عمران خان کیا کر رہا ہے ؟

 جب سے عمران خان کی حکومت قائم ہوئی ہے ،تب سے ہمارے کان کسی اچھی خبر سننے کو ترس گئے ہیں مگر ہماری یہ خواہش پوری ہونی تو درکنار، اس کا الٹااثر ہی دیکھ رہے ہیں ۔میڈیا پر ابھی ابھی یہ خبر سننے کو مِلی کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں آٹھ روپے کا اضافہ کر دیا ۔اب پٹرول 145 روپے 82پیسے فی لیٹر ملا کرے گی ۔ ظاہر ہے پٹرول کی قیمت میں اضافے کا مطلب دیگر تمام اشیاء کے قیمتوں میں اضافہ ہے ۔ پشاور میں چینی 150 روپے فی کلو مل رہی ہے۔صرف چینی ہی نہیں ، تمام اشیاء خوردنی میں تین گنا بلکہ بعض اشیاء میں تو دس گنا تک اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ صرف غریب طبقہ ہی نہیں، متوسظ طبقہ بھی مہنگائی کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ عمران خان جب بھی ریلیف کی بات کرتا ہے ، غریب کی بات کرتا ہے، تو اگلے دن ریلیف کی بجائے تکلیف ملتی ہے ۔غریب مزید مہنگائی کے بوجھ تلے زمین میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

عمران خان وزیراعظم بنے تو عوام کی ایک کثیر تعداد نے انہیں مسیحا سمجھتے ہوئے امید کا دامن ہاتھ میں تھام لیا مگر انہیں کیا خبر تھی کہ جس شخص سے وہ امید لگا بیٹھے ہیں، انہیں کرکٹ کھیلنا تو خوب آتا ہے مگر حکومت چلانا اس کی بس کی بات نہیں ۔ جس طرح ایک اناڑی ڈاکٹر کسی مریض کا اپریشن کرتے ہوئے اسے ٹھیک کرنے کی بجائے مزید مشکلات میں اضافہ کرتا ہے اسی طرح عمران خان نے اس ملک کو ٹھیک کرنے کی بجائے مزید مشکلات کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ کیونکہ ایک اچھی حکومت یا بہتر حکمران وہ ہوتا ہے جس کے دورِ حکومت میں عوام خوشحال ہوں اگر عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں ، انکے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہو تو اس حکومت کو یا حکمران کو آپ اچھا نہیں کہہ سکتے ۔ہماری بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا ا پورا ملکی نظام کینسر زدہ ہو چکا ہے ۔ جو حکمران ہیں ،ان کے الّلے تلوں میں کوئی کمی نہیں آتی ،مہنگائی کا ان پر ذرّہ بھر اثر نہیں پڑتا ۔ ان کی بجلی مفت، پٹرول مفت، گاڑیاں سرکاری، گھر سرکاری ،نوکر چاکر سرکاری الغرض ان کا تمام خرچہ حکومت سے یعنی غریبوں کے کندھوں پر۔۔ ان کو یا ان کے بیگمات کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ٹماٹر کتنے روپے فی کلو ہے یا گھی اور تیل کا کیا بھاوء ہے ؟ ان کے پاس تو اپنا اتنا کچھ ہے اور ان کی آمدنی کے اتنے ذرائع پہلے سے موجود ہو تے ہیں کہ ان پر مہنگائی کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ عمران خان ہر تقریر میں دوسروں کو خصوصا ماضی کے حکمرانوں کو کوستا رہتا ہے ،چلیں مان لیتے ہیں ماضی کے حکمران چور تھے، کرپٹ تھے مگر عوام کی رائے بھی تو لے لیجئے کہ وہ ان کے دورِ حکومت میں سکھی تھے یا آپ کے دورِ حکومت میں زیادہ خوش ہیں ؟ سچی بات تو یہ ہے کہ آپ نے تو پاکستانی عوام کو چکرا کے رکھ دیا ہے مگر آپ کی قسمت اچھی ہے یا پیرنی کی دعا ہے کہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آپ مستقبل میں کچھ کر پائیں گے ، جبکہ اس کی امید کم کم ہی ہے ۔ کیونکہ جو بھی ملک آئی ایم ایف کے گھٹنوں تلے آجاتا ہے ، اس کا پھر اٹھنا محال ہو جاتا ہے ۔

بحر حال ، ہم تو عمران خان سے یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ یا تو عوام کی خبر لو اور مہنگائی کے جس بوجھ تلے،وہ کراہ رہے ہیں، اس بوجھ کو کم کر دو اور اگر کسی وجہ سے ان کے بوجھ کم نہیں کر سکتے تو ان پر رحم کرتے ہو ئے مستعفی ہو جاؤ ۔ اﷲ کی ذات رحیم و کریم ہے ، کوئی اور اس ملک کو سنبھال لے گا ۔ پاکستانی مائیں ابھی بانجھ نہیں ہوئیں ۔ آپ کو مزید غریبوں کی بد دعائیں لینے کی ضرورت نہیں ۔ جو کام آپ کی بس کی بات نہیں، اسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہے ۔ اگر آپ کے پاس غریبوں کی مرض یعنی غربت کی دوا موجود نہیں ہے تو پھر یہ بہتر ہے کہ ان کا علاج کرنا ہی چھوڑ دو ، ان کو مزید خراب نہ کرو ۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی چیز کی مہنگی ہونے کی خبر آتی ہے تو گلی گلی، محلے محلے، شہر شہر میں عوام انگشت بہ دانداں ہو کر ایک دوسرے سے پو چھتے ہیں کہ یہ ’’ عمران خان کیا کر رہا ہے ؟
 
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315501 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More