سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور شاید ہی کوئی بھول پائے۰۰۰
معصوم ننھے منے پیارے پیارے بچوں کی شہادت ، ظالموں کے ظلم کی انتہاء
تھی۰۰۰ تحریک طالبان پاکستان نے اس ظالمانہ کارروائی کی انجام دہی کیلئے
اقبال جرم کیا۰۰۰ اصل خاطیوں کو سزا مل پائی یا نہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا
نہیں جاسکتا ۔ لیکن آج بھی پاکستانی عدلیہ ان معصوم بے گناہوں کی شہادت کے
خلاف درندہ صفت ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچانے اور سانحہ کے بعد کوتاہی
برتنے والوں کو سزا دلانے کیلئے ملک کے وزیراعظم عمران خان کو 10؍
اکٹوبرچہارشنبہ کے دن پیش ہونے کا حکم صادر فرمایا جس پر وزیر اعظم عمران
خان نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر فوراً عمل کرتے ہوئے اسی روزعدالت پہنچ
گئے۔ واضح رہیکہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو آرمی پبلک اسکول (اے پی
ایس)از خود نوٹس کیس میں طلب کیا گیا تھا۔ 16؍ ڈسمبر 2014کو ہونے والے اس
حملے میں 144بچوں سمیت 150سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، اس حملے کی ذمہ
داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔اس سانحہ میں مظلوم بچوں کے
واقعات جب میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئے تو سننے اور دیکھنے والا ہر دل
غمزدہ ہوگیاکیوں نہ ہویہ معصوم ننھے منے بچوں کی آہیں ، انکی ہلاکت او
رزخموں پرہر دردِدل ماں باپ کیلئے عظیم صدمے سے کم نہیں تھا۔ اس واقعہ سے
متعلق لیڈی ریڈنگ ہاسپتل،پشاور میں خدمات انجام دینے والی ایک خاتون نرس
شبانہ رحمان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایاکہ ’’ایک بارہ تیرہ سال
کا بچہ بھی ان زخمیوں میں شامل تھا جو حافظ قرآن تھا، اُس بچے کو بیڈ پر
لٹایا گیا تو اس کے سر، جسم، اور پیروں پر گولیوں کے زخم تھے، اس کے جسم سے
خون بہہ رہا تھا اور حالت بہت خراب تھی لیکن اس بچے کا حوصلہ پہاڑ جیسا تھا
اور وہ بچہ مسلسل قرآن کی تلاوت کررہا تھا‘‘۔ آگے وہ بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر
اور اسٹاف اس بچے کا علاج کررہے تھے لیکن وہ خاموشی سے صرف تلاوت کرتا رہا
یہاں تک کہ اس کا دم نکل گیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ اس خاتون نرس کا
کہنا ہے کہ اس دن کا ماحول ایسا تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرنا
ہے، ہر طرف رونے اور چلانے کی آوازیں تھیں، بڑی تعداد میں زخمی اور لاشیں
پہنچ چکی تھیں۔ وہ زخمی بھی کوئی عام زخمی نہیں تھے بلکہ بچے تھے اور اکثر
بچوں کو بہت زیادہ زخم آئے تھے۔ انہیں دیکھ کر خود رونا آتا تھا کیونکہ میں
خود بھی ایک ماں ہوں۔ یہی کیفیت ان دیگر اساتذہ اور ہاسپتل کے اسٹاف کی تھی
جنہوں نے ان ننھے منے معصوم لاشوں اور زخمیوں کو دیکھا۔ یہی نہیں بلکہ آرمی
پبلک اسکول کا سانحہ دنیا بھر کے لوگوں کو صدمہ پہنچایا۔پاکستان کی تاریخ
کا یہ بڑا سانحہ جسے تحریک طالبان پاکستان نے انجام دیا جس کے بعض خاطیوں
کو سزا دی گئی لیکن اس سانحہ کے مزید ملزمین اور سکیوریٹی کی ناکامی کے ذمہ
داروں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے آج بھی بچوں کے والدین اور سرپرستوں کا
مطالبہ ہے ۔
آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کے بارے میں حقائق معلوم
کرنے کیلئے تشکیل دیئے گئے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس واقعہ کو
’’سکیوریٹی کی ناکامی‘‘ قرار دیا تھا۔ اس واقعہ نے ملک کے سکیوریٹی نظام پر
سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ وزیر اعظم کی حاضری سے قبل اسی روز سماعت کے دوران
چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل خالد جاوید سے پوچھا کہ وزیر اعظم نے
عدالتی حکم پڑھا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم کو
عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، انہیں اب عدالتی حکم سے آگاہ کرونگا‘‘۔ جس پر
چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی
کا معاملہ ہے؟ وزیر اعظم کو شخصی طور پربلائیں ان سے خود بات کرینگے ، ایسے
نہیں چلے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو جب عدالت کی
جانب سے بلائے جانے کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً وزیر قانون اور لیگل ٹیم
سے مشاورت کے بعد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور روسٹرم پر آئے۔ عدالت نے اس
موقع پر ریمارکس دیئے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول شہداء کے والدین چاہتے ہیں
کہ اس وقت کے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی ہو، جس پر وزیر اعظم نے جواب دیا
کہ’’ ملک میں کوئی مقدس شخصیت نہیں ، آپ حکم دیں ہم کارروائی کرینگے‘‘۔ چیف
جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ
نے سانحہ اے پی ایس کے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر
اعظم کی عدالت میں حاضری پر عدالت نے وزیر اعظم سے کہاکہ آپ ہمارے وزیر
اعظم ہیں اور قابلِ احترام ہیں، لیکن اب تک حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں،
ہمیں آپ کی پالیسی سے کوئی غرض نہیں۔ وزیراعظم نے عدالت میں کہا کہ مجھے
موقع دیں میں وضاحت کرتا ہوں، سانحہ اے پی ایس کے وقت ہماری مرکز میں حکومت
نہیں تھی، صوبے میں حکومت تھی، ہم نے شہداء کے لواحقین کیلئے ہر ممکن کام
کیا، عمران خان نے کہا کہ ’’میں خود پشاور پہنچا، ہاسپٹل میں زخمیوں کی
عیادت کی ، والدین اس وقت سکتے کی حالت میں تھے۔ وزیراعظم کے اس بیان کے
بعد چیف جسٹس نے ریمارک دیئے کہ اب توآپ اقتدار میں ہیں، آپ نے کیا کیا،
7سال ہوگئے ہیں، کمیشن بناچکے ہیں، رپورٹ آچکی ہے، 20؍ اکٹوبر کو ہمارا حکم
تھاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارک دیئے
کہ مسٹر پرائم منسٹر ہمارا کوئی چھوٹاملک نہیں، ہماری آرمی دنیا کی چھٹی
بڑی آرمی ہے، آپ مجرمان کو ٹیبل پر مذاکرات کیلئے لے آئے؟، سانحہ اے پی ایس
2014میں ہوا، رپورٹ 2019میں سامنے آئی۔ عدلیہ کے سوالات اور ریمارکس کے بعد
وزیر اعظم عمران خان نے عدالت کو ذمہ داروں ، غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف
کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی، سپریم کورٹ نے چار ہفتوں میں عملدرآمد
رپورٹ طلب کرلی، عدالت نے حکم دیا کہ عملدرآمد رپورٹ وزیراعظم کے دستخط سے
جمع کرائی جائے، جس کسی کی غفلت ثابت ہواس کے خلاف کارروائی کی جائے ،
وفاقی حکومت شہداء کے والدین کا مؤقف بھی سنے۔ اس موقع پر عدالت نے
وزیراعظم سے استفسار کیاکہ وزیراعظم صاحب! آپ متاثرہ بچوں کے والدین سے
ملے؟ ، جس پر وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ میں بچوں کے والدین سے کئی بار
ملا ہوں، عدالت نے ہدایت کی کہ آپ ان کو پرسہ دیں، ان کی تسلی کرائیں ،
شکایات دور کریں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ سانحہ آرمی پبلک اسکول
پشاورسابق وزیر اعظم نواز شریف دورِ حکومت میں ہوا ۔ اس سلسلہ میں دوران
سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت آسان تھاکہ نواز شریف اور چودھری نثار کے
