مفاہمت کڑوا گھونٹ پینے کا نام ہے ۔ اپنی کرسی یا جیل
بچانے کے لئے معروضی حالات پر بڑی گہری ضربیں لگانی پڑتی ہیں۔ برس ہا برس
سے اپوزیشن اور حکومتوں کے مابین غیر منطقی فراست نے معیشت اور سیاست کے
لچکدار زاویوں کو دجھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ تینوں ادوار اور اب موجودہ
حکومت بھی حکومتی کاموں کی انجام دہی اور عوامی حلقوں کی اپنائیت سے کوسوں
دور نظر آتی ہے۔ معائدے کے بھی کچھ اصول ہو تے ہیں کہ آپ فلاں لائن سے آگے
نہیں جائیں گے اور کوئی بھی ایسی پالیسی ترتیب نہیں دی جائے گی جو اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے بنیادی روح کے منافی ہو۔ گزشتہ دنوں شدید ہنگامہ آرائی،
شور شرابے، گالم گلوچ، ہاتھا پائی اور تلخ کلامی کے باوجود سارجنٹ ایٹ آرمز
کے حصار میں حکومت نے اپنی بات منوالی ہے ۔ حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن
یادیو کو اپیل کا حق، الیکٹرانک ووٹنگ مشین ، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا
حق، مسلم فیملی لاء، اینٹی ریپ بل، الکرم انٹرنیشنل انسٹیوٹ بل 2021 سمیت
33 بل منظور کیے ہیں۔ بظاہر انٹی ریپ بل اور کلبھوشن یادیو بلوں کی منظوری
میں جماعت اسلامی کے علاوہ پوری اپوزیشن کا ساتھ شامل تھا۔
اپوزیشن کی کلی مخالفت دوبلوں ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور
اوورسیز پاکستانیوں کو حق رائے دہی استعمال کی اجازت دینے کے حوالے سے تھی۔
مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور مولانا اپنی کرسی اور جیل کی سلاخوں سے بچنے
کے لیے اتحاد کا دروازے کھولتے ہیں اور مشترکہ قومی مفاد کو پس پشت ڈال
دیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کرنے سے پہلے حکومت
کو سو بار سوچنا چاہیے تھاکہ مختلف ممالک نے اسے ری جیکٹ کر دیا ہے کیوں کہ
اس میں غلطیوں کی گنجائش زیادہ ہے۔ اگر حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر
یہ کام کرتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مگر دیکھا جائے تو حکومت نے اپوزیشن کی
بڑی تین پارٹیوں کو اس پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے جسے اپوزیشن نے یہ
کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ اگلے انتخابات جیتنے کی سازش ہے۔یا درکھیئے!ای
وی ایم ایک تکنیکی آلہ ہے جو ٹیکنالوجی ہے اور ٹیکنالوجی سے کسی کو انکار
نہیں ہے۔
اوورسیز کو ووٹ کے استعمال کے حوالے سے ماضی قریب کا معائنہ کیا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نواز نے اپنے پچھلے دور اقتدار میں پارلیمنٹ کو
قائل کرنے کی پوری کوشش کی تھی کہ سمندر پار بیٹھے پاکستانیوں کو پورا حق
ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں ۔ سوال سادہ سا ہے کہ دیارِ غیر میں
بسنے والے افراد کوحق رائے دہی کا اختیار کیوں نہیں ہونا چاہیے!!کیا
اوورسیز اپنے لاکھوں خاندانوں کی قربانیاں دے کر وطن کی خدمت نہیں کررہے!!
کیا اوورسیز وطن کو زرمبادلہ نہیں بھجواتے!! کیا اوورسیز رہنے والے تمام
افراد ایلیٹ ہیں!! 90 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں میں زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ
لوگ ایلیٹ ہو سکتے ہیں مگر 85 لاکھ تو ہمارے جیسے ہیں جو پاکستان سے باہر
رہتے ہوئے بھی ہماری طرح ہی مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ مشاہدے میں ایسے
بیسیوں افراد آتے ہیں جو لاکھوں روپے کما کر بھی 20،20 سال سے پاکستان سے
باہر ہیں اور مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں ۔ پاکستان سے محبت اور ان کے
خاندانوں کی قربانی کی بدولت ان کا یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا۔حکومت سے ایک
شکایت ضرور ہے کہ اگر 90 لاکھ اوورسیز کو حق رائے دہی صرف ایک قانون کے
ذریعے سے دیا جاسکتاہے تو کیا ا اڑھائی کروڑ سے زائد سکول سے باہر بیٹھے
بچوں پر کوئی نظر کرم نہیں!!!
کلبھوشن جیسے جاسوس کو رعایتیں دینا کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہے ۔ آزاد جموں و
کشمیر سے ہمارا رشتہ اٹوٹ انگ ہے ۔ پورے ایوان میں کلبھوشن کو رعایت دینے
اور انٹی ریپ بل کی مخالفت کرنے والوں میں جماعت اسلامی ہی ایک طرف کھڑی
نظر آئی۔ نص یعنی قرآن پاک میں بیان کردہ زنا کی سزا کو بدلنا یقینا گناہ
عظیم ہے۔ ہماری عدالتوں اور پارلیمنٹ کو مل کر اسلامی قوانین کا پاسبان
بننا چاہیے ۔پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے۔ اور اس کا نام اسلامی
جمہوریہ پاکستان ہے ۔ پاکستان کی اساس میں اسلام کی روحانیت قائم ہے۔ اسلام
ہی اس ملک کا مقدرہے۔
|