روایاتِ طلاقِ زید و نکاحِ زینب { 5 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاحزاب ، اٰیت 37 تا 40 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذ تقول
للذی انعم
اللہ علیه وانعمت
علیه امسک علیک زوجک
واتق اللہ وتخفی فی نفسک
مااللہ مبدیه وتخشی الناس واللہ
احق ان تخشٰه فلما قضٰی زید منہا وطرا
زوجنٰکھا لکی لیکون علی المؤمنین حرج فی
ازواج ادعیائھم ادعیائھم اذاقضوا منھن وطرا وکان امر
اللہ مفعولا 37 ماکان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ له
سنة اللہ فی الذین خلوا من قبل وکان امر اللہ قدرا مقدورا
38 الذین یبلغون رسٰلٰت اللہ ویخشونه ولا یخشون احد الا اللہ
وکفٰی باللہ حسیبا 39 ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولٰکن رسول
اللہ وخاتم النبییٖن وکان اللہ بکل شئی علیما 40
اے ھمارے رسُول ! آپ اِک ذرا اللہ کے حُکم پر بر وقت عمل نہ کرنے اور بعد از وقت پچھتانے والے اُس انسان کے اَحوال پر غور کریں جس پر اللہ کے تو بہت سے احسانات تھے اور آپ کے بھی کُچھ کم احسانات نہیں تھے لیکن جب آپ نے اُس کو اللہ کے حُکم پر یہ حُکم دیا کہ تُم لوگوں کی باتوں کے خوف سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی وجوہ کو اپنے دل میں چُھپانے کے بجاۓ اپنی زبان پر لاؤ اور باہمی گفت و شنید کے ذریعے اصلاحِ اَحوال کی طرف آؤ کیونکہ حق کا تقاضا یہ ھے کہ تُم لوگوں سے ڈرنے کے بجاۓ صرف اللہ سے ڈرو اور اللہ ہی کے حُکم کے مطابق اپنے سارے فیصلے کرو لیکن اُس انسان نے آپ کے حُکم کے علی الرغم پہلے تو بیوی کو طلاق دی اور بعد ازاں اُس طلاق سے رجوع کرنے کی مقررہ مُدت پر زیادہ مُدت بھی گزار دی حالانکہ اگر وہ آپ کو اپنا باپ سمجھتا تو آپ کے حُکم کے مطابق اپنی بیوی کے ساتھ اختلاف کی بات کو دل میں رکھ کر اصلاحِ اَحوال کا دروازہ ہر گز بند نہ کرتا اِس لیۓ جب اُس نے اللہ کے اور آپ کے حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو ھم نے آپ کو اُس عورت کے مرد کے ساتھ اُس عورت کے نکاح کرنے کا حُکم دیا تاکہ اہلِ ایمان ھمارے اِس حتمی حُکم کے بعد طلاق کے بعد نکاح کرنے کے لیۓ اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اللہ رب العالمین کے قائم کیۓ ہوۓ رَبانی رشتے اور انسان کے بناۓ ہوۓ زبانی رشتے کے اُس فطری فرق کو جان لیں جس فطری فرق کو جاننے کی اُن کو سخت ضرورت ھے ، اللہ کا حُکم تو بہر صورت نافذ ہونا ہی ہونا ھے چاھے انسان دل کی بات زبان پر لاۓ یا نہ لاۓ کیونکہ اللہ اپنے جس نبی کو جو حُکم دیتا ھے تو اُس نبی نے بھی انسان کو وہی حُکم دینا ہوتا ھے جو حُکم اللہ نے اُس کو دیا ہوا ہوتا ھے ، ھمارے اِس نبی کے اِس حُکم سے پہلے بھی عالَم میں اللہ کے تمام نبیوں کا انسان کو اَحکام دینے کا یہی رائج طریقہ رائج رہا ھے جو طریقہ ھمارے اِس نبی نے اختیار کیا ھے اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ اللہ کے یہ اَحکام ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ناقابلِ تغیر ہیں اور یہ اسی طے شدہ ضابطے کے مطابق اَنجام پاتے ہیں جو طے شدہ ضابطہ ھم نے بیان کیا ھے اور یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ھے کہ محمد تُم میں سے کسی مرد کے زبانی دعوے کے مطابق کبھی بھی کسی مرد کے باپ نہیں تھے ، اُن کی طے شدہ حقیقت و حیثیت یہ ھے کہ وہ اللہ کے ایک رسُول ہیں جو اللہ کے حُکم کے مطابق اللہ کی خبریں لانے والوں کی خبریں لانے اور خبریں سنانے پر پابندی عائد کرنے والے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
حرفِ شرط اِذ اور صیغہِ قضٰی کے بعد اٰیتِ بالا کے مفہومِ بالا کی تسیری کلید لفظِ زید ھے جو اپنی تحریری صورت کے لحاظ سے سُورَةُالنساء کی اٰیت 173 میں آنے والے لفظِ یزید کی طرح بظاہر ایک اسمِ علَم ھے لیکن اُس لفظِ یزید کی علمی حقیقت یہ ھے کہ وہ فعل مضارع کا ایک صیغہ ھے اور اُس اٰیت میں آنے والے یزید کی طرح اِس اٰیت میں آنے والے زید کی علمی حقیقت بھی صرف یہ ھے کہ وہ زاد یزید کے اسی مصدر سے صادر ہونے والا ایک حاصل مصدر ھے ، معنویت کے اعتبار سے یہ دونوں الفاظ ایک موجُود شئی کے وجُود پر ایک دُوسری زائد شئی کے وجُود کے موجُود ہونے کی خبر دیتے ہیں اور اپنی اِس حقیقت کے اعتبار سے پہلی اٰیت کا لفظِ یزید اُس انسان کی نشان دہی کرتا ھے جس کو پہلے زندگی اور ایمان و صلاحیت جیسی عظیم شئی دی گئی اور اِس کے بعد اُس کو کشادہ روزی دے کر ایک نعمت کے بعد ایک دُوسری نعمت بھی دے دی گئی تھی اور دُوسری اٰیت اُس دُوسرے انسان کی نشان دہی کرتی ھے جس نے اپنے اَقدامِ طلاق کے بعد اپنے حقِ رجوعِ طلاق کے مقررہ وقت پر ایک زائد وقت گزار کر اپنے پچھتاوے کا وہ سامان پیدا کر لیا تھا جس کا اٰیتِ بالا میں ذکر کیا گیا ھے لیکن حیرت ھے کہ اہلِ روایت نے سُورَةُالنساء کی اٰیت 173 میں نظر آنے والے لفظِ یزید کو تو اسمِ علَم ماننے کے بجاۓ فعل مضارع ہی تسلیم کیا ھے لیکن سُورَةُالاَحزاب میں آنے والے لفظِ زید کو حاصل مصدر تسلیم کرنے کے بجاۓ اسمِ علَم بنا دیا ھے حالانکہ جس طرح یزید فعل مضارع کا ایک صیغہ ھے اسی طرح زید بھی اسی مصدر سے صادر ہونے والا ایک حاصل مصدر ھے اور جس طرح یزید کا لفظ اپنے مقامِ ورُود پر ایک نعمت کے بعد ایک دُوسری نعمت کے وجُود کو ظاہر کرتا ھے اسی طرح زید کا لفظ بھی اپنے مقامِ ورُود پر اُس انسان کے اُس اَحوال کو ظاہر کرتا ھے جس انسان نے بیوی کو پہلی طلاق دینے کے بعد اپنا حقِ رجوع استعمال نہیں کیا تھا اور پھر دُوسری طلاق دینے کے بعد بھی اُس نے اپنے حقِ رجوع کے مقررہ وقت پر وہ زیادہ وقت ضائع کر دیا تھا جس وقت کے دوران وہ رجوع کر سکتا تھا جو اُس نے نہیں کیا تھا اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق اُس کو تجدیدِ نکاح کا وہ حُکم دیا گیا تھا جس حُکم کا اٰیتِ مذکور میں ذکر کیا گیا ھے لیکن اہلِ روایت نے چونکہ قُرآن کے اِس قانُونِ نازلہ { الطلاق