا، دنیا بدل گئی ، لیکن نہیں بدلے تو وطن
عزیز کی عوام کے حالات نہیں بدلے۔جی چاہتا ہے اپنے کالم میں ہر روز کسی
غریب کی کہانی لکھوں ، کسی سفید پوش کی حالات کے برزخ میں گزرتی زندگی کی
تصویر لفظوں سے بناوں یا عام آدمی کا قصہ لکھوں کہ وطن عزیز میں آئی تبدیلی
نے کیسے اس کی زندگی اور اس کے خاندان کو دیمک کی طرح چاٹ کر زمین بوس کر
دیا ہے۔حکومتی دعوے تھے کہ مہنگائی کم کرنے کے لیے ہمارے پاس بہترین ٹیم
موجود ہے جو مہنگائی کو کم کر کے آمدن میں اضافہ کرے گے اور نواز شریف، آصف
علی زردای کے عوام دشمن بجٹ و پیکچ سے عوام کو نجات دلائے گے۔آج پاکستان
میں مہنگائی نے73 سال کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں وزیر خزانہ کی حالیہ
رپورٹ میں آئندہ مہینوں میں افراط زر میں مزید اضافے کی پیش گوئی سے
مہنگائی کے عفریت تلے دبے عوام کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی ہے وہ یہ
پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ وزیراعظم کی طرف سے بار ہا مہنگائی کو کنٹرول
کرنے کے دعووں کا کیا ہوا؟ٹھوس معاشی پالیسیاں بنانے، حکومتی اخراجات کم
کرنے ، متمول طبقے سے ٹیکس وصولنے کی بجائے کیوں سارا بوجھ عام آدمی پر
ڈالا جا رہا ہے؟ پیٹرول ، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافہ صرف
مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا دوسرا نام بھی
ہے۔لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جہاں مہینے کا اکھٹا سامان لانے کا رواج دن بدن
ختم ہوتا جا رہا ہے۔ وطن عزیز شدید مہنگائی کی زد میں ہے۔غریب عوام کی قوت
خرید تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ اشیاء خوردنوش جیسے گندم، گھی، چینی، دالیں،
سبزیاں، ادوایات کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔غریب آدمی یہ چیزیں
خریدنے سے پہلے ہی اس کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔وزیراعظم کا حالیہ خطاب انکے
غیر سنجیدہ ہونے کا ثبوت ہے ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ
کچھ ہوا ہی نہیں ہے بقول ان کے پیٹرول مزید مہنگا ہو گا، مہنگائی میں مزید
اضافہ ہو گا ان کے خطاب میں کہی کوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کوئی
تجاویز سننے کو نہیں ملی ، کوئی حکمت عملی کہ اس مہنگائی کے بحران سے کیسے
نجات ملے گی ۔ عوام خطاب کے لیے بے چین بیٹھے تھے کے تبدیلی سرکار کوئی
عوامی ریلیف کا اعلان کرے گے ، پیٹرول، بجلی ، گیس، ادوایات، روزمرہ اشیاء
کی کمی کا اعلان ہو گا، مگر حالیہ خطاب نے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی۔
تین سال سے زیادہ عرصہ بھرپور حکومت کرنے کے بعد اپنی اور اپنے وزراء کے
تمام نااہلیوں کے زمہ دار نوازشریف اور آصف زرداری کو ٹھہرایا ، حالانکہ
کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔تاریخ کا مطالعہ کرے توماضی میں مسلمان
حکمران ہمیشہ روٹی کو مہنگا نہیں ہونے دیتے تھے وجہ یہ تھی کہ کوئی غریب
بھی بھوک سے نہ مرے۔میاں شہباز شریف نے جلاوطنی کے بعد اقتدار میں آتے ہی 2
روپے روٹی متعارف کروائی اور سختی سے اس پر عمل پیرا بھی کروایا جس سے
انہوں نے عوام کے دل موہ لیے۔ آج زندگی گزارناانتہائی تشویش ناک اورلمحہ
فکریہ بن چکا ہے ۔انسان زندہ رہنے کے قابل رہا ہے نہ مرنے کے، خودکشیاں آئے
روزہ کا معمول بن چکی ہیں دیہاتوں میں لوگ اپنے جسم سے گردے بیچتے اور کہیں
سوشل میڈیا پر اپنے پیدا کئے ہوئے بچے فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔حکومتی سطح
پر یہ بات سمجھنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ صرف قرضوں سے معیشتیں مضبوط
نہیں ہوتیں بلکہ خود انحصاری اپنا کر ملکی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے
روزگار کے مقامی زرائع پیدا کرینے سے ہوتی ہے۔کرونا وباء ہو یا مہنگائی و
بے راہ روی جیسے چیلنجز جن کی ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت تھی
افسوس حکومت انکے سد باب کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرتی نظر نہیں
آرہی ، نہ ہی معاشی و اقتصادی معاملات میں کوئی پلان نظر آرہا۔ اس گھمبیر
صورت حال میں غریب عوام کے لیے کوئی ریلیف ، کوئی زخموں پر ملم نظر نہیں
آئی ، دوسرے ممالک کی مثالیں کی داستانیں سنتے سنتے کان پک گئے۔ ادارے ایسے
ہیں، ٹیکس شرح ایسی ہے وغیرہ وغیرہ مگر غریب مہنگائی کی چکی میں پیس رہا ہے،
چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اولاد کو دینے کے لیے اب حوصلے بھی ختم ہو چکے ہیں۔
حتی کہ والدین اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک ، اقبال کے شاہینوں کو سکول،کالج و
یونیورسٹیوں سے ہٹا کر کم سے کم اجرت پر کام پرڈال رہے ہیں۔آپ کسی حکومتی
ماہر معاشیات کے ساتھ بیٹھ جائیں تو وہ آپ کو معاشی و اقتصادی بھول بھلیوں
کے ایسے گھن چکر میں گھما دیں گے جو کسی کی سمجھ سے بالاتر ہو گا اور
مجبورا جو سب اچھا ہے کا نتیجہ یہ ماہرین نکال لیں گے آپ کو ماننا پڑئے
گا۔حکومت وقت اس مہنگائی کے سونامی پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ
کرے، لولی پاپ ریلیف کی بجائے غریب بجٹ، ریلیف فل فور اناونس کیا جائے جو
باآسانی عوام تک پہنچ سکے ۔جس میں روزمرہ زندگی کی تمام اشیاء شامل ہوں اور
عوام کو سُکھ کی دو وقت کی روٹی میسر آئے ۔ اﷲ پاک ہمارے حکمرانوں کو وہ
قوت عطا کرے جس سے وہ عوام کے حق میں بہتر فیصلے کر سکیں۔ حکومت کو اپنی
معاشی منصوبہ بندی کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ورنہ لوگ بھوک اور افلاس کے
ہاتھوں عدم برداشت بلکہ جرائم پر آمادہ ہو جائیں گے اور زوال پذیر معاشرہ
مزید تباہی کی طرف جائے گا اور پھر حکومت کو جو ابھی سے ہتھیار ڈالے بیٹھی
ہے اس کیلیے حالات کو سنبھالنا مشکل نہیں ناممکن ہو جائے گا لہذا حالات کو
ادھر تک پہنچنے سے پہلے کوئی نہ کوئی بندوبست کرنا ہوگا۔اپنی مرضی کے خلاف
کچھ سننے کی عادت ڈالیں ممکن ہے آپ کو کچھ نیا سیکھنے کا موقع مل جائے۔
کیا ہو گا انجام ہمارا، کچھ تو سوچو
راہنماو سنو، خدارا کچھ تو سوچو
|