سائنسی جبریت

(سائنٹفک ڈٹرمنزم)

مذہب کے لیے سائینس کے سب سے بڑے چیلنج کی بدلتی ہوئی صورت سے سائینسی جبریت کا دعویٰ کمزور ہوتا جا رہا ہے
مشہور سائینسداں اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب" دی گرینڈ ڈیزائین" کی غیر منطقی تاویلات

سائینسی تفکر کے پہلے دو ہزار کے لگ بھگ سالوں میں عام تجربہ اور وجدان نظریاتی وضاحتوں کی بنیاد تھے- جیسے جیسے ہم اپنی تیکنیک کو ترقی دیتے گئے اورمظاہر کے مشاہدے کی حدود کو وسعت دیتے گئے، تو ہمیں قدرت کے وہ رویے معلوم ہونا شروع ہوئے جو ہمارے روزمرہ تجربات اور وجدان سے کم سے کم تر میل کھاتے گئے، جیسا کہ "بکی بال" کے تجربے سے واضح ہے----- دی گرینڈ ڈیزائین صفحہ ۶۵-۶۶

سائنسی جبریت کی نئی تعریف: کسی وقت ایک نظام(سسٹم) کی حالت اگر معلوم ہو- تو قوانین قدرت بجا ئے مستقبل اور ماضی کو یقینی طور پر متعین کرنے کے کئی مستقبل او ر کئی ماضیوں کے امکانات متعین کرتے ہیں - صفحہ ۷۰

" اگرچہ کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اسے ہم(اپنی مرضی سے) چن سکتے ہیں، ہماری مالیکیولی حیاتیات کا فہم ہمیں بتاتا ہے کہ حیاتی تعملات پر طبیعیات اور کیمیا کے قوانین حاکم ہیں-اور اس لئے وہ اسی طرح سے متعین اور طے شدہ ہیں جیسے سیاروں کے مدار- علم اعصابیات(نیورو سائینس) میں کیے جانے والے حالیہ تجربات اس نقطہء نظر کی تائید کرتے ہیں"---صفحہ ۳۱-۳۲ دی گرینڈ ڈیزائین
جدید سائینس کے حیرت انگیز سرعت سے ہوتی ہوئیَ ایجادات کی بنیاد پر ہونے والے بے پناہ مشاہدات اور دریافتوں نے جہاں انسانیت کے لیے بے شمار آسانیاں اور آسایئشیں بہم پہنچائیں، بہت سی بیماریوں کا قلع قمع کیا گیا، جراحی کے نت نئے آلات نے انسان کی بہت سی تکلیفوں کو رفع کیا، فصلوں کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا، دفاعی اور جنگی صلاحیتوں میں اعلیٰ درجے کے آلات اور ہتھیار وں سے ہوشربا اضافہ ہوا، تفریحات کے نت نئے طریقے ایجاد ہوئے، وہاں ایک نئی قسم کی سائینسی جبریت نے بھی جنم لیا جس نے پرانے سائینسی جبریت کے نظریہ اور تعریف کو بدل دیا- اس تبدیلی سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ پرانی سائنسی جبریت کی تعریف جس زور اور یقین سے جبریت کی دعویدار تھی وہ زور نئی تعریف میں ٹوٹ گیا- امکان اور احتمال نے سائینسی جبریت کی وہ زور آوری ختم کردی جو کلاسیکل سائینس کی مرہون منت تھی- اب کوئی واقعہ یا قدرتی عمل حتمی نہیں رہا بلکہ کئی امکانات یا احتمالات میں سے ایک امکان رہ گیا – اور مستقبل کے ساتھ ماضی بھی تعریف میں شامل ہوا ، لہذہ مصنف نے سائینسی جبریت کی تعریف اس طرح بیان کی:سائنسی جبریت کی نئی تعریف: کسی وقت ایک نظام(سسٹم) کی حالت اگر معلوم ہو- تو قوانین قدرت بجا ئے مستقبل اور ماضی کو یقینی طور پر متعین کرنے کے کئی مستقبل او ر کئی ماضیوں کے امکانات متعین کرتے ہیں - صفحہ ۷۰