مرتان } کا انکار کر کے شہرِ بابل کے ہارُوت و مارُوت کی پیروی کرتے ہوۓ شوہر و بیوی کو لازما ایک دُوسرے سے الگ کرنے کے لیۓ قُرآن کے قانُونِ طلاق کے برعکس طلاق کی بہت سی خود ساختہ اقسام وضع کی ہوئی ہیں اور طلاق کی اُن وضعی اَقسام سے حلالے جیسے حرام کام کا بھی ایک راستہ نکالا ہوا ھے اِس لیۓ اُنہوں نے اٰیتِ بالا میں بیان کیۓ ہوۓ واقعے کو بُنیاد بنا کر اِس اٰیت کے تحت زید کی طلاق اور اللہ کے رسُول کے نکاح کی وہ مَن گھڑت کہانی گھڑی ہوئی ھے جس کہانی کو وہ آج تک اپنی تفاسیر میں کسی نہ کسی رنگ اور کسی نہ کسی ڈھنگ سے پیش کرتے چلے آ رھے ہیں ، حرفِ اذ ، صیغہِ قضٰی اور حاصل مصدر زید کے بعد اٰیتِ بالا کے مفہومِ بالا کی چوتھی کلید لفظ زوج ھے جس کا اگر بہت اقتصار و اختصار کے ساتھ ایک لُغوی جائزہ لیا جاۓ تو اِس کا مُطلق معنٰی دو چیزوں کا جوڑا ہوتا ھے چاھے وہ کسی جاندار چیز کا جوڑا ہو یا بے جان چیز کا ، عربی کا ایک مشہور محاورہ "اشتریت نعال" ھے جس کا معنٰی یہ ھے کہ میں نے جوتوں کا ایک جوڑا خریدا ھے ، اِس کا دُوسرا معنٰی دو اَفراد کا ذہنی و قلبی طور پر ایک دُوسرے کے قریب ہونا یا دو اَفراد کو ایک دُوسرے کے قریب کرنا بھی ہوتا ھے ، چنانچہ عرب اہلِ لُغت جب "زوجة امرة او بامرة اولامرة" کہتے ہیں تو اِس کا ایک معنٰی نکاح کرنا ضرور ہوتا ھے لیکن اِس کا ایک معنٰی ایک دُوسرے کے ساتھ میل جول قائم کرنا اور وہ میل جول قائم رکھنا بھی ہوتا ھے اور اسی طرح اہلِ زبان جب " ازواج بینھما " کہتے ہیں تو اِس کا مفہوم بھی دو افراد کو ایک دُوسرے کے ساتھ ملانا یا ایک دُوسرے کے ساتھ متعارف کرانا ہوتا ھے ، ملانے اور متعارف کرانے کے اسی مفہوم سے مرد و زن کے نکاح کا مفہوم بھی اِس میں شامل ہوا ھے ، اسی طرح زوج کا ایک معنٰی دو چیزوں کو وزن میں ایک دُوسرے کے ساتھ برابر کرنا ہوتا ھے اور غالبا وزن برابر کرنے کے اسی مفہوم سے مرد و زن کے حقوق و فرائض کے متوازن ہونے کا مفہوم بھی مُتبادر ہوا ھے ، اٰیتِ بالا میں آنے والے لفظِ زوج میں یہ سارے مفاہیم موجُود ہیں جن کی تفصیل آگے آۓ گی اور اٰیتِ بالا کے مفہومِ بالا کی پانچویں کلید لفظِ "وطر" بر وزنِ "مطر" ھے اور یہ وطر بھی حاصل مصدر زید کی طرح کا ایک حاصل مصدر ھے جس کی جمع اوطار ھے اور اِس کا معنٰی کسی بات کے مقصد و مُدعا کو سمجھنا ہوتا ھے لیکن اہلِ روایت نے اپنی قُرآن دُشمنی کی غرض کے لیۓ اِس لفظ سے حاجت و غرض کا وہ خود غرضانہ مفہوم کشید کیا ھے جو اُن کے ہر ترجمے میں ہر جگہ پر اُن کی اُسی حاجت و غرض کے مطابق نظر آتا ھے جس حاجت و غرض کے تحت انہوں نے اُس سے یہ مفہوم اخذ کیا ھے اور جس حاجت و غرض کے تحت انہوں نے اِس اٰیت کا مفہوم بگاڑنے کی وہ سعیِ مذموم کی ھے جس کا کُچھ ذکر ھم نے اِس سے پہلے کیا ھے اور کُچھ ذکر اِس کے بعد کریں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 470093 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More