جہاں ایک درجن زبانیں بولی جاتی ہیں
شمالی علاقوں میں واقع ایک حسین وادی ، اشکومن ہےجسے ماضی میں اشقمان بھی
کہا جاتا تھاجو بروشسکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سرسبز کھیت اور ہرے بھرے
میدانوں کے ہیں۔ موجودہ دورمیںیہ لفظ بگڑکراشکومن بن گیاہے۔ جس کا انگریزی
تلفظ ISHKOMAN ہے۔ اس کا دوسرا نام وادی قرمبر بھی ہے۔۔ قرمبر بھی بروشسکی
زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ’’کنجوس نالہ‘‘ کے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس وادی
کے اصل علاقے میں ایک چھوٹاساگاؤں تھاجہاں آٹھ سے سولہ گھرانے چلاس،
داریل، چترال اور واخان وغیرہ سے ہجرت کرکےیہاں آباد ہو گئے تھے ۔ اس کے
صدر مقا م چٹورکھنڈ اور دائین میں بھی اتنے ہی گھرانے آباد تھے۔ کہا جاتا
ہےکہ بیسویں صدی کی پہلی دہائی کے نصف عشرے میںاس کا شمار گلگت کی وسیع و
عریض چراگاہ میں ہوتا تھا، جوجنگلات، گھاس پھوس اور سبزے کی فراوانی کی وجہ
سے گلہ بانی کیلئے بہت مشہور تھی لیکن 1905 میں قُرمبرنالے میں آنے والے
سیلاب کی وجہ سے اس وادی کی جغرافیائی ہئیت میںبڑے پیمانے پر تبدیلی رونما
ہوئی ۔ علاقے کے قدیم لوگوں کا کہنا ہے کہ اشکومن کھوار زبان کا لفظ ’’عیش
کو من ‘‘سےبرآمدہوا ہے‘ جس کےلفظی معنی چین و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے
کے ہیں جب کہ اس وادی پر ایک مؤرخ نے اپنی تصنیف میںتاریخی حوالوں سے اس
کا ترجمہ عیش کرنا، کیا ہے۔ بعض لوگ اسے ’’عشق من‘‘ یعنی ایسی سرزمین جس سے
خود بہ خود دلی محبت و انسیت پیدا ہوتی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق افغانستان
کی سرحدی پٹی واخان سے چھنتر نالہ کے راستے سے کچھ لوگ مذکورہ وادی میں
داخل ہوئے۔ انہوں نے یہاں ہر جانب قدرتی رعنایاں دیکھیں، نالوں اور پہاڑی
چٹانیں معدنی دولت سے بھری ہوئی پائیں اور اسے ہر طرح سے ایک خو شحال علاقہ
پایا، وہ یہیں آباد ہوگئے۔ اس کے سحر انگیز حسن کی وجہ سے انہوں نے اس کا
نام ’’عشق من‘‘ رکھا جس کے لغوی معنی ’’من یعنی دل کو چھونے والی جگہ‘‘کے
ہیں۔
یہ علاقہ کوہ قراقرم سے ہمالیہ پہاڑ تک 129کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے،
شمال مغرب میں 65کلومیٹر کے فاصلے پرگاہکوچ سے گلگت جب کہ افغانستان کا
واخان بارڈر پچاس کلو میٹر کی دوری پرسطح سمندر سے 7000فٹ کی بلندی پرواقع
ہے جب کہ بعض مقامات پر 12000فٹ تک بلند ہے۔ یہ وادی اسمبر، نلتر، درکوٹ
ارز چپرسن کے مقامات پرضلع غذر سے ملی ہوئی ہےجس میں بیس قصبات شامل ہیں
اور اس کی آبادی 30ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں واخی، شائنا اور کھوار
زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا۔
گندھارا تہذیب کے زمانے میں چینی بدھسٹ اسے بہ طور گزرگاہ استعمال کرتے تھے
