کشمیر:جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

قومی میڈیا اور سیاست داں دن رات کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ کہنے سے نہیں تھکتے مگر کشمیری عوام اور ان کے حقوق کا معاملہ آئے تو زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ پچھلے دنوں کشمیر کی مہلوکین میں جب چند ہندو شہری شامل ہوگئےتو ذرائع ابلاغ نے توجہ دی لیکن جب وہاں مسلمان اور حفاظتی دستوں کا خون بہتا ہے تو میڈیا میں کوئی بڑی خبر بنتی ۔ 15؍نومبر کوحیدر پورہ بائی پاس پر پولیس نے ایک شاپنگ کمپلیکس میں مسلح تصادم کا دعویٰ کیا۔ اس میں حیدر نامی پاکستانی جنگجو اور اس کے عرفان احمد نامی ساتھی کے علاوہ ڈاکٹرمدثرگل کے جان بحق ہونے کی اطلاع دی گئی اور بتایا گیا کہ انہیں پناہ دینے والا شاپنگ کمپلیکس کامالک بھی مارا گیا۔ اس کے بعد پولیس نے خود اپنا بیان بدل دیا اور کہا کہ مالک مکان الطاف احمد بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کو پولیس نے تلاشی کارروائی کے دوران اپنے ساتھ لیا جوکرا س فائرنگ میں مارے گئے۔ انسپکٹر جنرل پولیس کشمیر وجے کمار نےالطاف احمد کی موت کے حالات کا پتہ لگانے کے لیے ڈی آئی جی کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کال سینٹر چلانے والے چوتھے مہلوک شخص مدثر احمدپر حیدر اور اس کے ساتھی کو پناہ دینے کا الزام بھی لگایا۔

آئی جی کمار نے اپنے بیان میں یہ چونکانے والا انکشاف بھی کیا کہ امن و امان کو لاحق خدشہ کے پیش نظر الطاف کی لاش کو آخری رسومات کے لیے اہل خانہ کے حوالے نہیں کیا بلکہ اہل خانہ کی مرضی کے خلاف ہندواڑہ میں دفن کردیا۔ پولس یہ ترمیم شدہ کہانی بھی وقت کے ساتھ مشکوک ہوگئی کیونکہ اس جھڑپ کے دوران جاں بحق ہونے الطاف احمد ڈار اور مدثر گل کے اہل خانہ نے اپنے رشتے داروں کو بے قصور قرار دیتے ہوئے پولس کے موقف کی تردید کی اور کہا کہ ان کا جنگجوئیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ان لوگوں نے صرف رونے دھو نے یا شکوہ شکایت پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ پریس کالونی میں احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مہلوکین کی لاشوں کو مناسب تدفین کے لیے گھر والوں کوواپس کیا جائے۔، مدثر گل کی والدہ نے کہا کہ ان کا بیٹا بالائے زمین کارکن نہیں تھا بلکہ ایک ڈاکٹر تھا اور اس کا جنگجوئوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کیا’’میرا بیٹا بے قصور تھا، اسے کیوں مارا گیا؟ اس کا جرم کیا تھا؟"۔ انہوں نے حکام سے اپیل کی کہ لاش دی جائے، اب اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔

الطاف کے بھائی عبدالمجید نے بتایا کہ حیدر پورہ میں اس کے بھائی کی6 دکانیں تھیں اوراس میں سے ایک پراپرٹی ڈیلرز کو کرایہ پر دی گئی تھی ۔الطاف کےبھائی نے اس کے موت کی تفصیل یوں پیش کی کہ 15؍نومبر کو شام 5؍بجے پولیس اور فوج آئی، مکان کا گھیراؤ کرکے دوکانوں کو بند کروادیا ۔ عبدالمجیدکے مطابق تقریباً 30؍سے40؍افراد کو ہونڈا کی دکان میں قید کر نے کے بعدفائرنگ شروع ہوئی۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ الطاف احمد کو باہر نکالا گیا اور بتایا گیا کہ تلاشی لینی ہے۔ پھروہ ڈرون وغیرہ لے آئے اور تیسری بارکی تلاشی کے دوران وہ مارا گیا۔ اس واردات میں جاں بحق ہونے والا دوسرا شہری ڈاکٹر مدثر گل ڈینٹل سرجن تھا مگر بعد میں پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہوگیا تھا۔ اس کے بہنوئی عرفان احمد نے بتایا کہ بنگلورو میں بی ڈی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد واپس آکر وہ تجارت کرنے لگا۔ اس سانحہ میں ہلاک ہونے والے 23سالہ عامر لطیف ماگرے کے والد لطیف ماگرے نے بتایا کہ ان کا بیٹا الطاف احمد ڈار کی دوکان میں 6مہینے سے ملازم تھا۔ 2005میں اس کے چچازاد بھائی عبدالقیوم اور بہن رفیقہ اختر کو ہلاک کرنے والے جنگجو یاسر بٹ کوپتھر سے مارنے پر حکومتِ وقت نے لطیف کو سونے کا تمغہ دیا تھا اور اب بھی اس کو سرکاری تحفظ حاصل ہے۔
الطاف اور مدثر کے اہل خانہ کی حمایت میں جب پورا کشمیر اٹھ کھڑا ہوا تو پولس والوں نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ احتجاج ختم کردیں تو لاشیں واپس کی جائیں گی ۔ مظاہرین نے تحریردینے یا میڈیا کے سامنے اعلان کا مطالبہ کیا تو پولس واپس چلی گئی ۔ کچھ دیر بعد وہ لوٹ کر مظاہرین کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اس جبر سے حالات مزید بگڑ گئے تو انتظامیہ کے ہوش ٹھکانے آیااور وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا ۔مختلف حلقوں کی جانب سے دبائو اس قدر بڑھ گیا کہ دونوں شہریوں کی لاشیں قبر کشائی کے بعد لواحقین کے حوالے کی گئیں، اورقریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں اپنے آبائی قبرستانوں کے اندر تدفین عمل میں آئی۔ اس طرح نہ صرف سارے الزامات کمزور ہوگئے بلکہ نقصِ امن کا بہانہ بھی بے معنیٰ ہوگیا۔ کشمیر کے عوام کی یہ بہت بڑی فتح ہےکیونکہ جس انسانی اور آئینی حق سے انہیں انتظامیہ کے جبر نے محروم کرنے کی کوشش کی اس کو انہوں نے اپنی بے پناہ دلیری و بے مثال مزاحمت سے حاصل کیا ۔ دہلی کے اندر بیٹھ کر مظاہرہ کرنے سے کہیں زیادہ مشکل سرینگر کے آس پاس احتجاج کرنا ہے ۔وہاں سرکاری زیادتی کو دہشت گردی کی چادر میں ڈھانک دینا بہت ہی آسان ہے۔ خوف و دہشت کے اس ماحول میں کشمیر ی عوام کا عزم و حوصلہ قابل تعریف ہے۔

اس کامیابی کے بعد رام بن کے سنگلدان علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد عامر ماگرے کی لاش واپس کرنے لئے اس کے والد محمد لطیف ماگرے نے مقامی سرپنچ اور کئی معززین علاقہ کے ساتھ ڈپٹی کمشنر مسرت الاسلام اور ایس ایس پی رام بن پی ڈی نتیا سے ملاقات کی ۔ پولیس کے مطابق عامر ملی ٹینٹوں کا ساتھی تھا مگر اس کے والد محمد لطیف ماگرے اس دعویٰ کو مسترد کرکے تحقیقات کی مانگ کر رہے ہیں۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے بھی حیدر پورہ انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے عامر ماگرے کی لاش اس کے سوگوار لواحقین کو مناسب تدفین کے لئے واپس کرنے کامطالبہ کیا ہے ۔ ا نہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ ان کنبوں کے ذریعہ انصاف کے بجائے میتوں کی واپسی کی بھیک مانگنا اس نظام پر عدم اعتماد کا عکاس ہے۔ سی پی آئی (ایم ) کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہاکہ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ عامر احمد ماگرے بھی ایک عام شہری ہی تھا ۔ سرکار سے بہادری کا تمغہ پانے والے لطیف احمد کے بیٹے کو ملی ٹنٹ قرار دے کر ہلاک کرنا بدبختی ہے۔ انہوں حکومت پر زور دیا کہ وہ ہلاکتوں میں ملوثین کے لیے قانون کےتحت سزا کو یقینی بنائے۔

