وزیر اعظم نریندر مودی نے کسانوں سے متعلق قوم سے خطاب
میں اپنی دبنگ شبیہ کو خاک میں ملا دیا ۔ انہوں نے تینوں متنازع زرعی
قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر کے ان لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا
جو کہا کرتے تھے گھڑی کے کانٹاالٹا نہیں گھوم سکتا ۔ قانون بن گیا ہے تو وہ
واپس نہیں ہوسکتا، زیادہ سے زیادی اس میں ترمیم ہوسکتی ہے ۔ اس لیے کسان
رہنما ترامیم پیش کریں ۔حکومت اس پر غور کرے گی اور جن کو مناسب سمجھے گی
تسلیم کرکے بقیہ کو مسترد کردے گی ۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جمہوریت میں
ایوان پارلیمان کو قانون بنانے کا حق حاصل ہے۔ ایوان کے بنائے ہوئے قانون
کی مخالفت کرنا دستور کی خلاف ورزی ہے اور ملک سے غداری ہے ۔ ان زرعی
قوانین کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے مودی کے مزاج سے واقف نہیں ہیں ۔ وہ
جو سوچ لیتے ہیں تو وہ کرکے دکھاتے ہیں۔ ان کو کسی کی مطلق پروا نہیں ہوتی۔
وہ اپنے من کی کہتے اور کرتے ہیں کیونکہ مودی ہے توکچھ بھی ممکن ہے ۔ یہ
باتیں کشمیر کی دفع 370 کی منسوخی کے بارے میں کہی گئیں۔ سی اے اے کے بارے
میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا اور زرعی قوانین سے متعلق بھی یہ دلیل پیش کی
گئی لیکن کسانوں نے بالآخر ایک انا پرست سرکار کوگھٹنے پر مجبور کردیا اور
اس موقع پر افتخار عارف کا یہ شعر بے ساختہ یاد آتا کہ؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہاکہ زراعت کو بہتر بنانے کے لیے تین قانون
لائے گئے تاکہ چھوٹے کسانوں کو زیادہ طاقت ملے۔ وزیر اعظم کے اس دعویٰ کی
پول کسانوں نے کھول دی کہ یہ بڑے سرمایہ داروں کاہاتھ مضبوط کرنے کی ایک
ناپاک سازش تھی۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ برسوں سے یہ مطالبہ ملک کے
کسانوں اور ماہرین معاشیات کی طرف سےی کیا جا رہا تھا لیکن حیرت ہے کہ ملک
کے طول و عرض میں ان کے سوا کسی کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔ وہ بولے ان قوانین
پر ایوان پارلیمان میں بحث ہوئی یہ درست بات ہے لیکن اگر ایوان میں جس کی
لاٹھی اس کی بھینس کا رواج ہو تو وہاں بحث و مباحثے پر کون کان دھرتا ہے ؟
اس ایوان میں خود وزیر اعظم مظاہرین کو ’آندولن جیوی‘ کے مضحکہ خیز لقب سے
نواز کر ان کی توہین کریں وہاں علم و دانش کی کیا وقعت ؟ وزیر اعظم کو اب
بھی یہ خوش فہمی ہے کہ ملک کے کسانوں اور تنظیموں نے اس قانون کا خیر مقدم
کیااور حمایت کی تھی حالانکہ ان کے اپنے پریوار میں شامل آر ایس ایس کی
بھارتیہ کسان سنگھ نےبھی اس کی مخالف تھی ۔
وزیر اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترسیل کے بادشاہ ہیں ۔ اشاروں
کنایوں میں وہ اپنا مدعا بیان کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن یہ تسلیم
کرنا کہ کسانوں کے مفاد میں نیک مقاصداور نیک نیتی کے ساتھ منظور کئے جانے
والےان قوانین کو پوری طرح بیان نہیں کر سکےاور اپنی ریاضت میں کمی کے سبب
کسانوں قوانین کی افادیت سمجھا نہ سکے ا ن کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگاتا
ہے۔ یہ معاملہ اگر کسانوں کی فلاح وبہبود کا تھا اور زیادہ تر کسان اس سے