اور یہاں سے اس وادی سے واخان، پامیر اور یاسین سے ہوتے ہوئے گلگت جایا
کرتے تھے۔ لبکن وہ اس کی حسن و خوب صورتی کو دور سے دیکھتے ہوگئے گزر جاتے
تھے ۔وہ ان ہی دیہاتوں کے سر سبز مناظر کو کو فطرت کا حسن سمجھتےتھے جو ان
کے راستے میں پڑتے تھے۔ وادی اشکومن گلگت بلتستان کے صوبےکی ایک تحصیل
ہےجواس کے صدر مقام سے تقریباً 110کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ یہاں ٹریکنگ،
ماہی گیری، اور سیر و تفریح کے وسیع مواقع میسر ہیں۔ ملکی اور غیرملکی
سیاح، شاہ راہ ریشم پر بل کھاتے راستوں پر سفر کرتے ہوئے راولپنڈی سے گلگت
پہنچتے ہیں۔جہاں ایک رات قیام کے بعد علی الصباح بذریعہ جیپ اور دیگر پبلک
ٹرانسپورٹ سے اشکومن کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں۔ راستے میں دل فریب مناظر،
دریا، سڑک کے ساتھ بہتے ہوئے پہاڑی نالوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ ایمت کی
وادی میں پہنچتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد وہ خود کو ایک نئی دنیا میں پاتے
ہیں جہاں پہاڑی جھرنے، آب شار،گلیشئیر اور برف پوش پہاڑوں سے نکلنے والے
درجنوں نالےہیں، جن کے اندر بھی ایک دنیا آباد ہے۔
اس علاقے کی ایک قدیم تاریخ ہے۔وادی ایمت اشکومن ،چترال اور والیان یاسین
کی زیر نگر انی ایک سیٹلمنٹ تھی۔1889ء میں گلگت ایجنسی بننے کے بعد اشکومن
کو ایک الگ سیٹلمنٹ بنادیا گیااور میر علی مردان کو یہاں کا گورنر مقرر کیا
گیا۔ وادی اشکومن کےالگ اسٹیٹ بننے کے بعد چترال، یاسین، گوپس، واخان،
پونیال‘ گلگت ‘ دیامر،کاشغر‘ پامیر اور دوسرے علاقوں سے لوگ وارد ہوئے اور
چٹورکھنڈ سے سو خترآباد تک آباد ہوگئے۔ پاکستان سے جب ریاستی نظام کا
خاتمہ ہوا تو اس کی بھی ریاست حیثیت ختم ہوگئی اور اسے گلگت بلتستان کے ضلع
غذر میں شامل کرکے ایک تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔تاریخی حوالوں سے معلوم
ہوتا ہے کہ مل دوپاشل موجودہ فیض آباد اشکومن میں قدیم زمانے میں بُروشل
قبائل آباد تھے اور ان میں سے سب سے بڑے قبیلے کا نام بیگل تھا۔اس قبیلے
کے یہاں شادی کا ایک بڑا اجتماع منعقد کیا گیا جس میں ایک ساتھ سات بیٹوں
کی شادی کا انتظام کیا گیاتھا۔ شادی کی تقریب میں وہاں قبائلی عمائدین کی
بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ اس تقریب میں ڈھول تاشے اور شام کوثقافتی ڈانس
اور تماشے کا اہتمام کیا گیاجس میں تمام لوگوں نے گرمجوشی سے حصہ لیا۔شادی
کے ہنگامے کے دوران مذکورہ گاؤں کے قریب میں واقع پہاڑی سے ایک چٹان ٹوٹ
گئی اوربقول لوگوں کے، اس سے قبل چٹان کی طرف سے آ واز آئی ’’ بُن دِیا
بُن دِیا‘‘ یعنی پتھر آیا پتھر آ یا، لیکن سوائے ایک خاتون کے کسی کو یہ
آواز سنائی نہیں دی۔ وہ خاتون چو نکہ بُرو شسکی زبان جانتی تھی اس لئے اس