اس جبریت کا منبع جدید سائینس کی قدرتی عوامل، قوانین اور تعملات پر انتہائی گہری نظر ہے جو اسے زیر ایٹمی ذرات سے لے کر کائینات کے آفاقی مشاہدے تک اور انسانی و حیوانی اجسام کی حیاتیاتی ساخت کی عمیق ترین گہرائی تک لے گئی – ان تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں انسان نے یہ محسوس کیا کہ انسانی جسم محض ایک حیاتیاتی مشین ہے جو بنیادی طور پر چند قدرتی اصولوں پر یعنی قوانین کیمیا اور طبیعیات پر چل رہا ہے-اور جو کچھ ہم آزادیَ خیال محسوس کرتے ہیں وہ ایک وہم کے سوا کچھ نہیں، ہمارے سارے فیصلے اور خواہشیں بظاہر آزاد معلوم ہوتے ہیں مگر بنیادی طور پر قوانین قدرت کی وجہ سے جبری ہیں اور پہلے سے متعین ہیں جیسا کہ سیاروں کے مدار معین ہیں- لیکن کئی واقعات کے امکانات کا تعین کسی ایک واقعہ کے معین ہونے سے بحرحال مختلف ہے-

یہ نظریہ اگرچہ کہ بہت سے " بظاہر " ناقا بل تردید سائینسی مشاہدات کا نتیجہ ہے ، مگر یہ ہمیں کسی بھی قسم کے اخلاقی، دینی یا دنیوی قوانین سے آزاد کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی باز پرس یا حساب کتاب سے مبرَا قرار دیتا ہے-جب سارا عمل اور رد عمل جبریہ صادر ہو رہا ہے تو کہاں کی عدالت، کہاں کا حساب اور کیسی آخرت؟ کیسی جزا و سزا ----!!

"بظاہر " ناقابل تردید سائینسی مشاہدات کا یہ نچوڑ کیسے اخذ کیا گیا اور ان مشاہدات سے سائینسی جبریت کا سراغ کیونکر لگایا گیا- ان مشاہدات سے لے کر ان کے جبریت تک منتج ہونے تک کن عوامل کو اہمیت دی گئی اور کن عوامل کو نظر انداز کیا گیا اور کونسے حقائق درخور اعتناء نہیں سمجھے گئے ! اس معاملہ کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہم اس دعوے کو بیان کریں گے جو مصنفین نے کیا اور پھر اس رد عمل کو زیرغور لائیں گے جو اس کتاب کے چھپنے کے بعد میڈیا اور رسائل کی زینت بنا- اس معاملہ کا خالص سائینسی اور منطقی تجزیہ کریں گے اور پھر انشاءاللہ ان نتائج کی دلائل سے کما حقہ' تردید کر یں گے جن کی بنیاد پہ سائینسی جبریت کا دعوی کیا گیا ہے-

یہ کتاب تین بنیادی سوالات کے گرد گھومتی ہے جو صفحہ ۲۹ پر دیے گئے ہیں:
"اگر قدرت قوانین کی تابع ہے تو:
۱۔ قوانین کا منبع(سورس) کیا ہے؟
۲۔ کیا قوانین کےلیے استثناء ہے؟، جیسے معجزے وغیرہ
۳۔ کیا ممکنہ قوانین کا ایک ہی متعین سیٹ ہے؟"