خلاف مقدمہ درج کروادیتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارک دیئے کہ تعین کیا
جائے کہ کس کی کیا کوتاہی تھی؟ سپریم کورٹ نے حکومت کو متاثرین کے ساتھ مل
کر اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ
پاکستانی حکام نے اس واقعہ میں ملوث متعدد افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ
چلاکر سزا دی ہے تاہم ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا موقف رہا ہیکہ ان
کے بچے ایک چھاؤنی میں قائم فوج کے زیر انتظام اسکول میں حصول تعلیم کے لئے
گئے تھے وہ جنگ کے محاذ پر نہیں تھے اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کی
فیس اسکول انتظامیہ کو باقاعدگی سے دیتے تھے تو پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا،
کس کی ایما ء پر ہوا اور کس کی غفلت کا نتیجہ تھا؟ والدین کا یہ مطالبہ رہا
ہے کہ اس سلسلے میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور جن کی غفلت یا لاپروائی
سے یہ حملہ ہوا ہے انہیں سزا دی جائے۔ اب دیکھنا ہے کہ عدالت میں پیش ہونے
کے بعد وزیراعظم عمران خان نے عدالت کے حکم پر کارروائی کرنے کا وعدہ کیا
ہے وہ اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کے ان ظالموں
اور سکیورٹی میں ناکام ذمہ داروں کو سزا دلانے میں کیا رول ادا کرتے ہیں۰۰۰
افغانستان کی صورتحال پر ہندوستان میں اجلاس
افغانستان انتہائی خراب دور سے گزررہا ہے۔ ملک کے حالات انتہائی کشیدہ ہوتے
جارہے ہیں ایک طرف معاشی تنگدستی ہے تو دوسری جانب شدت پسند تنظیم داعش
دہشت گردانہ حملے کرکے ملک کے حالات کو مزید خراب کررہی ہے۔ طالبان کا
دوبارہ افغانستان پر قبضہ مستقبل قریب میں کیا صورت اختیار کرتا ہے اور
عالمی برادری طالبان حکومت کو افغان عوام کیلئے کس طرح کی مدد فراہم کرتی
ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہیکہ عالمی سطح پر
افغانستان کی صورتحال پر سب کی نظریں ہیں۔ پڑوسی ممالک ہندوستان اور
پاکستان بھی افغانستان میں بہتر صورتحال کیلئے کوشاں ہیں۔ کیونکہ کسی بھی
ملک کے اندرونی حالات خراب ہوں تو اسکے اثرات پڑوسی ممالک پر پڑتے ہیں اسی
لئے ہندوپاک اپنے اپنے طور پر افغانستان کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ہندوستانی حکومت نے افغانستان کی صورتحال پر ہندوستانی مشیر سلامتی امور
اجیت ڈوول کی سربراہی میں چہارشنبہ کو ’دہلی ریجنل سیکورٹی ڈائیلاگ آن
افغانستان‘ کے نام سے ایک اجلاس منعقد اکیا۔اس اجلاس میں ایران کے ریئر
ایڈمرل علی شمخانی، روس کے نکولائی پی پیٹروشیف، قازقستان کے کریم ماسیموف،
کرغزستان کے مارات مکانووچ، تاجکستان کے نصرلو رحمتزو محمود زودا،
ترکمانستان کے سی کے اماووو اور ازبکستان کے وکٹر مخمودوف کے مہمان ہیں۔روس
پہلے ہی ہندوستان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے ۔ اس اجلاس
میں روس اور ایران کی شرکت کو افغانستان پر اتحادیوں کے درمیان ایک اہم
حکمت عملی بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔یہ پہلا موقع ہے
کہہندوستان کی جانب سے منعقد ہونے والے اس اجلاس میں نہ صرف افغانستان کے
پڑوسی بلکہ پاکستان اور چین کے بجائے وسطی ایشیا کے تمام بڑے ممالک کو شرکت
کی دعوت دی گئی ہے جو ہندوستان کیلئے افغانستان کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا
ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ اعلیٰ سطحی مذاکرات میں
افغانستان میں حالیہ پیشرفت سے پیدا ہونے والی علاقائی سلامتی کی صورتحال
کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امن، سلامتی اور استحکام کے فروغ کی