نے ان الفاظ کا مفہوم سمجھ لیا اورتقریب میں موجود لوگوں کووہاں سے جلد سے
جلد ہٹنے کی تلقین کی لیکن سب نے اس کی بات کو مذاق میں ٹال دیا۔ جس کے بعد
صرف وہی خاتون وہاں سےبچ نکلنےمیں کامیاب ہو گئی باقی تمام لوگ چٹان گرنے
سے اس کے نیچے دب کر مر گئے۔زندہ بچنے والی خاتون وہاں سےوادی یاسین کی طرف
چلی گئی اورسندی یا تھوئی پہنچ گئی۔اس وقت وہ اُمیدسے تھی اور وہاں پہنچ کر
اس کے یہاںبیٹا پیدا ہواجس کا نام اس نے اپنے پُرانے قبیلے (دادا) کے نام
پر’ بیگل‘ رکھا۔ اب وہاں اس کی نسل سے کم وبیش سات یا آٹھ قومیتں آباد
ہیں۔ جن میں نوچے، نونے، شکر بیکے، مرکلی کوژ، صوبہ کوژ، چونے اور آتمیں
شامل ہے۔
ڈوک کے قصبے کے شمال مغربی جانب اشکومن کی دل فریب وادیاں اور کوہ ہندوکش
کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ ان وادیوں میں چھنتر، متھنتر، بڑوگہ، فاتودلتی اور نالہ
اسمبر قابل ذکر ہیں۔اس وادی کے مذکورہ علاقے صدیوں تک مقامی راجائوں اور
بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہے۔ 1896ء میں اس پر انگریزوں نے قبضہ کر
لیا اور گلگت ایجنسی کی طرف سے یہاں گورنر مقرر کئے جاتے رہے۔ وادیٔ اشکومن
میں درجۂ حرارت سردیوں کے موسم میں صفر سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ موسم سرما
میں نومبر سے فروری تک بے پناہ سردی پڑتی ہے اور ان دنوں کئی فٹ تک برف
پڑتی ہے۔ مارچ سے مئی تک بہار کا موسم ہوتا ہے جس میں بے پناہ بارش ہوتی
ہے۔ لوگ اس موسم میں اپنی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ جون سے اگست تک موسم خاصا
گرم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے گلیشئر پگھلنا شروع ہوتے ہیں۔ دریا چڑھنے لگتے
ہیں۔ بعض اوقات ان میں سیلابی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اشکومن کی وادی
کو قدرت نے سرسبز قدرتی مناظر، فطری حسن، جنگلات، ہرے بھرے میدانوں اور
جھیلوں سے نوازا ہے۔ برگل کی وادی سے آگے چٹورکھنڈنالہ اپنی وسعت اور
شادابی کی وجہ سے مشہور ہے۔ حایول کا قصبہ قدرت کی رعنائیوں اور دلفریب حسن
کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ دائین میں ترنگول کے مقام پر غوچھار آبشار
واقع ہے۔
وادیٔ اشکومن میں تقریباً دو درجن کے قریب چھوٹے بڑے نالے گزرتے ہیں جن میں
سے نالہ پکورہ کافی مشہور ہے۔ نالہ اسمبر اشکومن سے یاسین تک پھیلا ہوا ہے۔
نالہ تھپشکین اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں معدنی پتھروں کی
بہتات ہے۔ نالہ اشقمتر کا شمار وادیٔ اشکومن کے مشہور نالوں میں ہوتا ہے۔
ماضی میں لوگ یہاں ’’شیسو گھوٹ‘‘ کا تہوار منانے کیلئے آتے تھے۔ یہ رسم
جولائی کے تین دن منائی جاتی ہے۔ اس کے لئے یہاں ایک بڑا پولوگرائونڈ بھی
تھا۔ اب یہ پولو گرائونڈ خستہ حالت میں ہے۔ نالہ متھنتر، گلوگہہ، شمس آباد