سائینسی جبریت کے عنوان کے تحت صفحہ ۳۰ پہ ساَینسی جبریت کے تاریخی پس منظر کو مشہور سائینسدان لاپلاس کے اصول موضوعہ(پاسچولیٹ) سے جوڑا گیا ہے-ساَینس کو پڑ ھنے اور سمجھنے والے لاپلاس سے اچھی طرح واقف ہیں، اس کی مساوات کو ساَینس(فزکس اور ریاضی) میں بنیادی اہمیت حاصل ہے- مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
گرینڈ ڈیزائین صفحہ ۳۰
""لاپلاس (۱۷۴۹-۱۸۲۷) کے سر یہ سہرا عموما باندھا جاتا ہے کہ اس نے پہلی دفعہ سائینسی جبریت کے بارے میں واضح اصول موضوعہ(پاسچولیٹ) وضع کیا:- کہ کسی بھی ایک خاص وقت کائینات کی کیفیت اگر معلوم ہو تو ایک مکمل قوانین کا سیٹ پورے طور پر اس کے ماضی اور مستقبل دونوں کا تعین کر سکتا ہے- یہ اصول موضوعہ کسی معجزہ یا خدا کے فعال کردار کو خارج از امکان کرتا ہے- لاپلاس نے جو سائینسی جبریت وضع کی وہی جدید سائینسدانوں کا جواب ہے سوال نمبر دو کے لیے- یہ دراصل جدید سائینس کی اساس ہے اور ایک اصول ہے جو اس ساری کتاب میں بہت اہم ہے- کوئی سائینسی قانون ، سائینسی قانون نہیں ہوتا اگر وہ صرف اس وقت لاگو ہو جب کوئی مافوق الفطرت ہستی مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرے-
چونکہ انسان کائنات میں رہتے ہیں اور اس میں موجود اشیاء سےمتعمل ہوتے ہیں، سائینسی جبریت کی گرفت انسانوں کے لیے بھی لازمی ہونی چا ہیے-"

مصنف نے نئے تجربات اور دریافتوں کو بیان کرنے کے بعد اس جبریت کی تعریف میں مندرجہ ذیل تبدیلی کی:
سائنسی جبریت کی نئی تعریف: کسی وقت ایک نظام(سسٹم) کی حالت اگر معلوم ہو- تو قوانین قدرت بجا ئے مستقبل اور ماضی کو یقینی طور پر متعین کرنے کے کئی مستقبل او ر کئی ماضیوں کے امکانات متعین کرتے ہیں - صفحہ ۷۰

یعنی اب سائینس ریاضی کی مدد سے صرف امکانات متعین کر سکتی ہے-اس میں سے کونسا امکان حقیقت کا روپ دھارے گا اس کو حتمی طور پر نہیں جانا جا سکتا- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک کثیرالامکانی احتمالات کے سیٹ کی موجو دگی میں صرف وہی امکان کیسے حقیقت کا روپ دھارتا ہے جو ہماری کائینات کے از حد غیر امکانی وجود کو برقرار رکھنے کا باعث بنے!! دوسرے الفاظ میں وہ کونسی قوت یا علت ہے جو اس کائینات کے لاتعداد ذرات کو قیام پذیر رکھنے کے لیے ان کو صرف وہی خاص امکانی حالت اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے جو اس کی قیام پذیری کے لیے ضروری ہے، وہ بھی ایک لمحہ میں شاید اربوں دفعہ- اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے سوائے علم امکان کے ناقابل یقین حد تک کیے گئے حسابات جو بعض صورتوں میں ۱۰کی قوت منفی ۱۹ جیسے امکانی عدد تک جاتے ہیں جو ناممکن کے سوا کچھ نہیں-

