ذرا سوچیئے

نپولین بونا پارٹ نے ایک بار کہا تھا چین ایک سویا ہوا شیر ہے بہتر ہے کہ وہ محو خواب رہے کیونکہ اگر بیدار ہوگیا تو وہ پوری دنیا کو ہلا ڈالے گا۔نپولین بونا پارٹ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ چین خواب غفلت سے بیدار ہوا اور دور حاضر میں ایک طاقت ور ملک بن چکا ہے۔دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ چین کو اپنے معاشی و سیاسی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس عروج کا ایک بڑا سبب باصلاحیت قیادت ہے۔چینی حکمرانوں نے اصلاحات کا جامع نظام مرتب کیا۔سائنسدانوں اور دانشوروں نے انسانیت کی سائنسی و فکری لحاظ سے راہنمائی کی۔چین میں رائج یک جماعتی طرز حکومت میں جو فیصلہ ہوتا اس پر عمل ہوا۔ پالیسی میں تسلسل رہا اور چین ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔دوسری طرف چین میں فکری پختگی کے ساتھ اہل اور دیانت دار قیادت بھی میسر رہی۔

پاکستان اور چین کے تعلقات کی ابتداء1951کو ہوئی جب دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔چین ترقی کی منازل طے کرتا رہا جبکہ پاکستان میں نت نئے سیاسی تجربات جاری رہے۔

پاکستان اپنے مختلف اندرونی عوامل کی وجہ سے ترقی کی راہ میں چین کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکا۔لیکن پاک چین باہمی تعلقات اور ہم آہنگی کے جذبات قائم رہے۔ یہ رشتہ احترام اور اعتماد کی بنیاد پر قائم و دائم ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات زندگی کے کم و پیش تمام دائروں سے متعلق ہیں۔

قارئین کرام! پاک چین دوستی کے حوالہ سے سی پیک سب سے اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبہ کو خطہ کے لیے گیم چینجر قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان ہی نہیں سی پیک چین کے لیے بھی اہم ہے۔لیکن سی پیک پر بھی پاکستان میں سیاست ہوئی۔ موجودہ حکومت پر سی پیک منصوبہ جات پس پشت ڈالنے کے الزامات عائد کیے گئے۔تمام غلط فہمیوں اور خیال آرائیوں کے برعکس سی پیک پر کام جاری ہے۔

چین سے بہترین تعلقات کو بھی سیاست اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اوکاڑہ سے خبر ہے کہ قائم مقام چینی کونسل جنرل اور وفد کا اوکاڑہ کے شہریوں کی طرف سے شاندار استقبال کیا گیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے قائم مقام قونصل جنرل نے چین کی طرف سے اوکاڑہ کی عوام کے لئے نجی ادارہ میں نئی ڈیجیٹل ایکسرے مشین کا افتتاح کیا۔قائم مقام قونصل جنرل نے اوکاڑہ میں پاک چین ایگری فورم کی بنیاد بھی رکھی۔ اس دورہ کے حوالہ سے یہاں تک تو تمام معاملات قابل تعریف ہیں۔ دورہ کی دعوت اور اہتمام مسلم لیگ (ن) کے مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور مقامی رہنما کی طرف سے ہوا تھا۔

تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اوکاڑہ میں بلدیہ لان میں منعقدہ تقریب میں سٹیج کے ایک طرف چین کے صدر اور دوسری طرف سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تصاویر لگائی گئی تھیں۔اس طرح پروگرام کو مکمل طور پر سیاسی رنگ دیا گیا۔ ایسا رنگ جس میں سیاسی وابستگی پہلے اور پاکستان بعد میں نظر آیا۔ مقامی مسلم لیگی رہنما فیاض ظفر کی جانب سیقائم مقام قونصل جنرل کی طرف سے اوکاڑہ کو سولر سٹی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔چائینز قائم مقام قونصل جنرل اور وفد کی اوکاڑہ کی بزنس کمیونٹی سے بھی میٹنگ کا اہتمام ہوا لیکن حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بزنس مین اس سے الگ ہی رہے کیوں نہ ہوتے اس دورہ کو مکمل سیاسی رنگ میں رنگ دیا گیا تھا۔اتحاد چاہنے والوں کے برعکس انتشار اور سیاسی تفریق، پسند اور ناپسند اہلیت پر مقدم، ایسے میں قومی پریس اور میڈیا سٹار بھی اتنی ہمت نہ کرسکے کہ اس تقریب کو قومی سوچ کے پیمانے پر پرکھتے۔راقم الحروف یہ سطور لکھتے وقت ایسا محسوس کرتا ہے جیسے ہم بے حس ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں

ایک اورناقابل فہم فیصلہ یہ ہوا کہ چیئرمین بلدیہ چودھری محمد اظہر نے شہر کے وسط میں واقع پیپلز انڈر پاس جو 1996میں تعمیر ہوا تھا اس کا افتتاح محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا تھا۔ اس انڈر پاس کا نام تبدیل کرکے شنگھائی انڈر پاس رکھ دیا جس کا افتتاح قائم مقام قونصل جنرل افتتاح سے کروایا گیا۔ جبکہ ایک نو تعمیر شدہ بے نام فلائی اوور ہے۔ اسکا افتتاح کروادیتے اور شنگھائی کے نام سے منسوب کردیتے تو بہت بہتر ہوتا۔ہمارے سیاسی حلقوں کی سوچ کس قدر غیر سیاسی ہے اس تقریب سے سب واضح ہے۔ اس دورہ کا اہتمام شہر کی بہتری اور قومی ہم اہنگی کے لیے بہتر انداز سے کیا جاسکتا تھا مگر قیادت کی خوشنودی سوچ پر طاری رہی۔ پاک چین دوستی کی گہرائی کی پیمائش سیاسی انداز سے کرنا مقدم ٹھہرا۔

ہم ذاتی طور پر یہ سمجھتے ہیں پارٹی قائد کی تصاویر اور جھنڈوں کی جگہ سبز ہلالی پرچم کو لہرایا جاتا تو بہت بہتر تھا۔ اگر اس دورہ کو نجی نوعیت کا قراردیا جائے اور مان لیاجائے تب بھی سیاسی رنگ اضافی ہی ٹھہرے گا۔

اس کالم کو مکمل کرنے سے پہلے مجھے سید ابوالاعلی مودودی مرحوم کا کہا یاد آگیا'' ہر جماعت اور اس کے ہر رہنما کو ایسے بہت سے لوگوں کی تائید حاصل رہتی ہے جو اس کی غلطیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور اس کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، اس تائید کرنے والے پیشہ ورگروہ میں کسی اضافے کی حاجت نہیں البتہ ایک دردمند دوست کی سب کو ضرورت ہے جو انہیں ان کی کوتاہیوں سے باخبر کرے۔اور اس خدمت کا معاوضے میں سب سے برا بننے پر راضی ہو۔' چین نے نپولین بونا پارٹ کی بات کو درست ثابت کیا اور ترقی کی مثال قائم کردی اور ہماری سیاسی قیادت نے سید ابو الاعلی مودودی کی بات کے مطابق طرز عمل اختیار کیا۔پاک چین دوستی کے داعی اور اس پر فخر کرنے والے ارباب اختیار اگر چین کی ترقی کی بنیادی وجہ کو سمجھ لیں تو بہتر ہے۔
 

Salman Qureshi
About the Author: Salman Qureshi Read More Articles by Salman Qureshi: 4 Articles with 2279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.