جہاد افغانستان میں پاک فوج کی بات کریں تو یہ ایک تاریخی
کردار بنتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بھارت نے پاکستان کے قیام کو کبھی بھی دل
سے تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ بھارت کے آئین کے اندر تحریر ہے کہ اُس نے پاکستان
توڑ کر پھر سے اسے بھارت میں شامل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا ہے۔جب تحریک
پاکستان کے بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زیر کمان زروں
پر چل رہی تھی اور پاکستان بننا روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا تھا اور
برصغیر کے کونے کونے میں پاکستان کا مطلب کیا اور دو قومی نظریہ کے تحت
پاکستان کا مطلب کیا’’ لا الہ الا اﷲ‘‘۔’’لے کے رہیں پاکستان‘‘۔’’ بن کے
رہے گا پاکستان‘‘ ۔’’اور مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ کے ایمان افروز نعرے
مسلمان لگا رہے تو بھارت کے لیڈروں نے اپنے ہندوؤں کو یہ سمجھا کر مطمئن
کیا تھا کہ اب تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مسلمانوں کے دلوں میں مذہب
کا جادو جگا کر دو قومی نظریہ پر اکٹھا کر لیا ہے، پاکستان بننے دو ۔ جب
پاکستان بن جائے گا تو ہم اسے پھر سے گانگریس کے سیکولر کی بیانیہ پر موڑ
لے گے ۔ قومیتیوں اور لسانیت کے جال پچھا کر انہیں ایک دورے الگ کر کے اسے
بھارت میں شامل کر لیں گے۔ اسی لیے بھارت کے تعلیمی نصاب میں درج ہے کہ
بھارت گاؤ ماتا کے ٹکڑے کر کے پاکستان بنایا گیا ہے۔ اس ٹکڑے کو واپس جوڑ
کراکھنڈ بنانا ہے۔ بھارت نے اکھنڈ بھارت کا نقشہ تک جاری کیا ہوا ہے۔ جس
میں برما سے لے کر کابل تک کا سارا علاقہ جس میں بنگلہ دیش اور پاکستان کو
بھی شامل کر رکھا ہے۔ اسی ڈاکٹرائین پر بھارت نے پاکستان کے مشرقی حصہ،
مشرقی پاکستان کو بنگلہ قومیت اور نام نہاد حقوق کے نام پر غدار پاکستان
شیخ مجیب الرحمان کو فریب میں مبتلا کر کے ،مکتی باہنی بنا کر،دہشت گردی
پھیلا کر، مغربی پاکستانیوں اور محب وطن بنگالیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ کر
اور اپنی باقاعدہ فوج کشی اور بین الاقوامی سازش کے ذریعے بنگلہ د یش بنا
یا تھا۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنے ساتھی سویٹ رشیا سے دفاحی معاہدہ
کیا تھا۔ سویٹ یونین نے بھارت کی اپنی ایٹمی گن بوٹز بھیج کر پاکستان کی
بندرگائیں کی ناکہ بندی کیے رکھی اور بھارت کو کھلی جارحیت میں اس کا ساتھ
دے کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے۔اس کے ساتھ پاکستان کا دوست نما دشمن
امریکا نے بھی پاکستان توڑنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔ اس کا ثبوت امریکی
کے اُس وقت کے یہودی وزیر خارجہ ہنسری کیسنگر کی وہ کتاب ہے جس میں وہ ذکر
کرتے ہیں کہ امریکا بھی پاکستا ن کے دو ٹکڑے کرنے میں شریک تھا۔ صرف اور
صرف پاکستان کا اسلامی ہونا ان سب کو پسند نہیں تھا۔ سب کی خواہش تھی اور
اب بھی ہے کہ پاکستان کو اس کی اساس، اسلامی نظریہ سے ہٹا کر سیکولر کے
راستے پر ڈال دیا جائے ۔ کہیں وہ مسلمانوں کے سمندر میں مل کر اور اپنا
حقیقی لیڈر شب کا کرادر اداد کرتے ہوئے ان کے لیے مصیبت نہ بن جائے۔ یہ وہ