متفق تھے تو پھر چند لوگوں کی خوشنودی کے لیے اسےواپس لینے کی نوبت کیوں
آئی؟ مودی جی کہتے ہیں ہم نے مذاکرات کی کوشش کی۔یہ درست ہے مگر بے دلی کے
ساتھ کی جانے والی وہ سعی لاحاصل رہی ۔ وزیر اعظم نے کہا وہ صرف ایک فون
کال کے فاصلے پر ہیں مگر وہ دوری کبھی ختم ہی نہیں ہوئی ۔ قانون منسوخی تک
ایک بار بھی وزیر اعظم نے کسانوں کو بات چیت کے لیے نہیں بلایا ۔ سپریم
کورٹ میں بھی سرکار کو خاطر خواہ حمایت نہیں ملی۔ زرعی قوانین کو واپس لینے
کا فیصلہ سنانے کے بعد وزیر اعظم نے کسانوں سے گھروں کو لوٹ کر ایک نئی
شروعات کرنے کی اپیل کی مگر کسان رہنماوں نےاس پر فورا ًعمل درآمدکرنےسے
انکار کردیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے لب و لہجے سے ظاہر ہے کہ ان کا یہ من پریورتن
(تبدیلی) برضا و رغبت نہیں ہوا۔ انہوں نے اترپردیش میں ہار سے بچنے اور
پنجاب کے سکھوں کو قریب کرنے کی خاطر گرو نانک کی برسی کے موقع پر یہ اعلان
کیا ۔ مودی کو ان کی سیاسی مجبوری نے جھکنے پر مجبور کیا۔ متنازعہ زرعی
قوانین کی منسوخی کے بعد ایم ایس پی اور زیرو بجٹ فارمنگ کی سفارش کرنے کے
لیے جو کثیر جہتی کمیٹی کے قیام کا اعلان وزیر اعظم نےاب کیا ہے وہ قانون
بنانے سے قبل کرنا چاہیے تھا مگر ان کی گاڑی آگے اور گھوڑا پیچھے چلتا ہے
اس لیے آئے دن رسوائی ہاتھ آتی ہے۔ ان قوانین کی منسوخی 29؍ نومبر سے
شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں ہوگی۔ کسان مورچہ نے متنازع قوانین کی
واپسی کو سراہا لیکن پارلیمانی کارروائی کی تکمیل تک انتظار کرنے کا عزم
دوہرایا جو وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار ہے اور اس کے لیے وہ خود ذمہ
دار ہیں ۔ کسان مورچہ نے اسے یک سالہ جدوجہد کی عظیم فتح قرار دیا۔ بھارتیہ
کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے اعلان کیاکہ احتجاج فوری طور پر واپس
نہیں لیا جائے گا، وہ پارلیمنٹ میں زرعی قوانین کے منسوخ ہونے اور حکومت کے
ساتھ ایم ایس پی و کسانوں کے دیگر مسائل پر بات کیے بغیر نہیں لوٹیں گے۔
اس خوش کن خبر سے غیر سنگھی سماجی و سیاسی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ تحریک کے
دوران 700 سے زیادہ کسان شہید ہوئے، ان کی شہادت لازوال رہے گی۔ آنے والی
نسلیں یاد رکھیں گی کہ کس طرح اس ملک کے کسانوں نے اپنے جان کی بازی لگاکر
کاشتکاری اور کسانوں کو بچایا تھا۔ اس کے علاوہ کانگریس کے ملکارجن کھڑگے
نے زرعی قوانین کی واپسی کو کسانوں کی جیت بتاتے ہوئےسوال کیا ، 700 سے
زیادہ کسانوں کی موت نے مرکزی حکومت کو احساس جرم کا شکارکیا لیکن اس دوران
دہقانوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی ؟ راہل
گاندھی اپنی پرانی ویڈیو شیئر کی جس میں ان قوانین کی واپسی کا مژدہ سنایا
گیا تھا اور لکھا کہ کسانوں نے ستیہ گرہ سے تکبر کا سر جھکا دیا۔ کسانوں کی
مشکلات جاننے کے لیے وزیر اعظم کو راکیش ٹکیت کا وہ بیان دیکھنا چاہیے جس
میں انہوں نے کہا تھا کسان بارود کے ڈھیرپر بیٹھے ہیں۔ زمین سے دلچسپی ختم
کرنا حکومت کی سازش ہے۔ زمین کم ہو رہی ہے۔ کسان سے زمین کے خرید و فروخت
کا حق بھی یہ لوگ چھین لیں گے۔ اس لیےذات اور مذہب سے پرے ہٹ کر متحدہ
