یمن میں شدید غذائی قلت ۰۰۰حوثی بغاوت اور سعودی اتحاد کا نتیجہ؟

 حوثیوں کی بغاوت اور سعودی اتحاد کی کارروائیوں نے معصوم بے قصور یمنی شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ یمن کے حالات اتنے بدتر ہوگئے ہیں کہ عوام بھوک و پیاس کی وجہ سے مرتے جارہے ہیں اس کے باوجود سعودی اتحاد اور حوثی باغی ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے یمن کے عوام کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ 75 فیصد یمنی بچے شدید غذائی قلت کا شکارہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 1 کروڑ 62 لاکھ لوگ جوکہ ملک کی 3 کروڑ آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے اسوقت شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سنگین انسانی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا، جس میں طویل فاقہ کشی اور بڑے پیمانے پر قحط کا بڑھتا ہواخطرہ بھی شامل ہے۔واضح رہیکہ یمن میں 2014سے صدر یمن عبدربہ منصور ہادی کی حکومت کے خلاف حوثیوں نے بغاوت کا اعلان کیا اور صدر کو یمن چھوڑ کر سعودی عرب کی شاہی حکومت میں پناہ حاصل کرنی پڑی اور صدر کی درخواست پر سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک نے حوثیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے بڑے پیمانے پر فضائی کارروائی انجام دی ۔ حوثیو ں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لئے ایسے ایسے حملے بھی کئے گئے جن میں شادی بیاہ کی تقریب، تجہیز و تکفین وغیرہ کے مواقع تھے ان پر حملے کئے گئے جہاں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ عالمی سطح پر سعودی اتحاد کے ان حملوں کی مذمت کی گئی تو دوسری جانب حوثی باغیوں نے ملک میں معصوم اور بے قصور عوام کونشانہ بنایا اور یہ سلسلہ ہر دو کی جانب سے جاری ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی کے شہروں پر کئی مرتبہ ڈرون حملے اور میزائل داغے گئے جنہیں سعودی عرب ناکام بناتا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہیکہ یمنی حکومت کو بحال کرنے کے مقصد سے سعودی قیادت میں اتحاد نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے ،جسکی وجہ سے دنیا کا بد ترین انسانی بحران پیدا ہو ا جس میں 2لاکھ 33 ہزار لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، تقریباً80 فیصد لوگوں کو امداد ا کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یمنی ہاسپتل میں ایسے کئی مفلوج اور شدید غذائی قلت کے شکار بچے ہیں جن کی تصاویر دیکھ کر انسانیت شرمسار ہوجائے۔ ایک سات سالہ لڑکا فائد صمیم یمن کے دارالحکومت صنعا کے ایک ہاسپتل میں زیر علاج ہے ،ہاسپتل کے نگران ڈاکٹر راضی محمد کا کہنا ہے کہ’ وہ ہاسپتل کے ایک بستر پر لیٹ گیا ، سفر کے دوران بمشکل بچ پایا، جب اسے صنعا کے الصبین ہاسپتل پہنچایا گیا تو وہ تقریباً موت کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن اﷲ کا شکر ہیکہ وہ زندہ ہے اور ہم اسکی بہتر صحت کے لئے کوشش کررہے ہیں‘، اس لڑکے کے تعلق سے بتایا جارہا ہے کہ وہ دماغی فالج اور شدید غذائی قلت میں مبتلا ہے۔ایسے ہی کئی معصوم اور ننھے منے بچے ہیں جنہیں شدید غذائی قلت اور ادویات کی کمی نے موت کے قریب کردیا ہے۔دل دہلادینے والے ایسے کئی تصاویر ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ یمن کے حالات کتنے خراب ہیں اور یمنی شہری بشمول معصوم بچے کس اذیت ناک دور سے گزررہے ہیں۔ واضح رہیکہ حالیہ مہینوں میں یمن کے مختلف حصوں میں تنازعات میں اضافہ ہوا ہے، بشمول وسطی شہر ماریب جہاں حوثی باغیوں نے تیل کی دولت سے مالا مال صوبے پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے حملے تیز کر دیے ہیں، جو کہ حکومت کے اہم ترین گڑھوں میں سے ایک ہے اور یمن کی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر کا گھر ہے۔