کا شمار بھی وسیع و عریض نالوں میں ہوتا ہے۔ ان تمام نالوں میں جنگلی حیات
جن میں مارخور، کیل، چیتا، بھیڑیا، مرغابی، رام چکور، لومڑیاں اور پرندوں
میں کوئل، کبوتر، چیل اور دیگر پرندے مختلف موسموں میں یہاں اپنا مسکن
بناتے ہیں۔ وادیٔ اشکومن سے 18؍کلومیٹر کے فاصلے پر آٹر جھیل واقع ہے جو
سطح سمندر سے 12,600فٹ بلندی پر دو کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ جھیل
کے دونوں اطراف سرسبز پہاڑ ہیں جن کا عکس جھیل کے پانی میں پڑتا ہے جو اس
کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔وادیٔ اشکومن سے دوسرے علاقوں میں جانے
کیلئے بے شمار درّے ہیں جن میں سے درّہ اسمبر، ہلوجہ، آٹرپاس، درّہ چھنتر،
درّہ قرمبر قابل ذکر ہیں۔
گلگت کایہ علاقہ ہے اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہاں ایک درجن کے قریب
زبانیں رائج ہیں جن میں وخی، کھوار، شینا، پشتو، فارسی، کجری، کرغیزی،
بروشسکی، کیلی، اردود، انگریزی اور عربی قابل ذکر ہیں۔ یہاں مختلف ادوار
میں مختلف نسل اور علاقے کے لوگ آباد ہوتے رہے، جنہوں نے یہاں اپنی زبانوں
کو رائج کیا۔ اس وادی میں یارجنگل سے یورتھ تک وخی زبان بولی جاتی ہے۔
اشکومن کے خاص علاقے میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔ پکورہ، چٹورکھنڈ، دائین
میں کھوار زبان بولی جاتی ہے جبکہ گجراتی، پروشسکی زبان عام ہے۔ اردو مادری
زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن
مقامی افراد اپنے قدیم تہوار اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں۔ان میں شیسو گھوٹ کا
تہوار جو جولائی میں منایا جاتا ہےاس ماہ تین روز تک رقص، تماشہ، اور دوسرے
مزاحیہ پروگرام ہوتے ہیں۔ لوگ دور دورسے وہاں آتے ہیںاور اس کی تقریبات سے
محظوظ ہوتے ہیں۔
نوس یا نسالو کاتہوار بھی وادی اشکومن میں صدیوں سے منایا جاتا ہے ۔لوگ اس
دن کو اپنی بساط کے مطا بق صحت مند اور موٹے جانوروں جن میں گائے، بیل،
بکری، بکرے شامل ہیں ذبح کرتے ہیں ان کے گوشت کے مخصوص حصے ان دنوں میں ہی
کھاتے اور باقی سردیوں کیلئے محفوظ کرتے۔ اس رسم میںآس پڑوس کے تمام لوگ
ایک جگہ جمع ہو کر جشن مناتے ہیں اورگوشت کے مختلف پکوان بناکر کھاتے
ہیں۔دوسرے روز صبح سویرےمقامی طریقے سے تیار کیا ہوا مخصوص کھانا ’’ڈوڈو‘‘
بناکر کھاتے ہیںیہ تہوار نومبر کے آخری دنوں میں منایا جاتا ہے۔
تخم ریزی یا یا بھی گانک کا تہوار،مارچ کے پہلے عشرے میں منایا جاتا ہے۔
پہلے دن لوگ اپنے گھروں کو خوب سجاتے ہیں۔اس دن ایک مخصوص خوراک دیرم پکائی
جاتی ہے یا کھوار میں شوش بناتے ہیں۔ دوسرے دن گھرکومزیدسجایاجاتااورسیلنگ
اور دیواروں پر مختلف پھول اور فن خطاطی کے نمونے بنائے جاتے ہیں۔ یہ
تہوارموسم بہار کی آمد کے موقع پر جشن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔
|