حمایت کے لئے بات کی گئی اور انسانی امداد کے حوالے سے بھی بات چیت
ہوئی۔افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی مذمت کی گئی اور ملک میں امن و
سلامتی کے لئے موثر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق
پاکستان اور چین کو بھی دعوت دی گئی تھی لیکن پاکستان نے آنے سے انکار
کردیا جبکہ چین بھی کسی بہانے آنے سے معذرت کرلی ہے۔
افغان وفد کی پاکستان میں آمد
طالبان کے سرکاری ترجمان عبدالقہار بلخی کے مطابق اسلام آباد کوافغان وفد
میں طالبان حکومت کی وزارت خزانہ اور تجارت کے حکام بھی شامل ہیں۔ بلخی کی
ٹویٹ کے مطابق دونوں ممالک کے نمائندے باہمی تعلقات میں بہتری لانے، معیشت،
لوگوں اور پناہ گزینوں کی نقل و حرکت کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی جیسے
امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔توقع کی جا رہی ہے کہ امیر خان متقی اسلام
آباد میں قیام کے دوران پاکستانی، امریکی، روسی اور چینی حکام سے ملاقت
کریں گے۔تاہم اس سے زیادہ اہم جمعرات کو ہونے والی ’ٹرائیکا پلس‘ ملاقات ہے
جہاں تینوں بڑے ممالک کے افغانستان کیلئے خصوصی ایلچی، امریکہ کے ٹامس
ویسٹ، روس کے ضمیر کابلآف اور چین کی یوئے ڑاؤیونگ، پاکستانی اور افغان
حکام سے ملاقات کریں گے۔واضح رہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ کا یہ دورہ
عمران خان حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی
خبر آنے کے بعد ہو رہا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ان امن مذاکرات میں
بھی افغان طالبان نے کردار ادا کیا ہے۔
افغان طالبان دنیا کے لئے خطرہ نہیں۰۰۰ سراج الدین حقانی
افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا ہیکہ ہم
دنیا کے لئے خطرہ نہیں ہیں اور ہم دوسرے ممالک سے اعتماد سازی کیلئے تیار
ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ ہماری جنگ اپنی آزادی کے جائز حق
کیلئے تھی، ہم دنیا سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور دوحہ معاہدے کے پابند
ہیں۔ واضح رہے کہ طالبان نے 15؍ اگسٹ کو کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد
7؍ ستمبرکو عبوری کابینہ کا اعلان کیا تھا۔ عبوری کابینہ میں ملا محمد حسن
اخوند کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے ۔ یہاں یہ بات واضح رہیکہ سراج الدین
حقانی جو اس وقت عبوری حکومت کے وزیر داخلہ ہیں جن کی گرفتاری پر امریکہ نے
لاکھوں ڈالرز انعام کا اعلان کررکھا ہے۔ افغانستان میں حالات انتہائی کشیدہ
ہیں ، دہشت گرد تنظیم داعش طالبان کی جانب سے افغانستان پر کنٹرول حاصل
کرنے کے بعد سے ملک میں ظالمانہ کارروائیاں انجام دے رہی ہے۔ ملک میں
لاکھوں افراد فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں جبکہ سردی اپنے عروج پر پہنچنے
والی ہے ان حالات میں عوام کیلئے سردی سے بچنے کے لئے انتظامات ضروری ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہیکہ اس مرتبہ سردیاں سخت ہونگی اور اگر صورتحال واقعی ایسی
ہوئی تو بڑی تعداد میں لوگوں کو شدید بھوک اور یہاں تک کہ قحط کا سامنا بھی
کرنا پڑسکتا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹیو ڈائرکٹر ڈیوڈ بیسلے
افغانستان کی اس صورتحال کو تشویشناک بتایا۔ ان حالات میں طالبان حکومت کو
عوام کی بھوک و پیاس بچھانے اور انکی سیکیوریٹی کے لئے وسیع تر انتظامات
کرنے ہونگے اور یہ سب عالمی سطح پر امداد سے پورے ہوسکتے ہیں۰۰۰
سعودی عرب میں غربت اور فاقے کی شرح صفر ؟
سعودی عرب میں غربت اور فاقے کی شرح صفر بتائی جارہی ہے اس میں کتنی صداقت