آزاد مرضی یا انسانی اختیار کے بارے میں مصنف صفحہ ۳۱-۳۲ پر لکھتا ہے:
"اگرچہ کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اسے ہم چن سکتے ہیں، ہماری مالیکیولی حیاتیات کا فہم ہمیں بتاتا ہے کہ حیاتی تعملات پر طبیعیات اور کیمیا کے قوانین حاکم ہیں-اور اس لئے وہ اسی طرح سے متعین اور طے شدہ ہیں جیسے سیاروں کے مدار- علم اعصابیات(نیورو سائینس) میں کیے جانے والے حالیہ تجربات اس نقطہء نظر کی تائید کرتے ہیں کہ یہ ہمارا طبعی بھیجہ(دماغ) ہی ہے جو معلوم سائینسی قوانین کے تحت ہمارے افعال کو متعین یا طے کرتا ہے- نہ کہ کوئی اور قوت جو ان قوانین سے ماوراء( باہر ) اپنا وجود رکھتی ہو- مثال کے طور پر ایک ایسے مطالعہ کے دوران جس میں حالت ہوش میں دماغی جراحت(بر ین سرجری) کی جارہی تھی یہ پتہ چلا کہ دماغ کے مخصوص حصوں کو برقی تحریک دینے سے مریض کے اندر ہاتھ یا پاؤں ہلانے، یا ہونٹ ہلا کر بات کرنے کی خواہش پیدا کی جا سکتی ہے-یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ آزاد مرضی کیسے کام کر سکتی ہے اگر ہمارا رویہ طبعی قوانین سے متعین ہوتا ہو- تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم حیاتیاتی مشینوں سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ کہ آزاد مرضی محض ایک وہم ہے-""
آگے چل کے مصنف انسانی " غیر اختیاری رویے " کے تعین کو اس کی پیچیدگی اور طوالت کی بناء پہ ناممکن العمل بتاتے ہوئے مو ثر نظریہ یا ایفیکٹو تھیوری کے تصور کو پیش کرتا ہے اور مثال کے طور پر کیمسٹری، نفسیات اور معاشیات کو صفحہ ۳۱-۳۲ پر موثر نظریہ قرار دیتا ہے:""یہ تسلیم کرتے ہوۓ کہ انسانی رویَے واقعی قوانین قدرت کے تحت متعین ہوتے ہیں، یہ نتیجہ بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انکا تعین کرنا اتنا پیچیدہ اور اتنے زیادہ متغیرات(ویری ایبل) کے ساتھ ہے کہ جو کسی بھی رویے کی پیشگوئی کرنے کو ناممکن بنا تا ہے-کیونکہ اس کے لیے انسانی جسم میں موجود کروڑ ہا کھرب مالیکیولوں کی ابتدائی حالتوں کاعلم ہونا ضروری ہے اور تقریباَ اتنی ہی مساواتوں کو حل کرنا پڑے گا جس کے لیے کروڑ وں سال درکار ہیں ----

کیونکہ انسانی رویے کی پیشگوئی کے لیے ان پس پردہ طبعی قوانین کا استعمال اتنا غیر عملی(ناممکن) ہے اس لیے ہم وہ نظریہ اپنائیں گے جسے مؤثر نظریہ(ایفیکٹو تھیوری) کہا جاتا ہے-طبیعیات میں موثر نظریہ ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو ، پس پردہ تعملات کی تفصیلات میں جائےَ بغیر ، کسی خاص زیر مشاہدہ مظہر کا نمونہ بنانے کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے ، مثال کے طور پہ ہم صحیح طور پہ ان مساواتوں کو حل نہیں کر سکتے جو کسی آدمی کے جسم کے تمام ایٹموں اور زمین کے ایٹموں کے درمیان کشش ثقل کے تعلق کو بیان کرتی ہیں،مگر سارے عملی مقاصد کے لیے ایک شخص اور زمین کے درمیان کشش کی قوت کو صرف چند ارکان سے بیان کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ ایک آدمی کا کل وزن( یا کمیت)- اسی طرح سے ہم پیچیدہ ایٹموں اور مالیکیول کے رویوں پہ حکمراں مساواتوں کو بھی حل نہیں کر سکتے- مگر ہم نے ایک مؤثر نظریہ قائم کر لیا ہے جسے کیمیا کہتے ہیں جو کیمیائی تعملات کے دوران، اسکی ہر تفصیلات میں جاےَ بغیر ایٹموں اور مالیکیولوں کے رویوں کی صحیح وضاحت مہیا کرتا ہے- جہاں تک انسان کا تعلق ہے ، چونکہ ہم اپنے رویوں کو اخذ کرنے والی مساواتوں کو حل نہیں کرسکتے، اس لیے ہم موثر نظریہ کو ہی استعمال کرتے ہیں کہ لوگ آزاد مرضی رکھتے ہیں- ہماری مرضی اور اس سے پیدا ہونے والے رویوں کا مطالعہ نفسیات کی سائینس ہے- معاشیات بھی ایک موثر نظریہ ہی ہے جس کی بنیاد آزاد مرضی کے تصور اور اس مفروضے پر ہے کہ لوگ ممکنہ متبادل راہیں خود متعین کرتے ہیں اور بہترین کا انتخاب کرتے ہیں-""
گویا موثر نظریہ یا ایفکٹو تھیوری مرکب اجسام کے کلی رویوں سے متعلق قوانین یا ان کی اثرات کا مطالعہ ہے جو ان اجسام کےاساسی یا جزوی اجزاء پر حکمراں قوانین سے قطعی مختلف ہے اور دراصل موثر نظریہ کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے وہ محض ایک ابہام سا ہے کہ جیسے کوئی سطحی طور پر کسی غیر حقیقت کو ایک فریب نظر کے طور پر دیکھ رہا ہو-اور یہ کہ مرکب اجسام ،جیسے دماغ، کے کلی رویے بظاہر اختیاری لگنے کے باوجود جزوی یا ایٹمی سطح پر قدرتی یا طبعی قوانین کے ماتحت ہونے کی وجہ سے جبری ہیں-

