پنجاب میں متوقع بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے سیاسی فضاء
کافی سرگرم دکھائی دے رہی ہے پہلے اداروں کی مدت 30دسمبر کو ختم ہو رہی ہے
اور امید کی جا رہی ہے کہ حکومت بہت جلد نئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد
ممکن بنائے گی ایک جانب تو بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سیاسی گہما گہمی
جاری ہے سیاسی جماعتیں تحصیلوں کیلیئے اپنے متوقع امیدواروں کے ناموں پر
غور کر رہی ہیں اور بعض امیدوار اپنے طور پر بھی ورک کر رہے ہیں ن لیگ کی
طرف سے تو باقاعدہ ہر یو سی میں سیاسی اجتماع منعقد کیئے جا رہے ہیں نائب
صدر پنجاب قمر السلام راجہ تو ہر آئے روز جلسہ جلوس کر رہے ہیں انہوں نے
اپنے حلقے میں ن لیگ کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہر سوئے ہوئے ورکر کو جگا
دیا ہے وہ ایک کے بعد دوسری یو سی کا رخ کر رہے ہیں لیکن حکمران جماعت کے
مقامی رہنما ابھی تک بلکل خاموش ہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ عین وقت پر
اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرے گی پی ٹی آئی نے اس وقت سیاسی میدان بلکل
خالی چھوڑا ہوا ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ کوئی سیاسی اجتماع
کروا سکے جس وجہ سے ن لیگ اکیلے ہی سیاسی میدان میں کھیلتی نظر آ رہی ہے ن
لیگ اپنی گیم میں کامیاب بھی دکھائی دے رہی ہے پی ٹی آئی کے مقامی رہنما ؤں
نے اس وقت چپ سادھ لی ہے اور وہ اس وقت کلرسیداں کی سرکاری تقریبات میں بھی
نظر نہیں آ رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی قیادت کی طرف سے مختلف
مقامی شخصیات کو کاغذی عہدے تو دے دیئے گئے ہیں لیکن ان کو اختیارات نہیں
دیئے گئے ہیں جس وجہ سے وہ بلکل بے بس ہیں انہوں نے اپنی عقلمندی کے بل
بوتے پر اپنی عزت بھی بنائی ہوئی ہے اور وقت ٹپائی بھی کر رہے ہیں باقی
پارٹی کی طرف سے ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی ہے وہ اپنے طور پر
ہی کام چلائے ہوئے ہیں پی ٹی آئی کی طرف سے مقامی طور پر پرائس کمیٹیاں بھی
بنائی گئی ہیں سیکریٹری گڈ گورننس بھی لگائے گئے ہیں لیکن سب کچھ بیکار گیا
ہے عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے ہیں جس کو کنٹرول کرنے میں ساری
حکومتی مشینری جواب دے گئی ہے کلرسیداں کیلیئے مقرر کیئے گئے سیکریٹری گڈ
گورننس ملک عنصر نے تو شروع میں بہت اچھا کام کیا ہے لیکن شاید انہوں نے
بھی حالات و واقعات کے بھانپتے ہوئے یہ محسوس کیا ہے کہ یہاں پر کام کرنا
بہت مشکل ہے اور اسی وجہ سے وہ بلکل ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور انہوں نے اپنے
کام میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے اس کی بنیادی وجہ بھی پارٹی قیادت کی طرف
سے حوصلہ افزائی نہ ہونا بنی ہے انہوں نے عہدہ ملنے کے بعد کچھ گھپلے پکڑے
بھی تھے لیکن سیاسی مجبوریاں ان کو بھی ساتھ بہا کر لے گئی ہیں صدر پی ٹی
آئی کلرسیداں آصف اقبال کیانی صدر لیبر ونگ راجہ فیصل زبیر بھی شروع میں
بہت زیادہ متحرک رہے ہیں لیکن ان کو بھی جب اس بات کا علم ہوا کہ پارٹی میں
کام کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں ہے یہاں صرف ٹانگیں ہی کھینچی جاتی ہیں اب
وہ بھی میدان عمل سے بہت دور ہو چکے ہیں پی ٹی آئی پانچ چھ ماہ قبل
کلرسیداں میں بہت زیادہ مقبول ہو گئی تھی لیکن حکومت پالیسیوں اور مقامی ن
لیگی رہنماؤں کی حکمت عملی نے اس تاثر کو بلکل زائل کر دیا ہے اب وہ اپنی
مقبولیت کھو چکی ہے اور ن لیگ کلرسیداں کی سیاسی فضاء پر قابض ہونے میں
کامیاب دکھائی دے رہی ہے اگر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بروقت ہوتا ہے تو
پی ٹی آئی کو کلرسیداں میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ن لیگ کی
طرف سے بہت ہیوی ویٹ امیدوار میدان میں اتارے جانے کے امکانات ہیں جن کا
مقابلہ پی ٹی آئی کیلیئے ممکن نہیں ہو سکے گا تحصیل کے علاوہ دیگر یو سیز
میں بھی ھالات پی ٹی آئی کے حق میں نہیں ہیں وہاں پر بھی حکومت پارٹی ن لیگ
کو ناکامی سے دوچار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کے پاس
کوئی ایسی دلیل ہی موجود نہیں ہے جس کے بل بوتے پر وہ عوام کو مطمئن کر
سکیں گئے جبکہ دوسری طرف ن لیگی امیدواروں کے پاس پی ٹی آئی کے خلاف بہت
سارا مواد موجود ہے جس کو استمعال میں لا کر وہ عوام کو مطمئن کرنے میں
کامیاب ہو جائیں گئے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو اس بات پر خصوصی دھیان
دینا ہو گا کہ وہ اپنے پارٹی کے رہنماؤں کو صرف کاگذی عہدے دینے سے پرہیز
کرے اگر کسی کو کوئی عہدہ دیا بھی جاتا ہے تو ساتھ ان کو اختیارات بھی دیں
موجدہ صورتحال میں تو وہ اپنے کاموں کیلیئے کسی دوسرے کا سہارا لینے پر
مجبور ہیں وہ کسی دوسرے کے کام کیسے کروا سکیں گئے کاغذی عہدیدار اپنی
جماعت سے مایوس ہو چکے ہیں ان کو اپنی پارٹی قیادت سے صرف یہی گلے شکوے ہیں
کہ ان کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے جس کی تمام تر زمہ داری مرکزی
قیادت پر عائد ہوتی ہے اگر موجودہ عہدیداروں کو ان کے جائز مقامات نہ دیئے
گئے تو آئندہ کوئی بھی ورکر کوئی سیاسی عہدہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہو گا
|