ہی بات تھی جسے بھارت کے باپوموہن داس کر م چند گاندھی نے تحریک پاکستان کے
ایک موقعہ پر کہا تھا’’ کہ مجھے پاکستان بننے پر کوئی فکر نہیں ہے مجھے فکر
اس بات کی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد افغانستان سے ملک مسلمانوں کے سمندر
شامل ہو جائے گا تو ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے‘‘ اب جب افغان طالبان
نے امریکا اور اس اڑتالیس نیٹو اتحادیوں کو اپنے فاقہ کش ہونے کے باوجود
صرف اور صرف اپنے بل پوتے، جہاد فی سبیل اﷲ کے سہارے، پاکسانی فوج کی مدد
اور اﷲ کی مدد سے تاریخی شکست دے کر افغانستان میں ایک بار امارت اسلامیہ
افغانستان کی بنیاد رکھ دی ہے تو وہی امکان پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں جو
ہمارے دشمنوں کے دلوں میں شروع سے جنم لے رہے تھے۔ہم بار بار عمران خان
حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ روس، امریکا اور چین کے ٹریپ میں نہ آئیں۔
ان سب کے ایک جیسے مفادات ہیں۔اﷲ کے بروصے پر افغان طالبان کی امارت
اسلامیہ کو فوراً تسلیم کریں اور اپنا تاریخی کردار ادا کر کے تاریخ اسلام
میں اپنا مقام پیدا کریں۔
ہم بات کر رہے تھے کہ پاکستانی فوج کا افغانستان کے جہاد میں کیا کردار ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جب سویٹ یونین نے اپنے پٹھو ببرک کارمل
کو ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو افغان مجائدین نے
پاکستان سے مدد کی اپیل کی تھی۔ بھٹو نے انہیں درے سے اسلحہ خرید کر دیا
تھا۔ افغان مجاہدین ڈھائی سال تک سویت یونین سے اسی اسلحہ کے ساتھ تک لڑتے
رہے۔ ظاہر ہے بھٹو پاکستان فوج کی اجازت سے ہی افغان مجاہدین کا اسلحہ
فراہم کیا تھا۔ بعد میں امریکی بھی مالی اور اسلحہ کی مدد سے افغان جنگ میں
شریک ہواتھا تھا۔ امریکا کی اشیر آباد پر روس مخالف دنیا نے بھی افغانوں کی
مدد کی تھی۔افغان جنگ میں پاکستانی فوج کے مایا ناز جنرل ضیاء الحق، جنرل
گل حمید خان، جنرل عبدلرحمان اور دیگر جنرلوں نے کردار ادا کیا تھا۔پاک فوج
نے افغان مجاہدین کو جنگ کی ٹرینیگ دی۔ اسی بنا پر امریکا نے اپنے پاکستانی
سفیر کی قربانی دی۔ سفیر ٹینکوں کی کارکردگی دیکھنے جنرل ضیا ا لحق اور د
دیگر جنرلوں کے ساتھ پاکستان کے شہر بہاول پورگیا۔ واپسی پر تمام حضرات کو
فضاء میں ہی طیارہ کے حادثہ میں تباہ کر دیا گیا۔
سویت یونین نے بھارت سے مل کر پاکستان توڑا تھا۔ ایک اور بات کہ پاکستان نے
دوست نما دشمن امریکا کے کہنے پر اس کے جاسوس جہاز یو ٹو کو پشاور کے قریب
بڈھ بیر کے ہوئی اڈے سے اڑنے کی اجازت دی تھی۔ اس جاسوس طیارے کو روس نے
مار گرایا تھا ۔ اور بڈھ بیر کے ہوئی اڈے پرسرخ نشان لگایا تھا کہ اسے کسی
وقت تباہ کر دے گا۔ پاکستان نے امریکا کی دوستی پر روس سے سے دشمنی مول لی
تھی۔ مگر مشہور ہے کہ امریکا کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی۔ پاک فوج نے
سویٹ یونین کا بھارت سے مل کر پاکستان توڑنے کا بدلہ بھی افغانستان میں ے
لیا۔ افغانستان کے مجاہدین کی عملی مدد کی۔ اسی وجہ سے سویت یونین ٹکڑوں
میں بٹ گیا۔ وسط ایشیا کی چھ اسلامی ریاستیں جو اس نے ترکی سے چھنی تھی
آزادہوئیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جو ترک مسلمانوں سے چھینے گئے تھے چھ اسلامی
ریاستوں قازقستان،کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان ، اور
تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں ۔ ادھا مشرقی یورپ آزاد ہوا۔ دیوار برلن
ٹوٹی،مشرقی مغربی جرمنی پھر سے متحد ہوگئے۔ دیوار برلن کا ایک ٹکڑا جرمنی
نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل گل حمید خان کو تحفہ کے طور پر پیش کیا جو
اب بھی اس کے بیٹے کے پاس محفوظ ہے۔ اسی طرح آئی ایس آئی نے امریکا سے بھی
پاکستان توڑنے کا بدلہ لیا۔ وہ اس طرح کے اندر اندر ہی پاک فوج نے افغان
طالبان کی مدد کی۔ امریکا نے جنرل پرویز مشرف پر الزام لگایا تھا کہ وہ
دوغلی پالیسی پر عمل کرتا تھا۔ اور بعد میں بھی پاکستان پر الزام لگایا کہ
وہ طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ
بھارت اور روس نے قوم پرست افغانستان کے حکمرانوں کو ہمیشہ پاکستان کے خلاف
استعمال کیا۔کبھی پشتونستان کا مسئلہ اور کبھی طے شدہ ڈیورنڈ لائین
کامسئلہ۔ افغان طالبا ن کی چھ سالہ واحد وقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان
کی حکومتوں میں دوستی تھی۔ اس طرح پاکستان کی مغربی سرحد پہلی دفعہ محفوظ
ہوئی تھی ۔ امریکا نے پاکستان سے دشمنی میں پھر حامد کرزئی اور اشرف غنی کی
قوم پرست حکومتوں کو پھر پاکستان کا مخالف کر دیا۔ بلکہ بھارت نے تو
پاکستان دشمنی میں سارے بدلے اُتارے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ بھارت نے پاکستان
کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں درجوں قونصل خانے کھول کر پاکستان کے
صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کرائی۔ مودی دیدہ دلیری کرتے ہوئے اپنے یوم
جمہوریہ کے دن لال قلعے کی دیوار پر کھڑا ہو کر یہاں تک پاکستان کو دھمکی
دی تھی کہ مجھے گلگت بلتستان اور بلوچستان سے مدد کے لیے ٹیلیفون کالز آرہی
ہیں۔ گو کہ اب بھارت نے بھی اپنی منہ کی کھائی اورمکھن سے بال کی طرح
افغانستان میں کردار سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ بھارت میں افغانستان کے
حوالے ایک کانفرنس بلائی۔ جس میں پاکستان اور چین نے شرکت سے صاف انکار کر
دیا اور یہ کانفرنس فیل ہو گئی۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر کیا پاکستانی فوج
کو اپناملک بچانا ہے یا افغانستان میں امریکا کا دم چھلا بننا تھا۔ پاکستان
نے امریکا کے دشمن سویٹ یونین کو ٹکڑے کر کے امریکا بہادر کو نیوورلڈ آڈر
پر فائز ہونے پر مدد کی۔اور اب پاکستان بچانے کے لیے امریکا کو شکست دلانے
میں بھی افغانستان میں اپنا کردار ادا کیا۔اس طرح امریکا کو نیوورلڈ کے
منصب سے گرانے پر بھی اپنا کردادر ادا کیا۔پاکستانی قوم کو اپنی مایا ناز
فوج پرفخر کرنا چاہیے۔ آج کچھ نادان سیاست دانوں نے اپنے اقتدار کی لالچ
میں پوری سیاسی پارٹیوں کو پاکستانی فوج کے خلاف کھڑا کر کے تاریخی سازش کی
ہے۔ جو اسلامی تاریخ کا مورخ اس غلطی کوکبھی بھی معاف نہیں کرے گا۔ تاریخ
مرتب کرتے ان سیاستدانوں کو بلیک لسٹ میں شامل کرے گا۔
|