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی دماغ کی دریافت ابھی نا مکمل ہے بلکہ ابتدائی مراحل میں ہے- اس لیے دماغ پر کیے گئے تجربات سے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا ایک بچگانہ عمل ہے- کچھ دنوں پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ انسان اپنے دماغ کی گنجائش یا وسعت کا صرف ۱۰٪ حصہ استعمال کرتا ہے یا اس سے بھی کم- نظریہء ارتقاء کو اگر درست مان لیا جاےَ تو اس کی رو سے یہ بعید از عقل بات معلوم ہوتی ہے-اگر دماغ کا ارتقاء ماحولیاتی ضرورت کے تحت ہؤا ہے تو پھر اس کا بڑا حصہ "" سوئچ آف"" کیوں ہو گیا؟

یا اگر ماحولیاتی ضرورت نہیں تھی تو اس قدر بڑا دماغ کیونکر وجود میں آیا؟ یہ سوال نظریہ ارتقاء پر بھی سنجیدہ اعتراضات کھڑے کرتا ہے- اب اس بیان کو مندرجہ ذیل بیان سے بدل دیا گیا ہے:سائینٹفک امریکن سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:" ایک اور اسرار جو ہمارے بیرونی دماغ کی سلوٹوں (جھریوں )میں چھپا ہؤا ہے وہ یہ کہ دماغ کے سارے خلیوں میں سے صرف ۱۰٪ نیورون ہیں اور باقی ۹۰٪ گلیال خلیے ہیں جو نیورون کو اپنے اندر سموئےَ ہوئےَ ہیں اور انکو سہارا دیتے ہیں- ان گلیال خلیوں کا کام کیا ہے یہ ابھی تک بڑی حد تک نا معلوم ہے- لہٰذہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنا دماغ ۱۰٪ استعمال کرتے ہیں بلکہ ہم اسکے فعل کو محض ۱۰٪ سمجھتے ہیں- "

اگر ہم صرف ۱۰ ٪ دماغ کو سمجھتے ہیں تو کوئی بھی دلیل یا تجربہ جو دماغ کو حیاتی مشین ثابت کرنے کا دعویدار ہو دلیل کی تعریف پہ پوری نہیں اترتا جب تک دماغ کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے- پھر اس بات کی کیا دلیل ہے کہ کچھ دنوں کے بعد سائنس نئے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں یہ نہ کہنے لگے کہ ہم صرف ۳ ٪ دماغ کو سمجھتے ہیں- یا اس سے بھی کم!