یا حقیت ہے یہ تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے ، لیکن جدہ میں اسلامی مالیاتی خدمات
کونسل نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب میں غربت اور فاقے کی شرح صفر فیصد تک آ گئی
ہے جو کہ سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔‘ الاخباریہ
ذرائع ابلاغ کے مطابق اسلامی مالیاتی کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سعودی
حکومت نے تعلیم کے شعبے پر توجہ دی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان مساوات
کا اصول اپنایا گیا۔اسلامی مالیاتی کونسل کا پندرہویں سیشن کا سہ روزہ
اجلاس منگل 9؍ نومبرکو شروع ہوا، اس کاعنوان’اسلامی فنڈنگ، ڈیجیٹل تبدیلی،
جدت طرازی اور لچک کے درمیان توازن‘ ہے۔اس اجلاس کی میزبانی سعودی سینٹرل
بینک (ساما) کررہا ہے۔ اجلاس میں 18 سے زائد ممالک کے سینٹرل بینکوں،
مالیاتی اداروں اور نگراں اداروں کے نمائندے شریک بتائے جاتے ہیں۔اسلامی
مالیاتی خدمات کونسل کے ایک اجلاس کا عنوان ’اسلامی مالیاتی سیکٹر کا ادارہ
جاتی بنیادی ڈھانچہ‘ رہا- کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر بیلو لاوال
دانباتا، معاون سیکریٹری جنرل ڈاکٹرفقی اسماعیل اور معاون سیکریٹری جنرل
سہیل الزدجالی نے ہیں جنہوں نے اس اجلاس سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر بیلو نے اجلاس
کے آغاز میں گذشتہ برسوں کے دوران اسلامی مالیاتی کونسل کی کارکردگی کا
تعارف کرایا۔انہوں نے کہاکہ ’اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ گذشتہ تین برسوں کے
دوران رکن ملکوں کے ہاں اسلامی مالیاتی خدمات کا شعبہ مسلسل آگے بڑھ رہا
ہے۔ رکن ملکوں نے 2018 کے دوران 2.19 ٹریلین ڈالر کمائے- 2019 میں 2.44
ٹریلین ڈالر کمائے جبکہ 2020 کے دوران شرح نمو 2.70 ٹریلین ڈالر سے زیادہ
ریکارڈ کی گئی۔‘انہوں نے کہا کہ اسلامی مالیاتی خدمات کونسل دنیا کے 80 سے
زائد بازاروں اور مارکیٹ کے 98 موثر فریقوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کئی بین
الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہیکہ سعودی عرب میں سعودی
ائزیشن کے نام پر لاکھوں تارکین وطنوں کو روزگار سے محروم کردیا گیا اور
ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن خالی ہاتھ اپنے اپنے ملکوں کو پہنچے۔ آزاد
ویزے کے نام پر سعودی کفیل ان افراد سے کثیر ریال اینٹھتے رہے۔ آزاد ویزا
کی کوئی حقیقت نہیں لیکن ہندو پاک اور دیگر ممالک کے لوگ سعودی عرب پہنچ کر
اچھی نوکری کی تلاش میں کسی سعودی کی کفالت میں لاکھوں روپیے خرچ کرکے
سعودی عرب پہنچتے ہیں اور وہاں جانے کے بعد انہیں پتہ چلاتا ہیکہ آزاد ویزے
کی کیا حیثیت ہے اور حکومت ان افراد کے خلاف غیر قانونی طور پر مقیم ہونے
کا لیبل لگاکر جیلوں میں ڈال دیتی ہے اور وہاں سے ملک واپس بھیج دیا جاتا
ہے۔ ان میں بعض لوگ اچھی نوکری بھی پالیتے ہیں اور اس کفیل سے ٹرانسفر لے
کر نئی کمپنی جوائن کرلیتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم رہنے والے کئی
افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو کھانے پینے کے محتاج رہتے ہیں بعض تو کچرے دان
کے ڈبوں کے پاس لگائی جانے والی پاکٹوں سے غذا حاصل کرکے اپنا پیٹ بھرتے
ہیں ۔ شاید اس کا علم شاہی حکومت اور افسرانِ شاہی کو نہیں ۰۰۰ کاش ایسے
افراد کے تعلق سے حکومت آگاہی حاصل کرتی اور انہیں روزگار فراہم کرنے کے
انتظامات کرتی ۰۰۰ اب اس میں کتنی حقیقت یا صداقت ہے کہ سعودی عرب میں فاقہ
یا غربت کی شرح صفر ہے۔
ٌٌٌٌٌ****
|