انداز میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر زور دیا۔ وہ بولے تحریک سے ہی زندہ
رہیں گے۔
آخری سوال یہ ہے کہ آخر وزیر اعظم اس سنگین صورتحال کو کیوں سمجھ نہیں
پائے؟ درحقیقت انسان اگر اپنے ماضی کو فراموش کردے تو حال میں ٹھوکر کھاتا
ہے ۔ مودی جی کے ساتھ یہی ہوا۔ 1973 کے اندر احمد آباد کے ایل ڈی کالج میں
کینٹین فیس کے اضافہ سے ایک تحریک اٹھی ۔اس وقت 23سالہ نوجوان مودی اس
احتجاج میں شامل ہوگیا ۔ 1975 میں اس تحریک نے نریندر مودی کو لوک سنگھرش
سمیتی کا جنرل سکریٹری بنادیا اوران کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ اس
نونرمان تحریک نے ریاست گیر ہڑتالوں ، آگ زنی اور لوٹ پاٹ کے ذریعہ صوبائی
سرکارکو گرادیا۔آگے چل کر مودی جی کو جب اقتدار ملا تو امبانی اور اڈانی
کی صحبت میں انہوں نےسوٹ بوٹ پہن کر اپنے ماضی کو بھلا دیا ۔ کسان رہنماوں
کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ’آندولن جیوی‘ کے خطاب سے نوازتے ہوئے بولے یہ
لوگ احتجاج کے بغیر جی نہیں سکتے۔ یہ طفیلی لوگ دوسروں کے سہارے جیتے ہیں
جبکہ ماضی میں خود مودی نے نوجوانوں سے سڑکوں پر نکل کر جمہوریت کو مرنے سے
بچانے کی اپیل کی تھی۔ مودی کو اگر اپنا ماضی یاد ہوتا تو وہ ابتداء میں ہی
اس عظیم تحریک کا احترام کرتے ۔ اس طرح نہ توا نہیں یہ ہزیمت اٹھانی پرتی
اور نہ وہ اس طرح بے نقاب ہوتے۔
مودی نے ایک پمفلٹ میں لکھا تھا’بھارت ماتا کے بچے اس حالت کے بارے میں
سوچیں کہ جس میں آج(اس وقت) ہندوستان جارہا ہے۔ اگر آپ بے عمل ہیں تو
لمحہ بھر ٹھہر کر اس خمیازے کے بارے میں سوچیں جو بھگتنا پڑیں گے۔ موجودہ
مودی یگ میں جو نوجوان ان خطوط پر غوروفکر کرتاہے اسے پابندوسلاسل کردیا
جاتا ہے۔ ماضی کے مودی نے نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا تھا آپ
مستقبل کے رہنما ہو۔اس ملک کو اوپر اٹھانے اور آگے بڑھانے کی ذمہ داری آپ
کی ہے۔ دھوکے بازوں نے ملک کو چپ کرادیا ہے۔جس طرح سے آمریت کی راہ ہموار
کرنے کے لیے ملک میں جمہوریت کو تباہ کیا جارہا ہے ، ایسے میں تم سب بھیڑ
بکریوں کے اس گروہ کی طرح رہوگے جو سر جھکا کرچلیں گے ۔ اس تحریر کا ایک
ایک لفظ وزیر اعظم کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔ مودی نے لکھا تھا اگر نوجوان
آج کی دوسری تحریک میں مکمل قربانی نہیں دیتے تو تاریخ کا سختی سے احتساب
کون کرے گا؟ کن لوگوں کے نام بزدلوں کی فہرست میں دکھائی دیں گے۔ اس ملک کی
تاریخ کو سیاہی ، قلم اور نوجوانوں کے دلوں سے نکلنے والے خون سے لکھا جانا
چاہیے۔ مودی بدل گئے مگر ملک کا نوجوان اور کسان نہیں بدلا۔ کسان تحریک کی
کامیابی کا یہی پیغام ہے کہ نونرمان تحریک سے خوفزدہ ہوکر اندراگاندھی کو
ایمرجنسی لگانی پڑی اور بالآخر اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ مودی نے بھی غیر
اعلانہ ایمرجنسی نافذ کردی ہے مگر انہیں بھی جھولا اٹھا کر جانا پڑے گا۔
وزیر اعظم کے طرز فکر و عمل پر اسی غزل کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ
صادق آتا ہے؎
کھلا فریب سیاست دکھائی دیتا ہے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
|