مصنف کائنات کی تخلیق کے بارے میں کہتا ہے: "طبیعیات اب یہ سمجھا سکتی ہے کہ کائنات کہاں سے آئی- اور قدرت کے قوانین جیسا کہ وہ ہیں، ایسے کیوں ہیں ؟

کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے(کچھ نہیں سے پیدا ہوئی ہے)، کشش ثقل کے تعاون سے-اور قدرت کے قوانین ایک حادثہ ہیں اس مخصوص کائنات کے ٹکڑے کا جس میں ہم بستے ہیں- ان سوالات کا جواب دینا ممکن ہے خالص طور پر سائینس کی دنیا میں رہتے ہوےَ- کسی مقتدر ہستی کے مرہون منت ہوےَ بغیر-"

اس بیان میں ایک عجیب بات ہے ، ذرا اس فقرہ پر غور کیجیے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے کشش ثقل کے تعاون سے- عدم میں کشش کے قوانین کہاں سے موجود ےتھے؟؟ اور اگر موجود تھے تو وہ عدم نہیں ہو سکتا – اور صرف قوانین کیسے موجود ہو سکتے ہیں جبکہ شئے نہ ہو!

اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد مختلف طبقہ ہائے فکر کے افراد بشمول سائنسدانوں کے جو رد عمل سامنے آئے ان کو "سائنٹفک امریکن " نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں ڈیوڈ کیسل وچی نے یوں بیان کیا ہے:"ستمبر ۲۰۱۰ ء کو شائع ہونے والی، مصنفین سٹیفن ہاکینگ اور لیونورڈ ملوڈینو ، کی کتاب "دی گرینڈ ڈیزائن" نے گویا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا- کیونکہ کچھ لوگوں نے اس کو اس نظر سے دیکھا جیسے سائینسی دلائل کی بنیاد پہ خدا کے وجودکا انکار کیا جارہا ہے-

علماء دین سخت ناراض ہوےَ- انہوں نے کہا کہ خالق کا وجود ، تعریف کے مطابق ، سائینس کے دائرے سے باہر ہے- کچھ نے کہا کہ اس کتاب میں فلسفیانہ طور پر بھولپن ہے، ان میں سینٹ میری یونیورسٹی میں تھیولوجی کے پروفیسر رابرٹ ای بیرن بھی شامل ہیں-مثال کے طور پر بیرن کہتے ہیں کہ ان قوانین کا وجود جن کی وجہ سے کائنات ظاہرہوئی بگ بینگ سے پہلے سے موجود ہونا چاہئے-قوانین کشش کچھ نہیں ، نہیں ہیں، بلکہ کچھ ہیں-

جیسے جیسے میڈیاپہ یہ اضطراب پھیلتا گیا، بلوگر سے ٹویئٹر اور پرائم ٹائم ٹی وی تک تو مصنفین نے تردید کی کہ ان کا مطلب یہ دعوی کرنا نہیں تھا کہ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ خدا نہیں ہے- ہاکنگ نے سی این این کے لیری کنگ کو بتایا کہ خدا کا وجود ہو سکتا ہے ،لیکن سائینس کائنات کی توجیہ کر سکتی ہے، خالق کی ضرورت کے بغیر-

میلوڈینو کہتے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ خدا کا وجود نہیں ہے-ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا نے یہ کائنات نہیں بنائی-جہاں تک طبعیاتی قوانین کا تعلق ہے کچھ لوگ چاہیں تو انہیں خدا کہہ سکتے ہیں- اگر آپ سمجھتے ہیں کہ خدا کوانٹم تھیوری کی تجسسیم ہے، تو پھر ٹھیک ہے-
دوسری طرف کائنات کی شروعات کا سائنسی نظریہ ممکن ہے اتنا مکمل نہ ہو جتنا کہ ہاکینگ پیش کرتے ہیں-اس کی بنیاد اسٹرنگ کے نظریہ پر ہے اور اس سے بھی پراسرار اور بغیر جانچی ہوئی ایم تھیوری پر جو اسی کا ایک اور رخ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہاکنگ کی اپنی کائینات کے بارے میں سوچ-