سعودی عرب میں غربت اور فاقے کی شرح صفر ؟
ایک طرف یمن کے حالات انتہائی خراب ہیں تو دوسری جانب پڑوسی ملک سعودی عرب جو عالمِ اسلام کامرکز ہے ، یہاں کے شہری خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں ۔ سعودی عرب میں شاہی حکومت ہر ممکنہ کوشش کررہی ہے کہ انکے شہری غربت اور فاقے کشی کا شکار نہ ہوں ۔ ویژن 2030کے تحت روزگار کے اتنے وسیع تر مواقع فراہم کئے جارہے ہیں کہ ملک کا ہر شہری خوشحال زندگی گزار سکے۔ لیکن اسکا پڑوسی ملک جہاں اسی ملک سعودی عرب کے اتحاد نے وہاں کے شہریوں لاکھوں شہریوں کوفاقہ کشی اورغربت کا شکار بنادیا ہے۔ اگر سعودی اتحاد حوثی بغاوت کو کچلنے کے نام پر فضائی کارروائیاں اتنی شدت سے انجام نہ دیتے تو آج یمن کے حالات کچھ اور ہوتے۔ اس میں شک نہیں کہ حوثی باغی اصل میں اس کے ذمہ دار ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں غربت اور فاقے کی شرح صفر ہوگئی ہے اس میں کتنی صداقت یا حقیت ہے یہ تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے ، لیکن جدہ میں اسلامی مالیاتی خدمات کونسل نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب میں غربت اور فاقے کی شرح صفر فیصد تک آ گئی ہے جو کہ سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔‘ الاخباریہ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسلامی مالیاتی کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت نے تعلیم کے شعبے پر توجہ دی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان مساوات کا اصول اپنایا گیا۔اسلامی مالیاتی کونسل کا پندرہویں سیشن کا سہ روزہ اجلاس منگل 9؍ نومبرکو شروع ہوا، اس کاعنوان’اسلامی فنڈنگ، ڈیجیٹل تبدیلی، جدت طرازی اور لچک کے درمیان توازن‘ ہے۔اس اجلاس کی میزبانی سعودی سینٹرل بینک (ساما) کررہا ہے۔ اجلاس میں 18 سے زائد ممالک کے سینٹرل بینکوں، مالیاتی اداروں اور نگراں اداروں کے نمائندے شریک بتائے جاتے ہیں۔اسلامی مالیاتی خدمات کونسل کے ایک اجلاس کا عنوان ’اسلامی مالیاتی سیکٹر کا ادارہ جاتی بنیادی ڈھانچہ‘ رہا- کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر بیلو لاوال دانباتا، معاون سیکریٹری جنرل ڈاکٹرفقی اسماعیل اور معاون سیکریٹری جنرل سہیل الزدجالی نے ہیں جنہوں نے اس اجلاس سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر بیلو نے اجلاس کے آغاز میں گذشتہ برسوں کے دوران اسلامی مالیاتی کونسل کی کارکردگی کا تعارف کرایا۔انہوں نے کہاکہ ’اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران رکن ملکوں کے ہاں اسلامی مالیاتی خدمات کا شعبہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ رکن ملکوں نے 2018 کے دوران 2.19 ٹریلین ڈالر کمائے- 2019 میں 2.44 ٹریلین ڈالر کمائے جبکہ 2020 کے دوران شرح نمو 2.70 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔‘انہوں نے کہا کہ اسلامی مالیاتی خدمات کونسل دنیا کے 80 سے زائد بازاروں اور مارکیٹ کے 98 موثر فریقوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کئی بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہیکہ سعودی عرب میں سعودی ائزیشن کے نام پر لاکھوں تارکین وطنوں کو روزگار سے محروم کردیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن خالی ہاتھ اپنے اپنے ملکوں کو پہنچے۔ آزاد ویزے کے نام پر سعودی کفیل ان افراد سے کثیر ریال اینٹھتے رہے۔ آزاد ویزا کی کوئی حقیقت نہیں لیکن ہندو پاک اور دیگر ممالک کے لوگ سعودی عرب پہنچ کر اچھی نوکری کی تلاش میں کسی سعودی کی کفالت میں لاکھوں روپیے خرچ کرکے سعودی عرب پہنچتے ہیں اور وہاں جانے کے بعد انہیں پتہ چلاتا ہیکہ آزاد ویزے کی کیا حیثیت ہے اور حکومت ان افراد کے خلاف غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کا لیبل لگاکر جیلوں میں ڈال دیتی ہے اور وہاں سے ملک واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ان میں بعض لوگ اچھی نوکری بھی پالیتے ہیں اور اس کفیل سے ٹرانسفر لے کر نئی کمپنی جوائن کرلیتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم رہنے والے کئی افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو کھانے پینے کے محتاج رہتے ہیں بعض تو کچرے دان کے ڈبوں کے پاس لگائی جانے والی پاکٹوں سے غذا حاصل کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں ۔ شاید اس کا علم شاہی حکومت اور افسرانِ شاہی کو نہیں ۰۰۰ کاش ایسے افراد کے تعلق سے حکومت آگاہی حاصل کرتی اور انہیں روزگار فراہم کرنے کے انتظامات کرتی ۰۰۰ اب اس میں کتنی حقیقت یا صداقت ہے کہ سعودی عرب میں فاقہ یا غربت کی شرح صفر ہے۔

نوجوان کووفاداری ثابت کرنیکی کوشش میں۰۰۰
وفاداری ثابت کرنے کیلئے اتنی بھی کوشش نہ کریں کہ حاصل کچھ نہ ہو۔ گذشتہ دنوں مصر ،قاہرہ میں پیش آئے اس واقعہ کے بعد عشق و محبت میں گرفتار نوجوانوں کیلئے ایک سبق آموز نصیحت ملتی ہے۔بتایا جاتا ہیکہ مصر میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جہاں ایک مصری نوجوان لڑکے کیک نے اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے محبوبہ کو اپنے تمام دانوں کا ہار بناکر پیش کردیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مصری نوجوان کو اپنے دانت نکلوانے کی نوبت اس لئے پیش آئی کیونکہ اس کی محبوبہ نے اس کو دھوکہ دہی کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا اور اس سے بات چیت بند کردی تھی یہاں تک کہ کال ریسیو کرنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔ آخر کار نوجوان اپنی محبوبہ لیزا کو پانے کیلئے اور اسے اپنی محبت کا یقین دلانے کیلئے ایک ایسی حرکت کربیٹھا جس کا خمیازہ اسے عمر بھر بھگتنا پڑے گا۔نوجوان کیک نے اپنے تمام دانتوں کو نکلوایا اور اس کا ہار بناکراسکی محبوبہ لیزا کو تحفہ کے طور پر پیش کردیا۔شاید قارئین یہ سمجھ رہے ہونگے کہ اپنے محبوب کی اس حرکت سے اسکی محبوبہ ترس کھاگئی ہونگی ایسا نہیں ہوابلکہ کافی کوششوں کے بعد لیزا کیک سے ملنے کے ایک ریسٹورنٹ پہنچی جہاں پر نوجوان نے کوئی بات کئے بغیر ہی اپنے دانتوں کا ہار اپنی محبوبہ کو پیش کردیا جس پر اس کی محبوبہ سکتہ میں آگئی اور پوچھا کہ یہ کیاہے تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اپنے دانتوں کو نکلواکر ہار بنوادیا تاکہ تمہیں میری محبت کا یقین آسکے۔ کیک کی اس حرکت نے لیزا کو شدید غصہ دلایا اور وہ نوجوان کو یہ کہہ کر ریسٹورنٹ سے چلتی بنی کہ آئندہ وہ اس سے بات کرنے کی بھی کوشش نہ کرے۔
****

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.