حریت کانفرنس (ع) نے بھی عامراحمدماگرے کی لاش بھی اُس کے لواحقین کو واپس کرکے انتظامیہ سےمیتوں کو اپنے قبضے میں لینے کے انسانیت سوز عمل سے گریز کرنے کی تلقین کی۔ حریت کانفرنس (ع) نے یہ بات پھر دہرائی کہ دیرینہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے کیونکہ اسی سے خطے میں امن و سلامتی کا قیام ممکن ہے۔سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا کی قیادت میں سشوبھابھاروے،وجاہت حبیب اللہ،کپل کاک،اوربھارت بوشن پر مشتمل ایک گروپ نے حیدرپورہ میں شہری ہلاکتوں پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سچ کو بے نقاب کرنے کیلئے لازمی ہے کہ اس واقعے کی عدالت عظمیٰ کے جج سے تحقیقات کرائی جائے تاکہ لوگوں کو اعتماد بحال ہوسکے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ یہ تحقیقات تیزی کے ساتھ مکمل کی جانی چاہیےاوراس دوران واقعہ کو انجام دینے والوں کو معطل کیاجاناچاہیے۔ ان کے مطابق حکومت کی مجسٹریل انکوائری وقت ضائع کرنا ہے۔ یشونت سنہا نے ممبران پارلیمان سے جموں کشمیرکا دورہ کرکےآئندہ پارلیمانی اجلاس میں اسے اُجاگرکرنے کی اپیل کی ۔اس گروپ نے چیف آف ڈیفینس اسٹاف جنرل بپن راوت کے اس بیان کو بھی ردکیاجس میں انہوں نے جنگجوئوں کو مارپیٹ کرہلاک کرنے وکالت کی تھی۔

متفکرشہریوں کے گروپ نے ہلاکتوں میں اضافے اور بے قصور شہریوں کے مارے جانے پرتشویش کا اظہار کیا۔ اس گروپ نےکہا کہ اگر قانون کی بالادستی کو بنائے رکھنا ہے توتحقیقات عدالت کے ذریعے کرانا لازمی ہے کیوں کہ انتظامیہ (بشمول پولیس)عوام کی نظروں میں ملزم ہے ۔ حیدرپورہ کے سچ کو سامنے لاکر متاثرین کو انصاف ملنا چاہئے اورسچ یا جاناچاہیے۔کشمیری پنڈتوں کی تنظیم کے ستیش محلدار نے کہا کہ حیدرپورہ واقعہ میں مارے گئے دوشہریوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے کافیصلہ اس حقیقت کاعتراف ہے کہ عوامی طاقت ہی بلندتر ہےاور ہر کاز کیلئے اتحاد لازمی ہے۔ ستیش محلدار نے امیدظاہر کی کہ لیفٹینٹ گورنر نے امید ظاہر کی کہ مجسٹریل تحقیقات غیرجانبداری اور منصفانہ طور انجام دی جائے گاکیونکہ انصاف کی فراہمی اورحقیقت افشانی کاعزم دائو پرلگاہے۔سرکاری اداروں کو کئی سوالات کاجواب دینا ہے۔ حیدرپورہ میں بظاہر جو ہواوہ ایک سیکورٹی آپریشن کا نتیجہ تھالیکن اس میں جو نقائص تھے ان کی نشاندہی ہورہی ہیں ۔محلدار نے کہا کہ کشمیروادی میں کافی خون بہہ چکاہے اورتشدد کی کسی بھی طور سے مذمت کی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں متحدہوکریہ واضح کردیناچاہیے کہ تشدد کوبرداشت نہیں کیاجائے گا۔ سماج کے سبھی طبقات کی جانب ایک ایسے معاملے میں جس کو انتظامیہ نے رفع دفع کردیا اپنی صدائے احتجاج کو پرزور انداز میں بلند کرناامیر مینائی کے اس شعرکی یاد دلاتا ہے؎
قریب ہے یارو روز محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449664 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.