ماہر تکوینیات مارسیلو گلائزر ایک این پی آر ۰ اورگ کے بلاگ پر لکھتے ہیں کہ ہاکنگ اور ملوڈینو جن نظریات کو اپنے دلائل کی بنیاد بناتے ہیں وہ بھی اتنے ہی غیر تجرباتی ہیں جتنا کہ خدا - مزید یہ کہ کیونکہ ہمارے پاس ساری قدرت کو ناپنے کی صلاحیت رکھنے والے آلات نہیں ہیں ، اس لیے ہم کبھی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم آخری نظریہ تک پہنچ گےَ ہیں-

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے طبیعیات دان لیونارڈو سسسکینڈ جنہوں نے اپنی کتاب " دی کوسمک لینڈ اسکیپ" مطبوعہ ۲۰۰۶ء میں تخلیق میں خالق کی ضرورت پہ سوال اٹھایا تھا، اس بات پر متفق ہیں کہ " سارے طبیعیات داں یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ایک مکمل نظریے کی تلاش ختم ہو چکی ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ " میرا خیال نہیں ہے کہ ہم اس کے کہیں قریب بھی پہنچے ہوں!"

صفحہ۳۴ پر کتاب کے موضوع کے بارے مصنف لکھتا ہے"اس کتاب کی جڑیں سائینسی جبریت کے تصور میں پیوستہ ہیں، جو کہتا ہےکہ سوال نمبر دو کا جواب یہ ہے کہ معجزات نہیں ہوتے یا قوانین قدرت میں استثناء نہیں ہے-ہم بحرحال واپس آئینگے سوال نمبر ایک اور تین کو گہرائی کے ساتھ بحث کرنے کے لیے کہ یہ مسئلہ کہ قوانین کیسے وجود میں آئے اور کیا یہی صرف ممکنہ قوانین ہیں۔

ہم اس مسئلہ پہ توجہ دیں گے کہ وہ کیا چیز ہے جو قوانین قدرت بیان کرتے ہیں- بہت سے سائینسداں کہیں گے کہ یہ ایک مشاہدہ کرنے والے سے آزاد اپنا وجود رکھنے والی بیرونی حقیقت کی ریاضیاتی نقشہ کشی ہے- لیکن چونکہ ہم اسی( ماحولیاتی) سلیقے سے غور و خوص کرتے ہیں جس(ماحولیاتی) سلیقے میں ہم (رہتے ہیں اور) مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے گردوپیش کے بارے میں تصورات قائم کرتے ہیں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ ایک حقیقی حقیقت موجود ہے(یعنی جو کچھ ہم سمجھ رہے ہیں وہ حقیقت ہے بھی یا نہیں)-"

در اصل ہمارے تصورات اور غور و فکر کرنےکے سلیقہ اور طریقہ پر اس ماحول کا بہت گہرا اثر ہے جس ماحول میں ہم رہتے ہیں اور ہمارا گردو پیش ہمارے تصورات کو بنانے میں بہت گہرا اثر ڈالتا ہے جو اکثر اوقات حقیقت سے دور ہوتا ہے اور محض فریب نظر ہو تا ہے- لہذہ ہم اس دنیا کے ماحول میں رہتے ہوئے جو کچھ مشاہدہ کر رہے ہیں ، ہو سکتا ہے وہ حقیقت نہ ہو-جیسے پانی کے اندر رہنے والے جانور کو خشکی کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، مثال کے طور پہ پانی کے اندر سے خشکی کا مشاہدہ روشنی کے انعطافی اثر کی وجہ سے حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے- اگر پانی کے اندر سے مشاہدہ کیا جائے تو ایک سادہ واقعہ بھی کچھ پیچیدہ ہو جاتا ہے--- تو کیا ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ جو کچھ ہم حقیقت سمجھ رہے ہیں وہ حقیقت ہے بھی یا نہیں- کیا ہم بھی کائنات کو کسی ان دیکھے واسطے میں سے تو نہیں دیکھ رہے ہیں اور کسی مچھلی کی طرح فریب نظر کا شکار ہیں!

پھر یہ کہ حقیقت مشاہدہ کرنے والے سے آزاد ہونے کی وجہ سے اس کی ریاضیاتی نقشہ کشی اور اس کے اپنے ذاتی "فہم حقیقت "سے ماوراء ہے- اس کے ثبوت وقتا" فوقتا" ملتے رہتے ہیں- مثلا" موج اور ذرہ کا نظریہ جو کسی شئے کو موج کے طور پر اور کسی موج کو ذرے کے طور پہ بخوبی بیان کرتا ہے- یہ دونوں بیانات صحیح بھی ہیں اور تجربہ سے ثابت بھی ہیں -اس کا استعمال بھی آج کل عام ہے، جیسے نوری-برقیاتی اثر (فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ) شمسی بیٹری میں استعمال ہوتا ہے- جس میں روشنی کی شعاع میکانیاتی اثر ڈال کر بجلی کی رو پیدا کرتی ہے-اس کی ریاضیاتی وضاحت کامپٹن نےکی جس کو "کامپٹن ایفیکٹ" کا نام دیا گیا -

بہت کم لوگ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ماحول سے نکل کر غور کر یں ، بلکہ اکثر لوگ اپنے تصورات پر ماحول کے طبعی، ثقافتی اور عادی کرنے والے اثرات کو سمجھ بھی نہیں پاتے، لہذہ اکثر غلط نتائج اخذ کیے جاتے ہیں- سائنسداں البتہ تمام احتمالات اور امکانات کو زیر غور لاکر نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر حقیقت کی کوئی اور واضح شکل سامنے آ جائے تو اس نتیجہ کے مضمرات کو بدلنے پر بھی تیار ہوتے ہیں - یہ بیان سائینسدان کی اسی رویہ کی لچک کو ظاہر کر رہا ہے-

اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مصنف صفحہ ۵۸ پہ رقم طراز ہے:"یہ تصور کہ ایک شے کو موج یا ذرہ دونوں کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے اتنا ہی غیر مانوس ہے جیسے کہا جائے کہ آپ ریت کے پتھر پی سکتے ہیں-اس طرح کی ثنویات(ڈوالٹی)— یعنی ایسی صورتحال جس میں دو انتہائی مختلف نظریات ایک ہی مظہر کو درستگی سے سمجھا تے ہیں—نمونہ پہ منحصر حقیقت سے ہم آہنگ ہے-

ہر نظریہ کچھ مخصوص خصوصیات کو بیان کرتا ہے اور اس کی وضاحت کرتا ہے- اور کسی بھی نظریہ کو بہتر یا زیادہ حقیقی نہیں کہا جاسکتا- ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بھی ایک ریاضیاتی نمونہ یا نظریہ ایسا نہیں ہے جو کائنات کے ہر پہلو کو اجاگر کر سکے- بلکہ لگتا ہے کہ ایک نظریات کا نظام ہے جسے ایم-تھیوری کہا جاتا ہے-"

اگرچہ یہ صورتحال روائیتی سائینسداں کے ایک واحد تھیوری کے خواب کو پورا نہیں کرتی-

"نمو نہ پر منحصر حقیقت " حقیقت کی ایک نئی تعریف ہے اسکو حقیقت کی متنوع تعریفوں کا تقابلہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے-

سائینٹفک امریکن شمارہ اکتوبر ۲۰۱۰ء میں صفحہ ۷۰ پہ " نمو نہ پر منحصر "حقیقت کو یوں واضح کیا گیا ہے:

حقیقت کی تعریف
معروضی حقیقت(آبجکٹیو رئیلٹی) یا حقیقت شناسی(رئیلزم)
اکثر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ معروضی حقیقت وجود رکھتی ہے اور یہ کہ ہمارے حواس اور ہماری سایئنس مادی دنیا سے متعلق معلومات براہ راست ترسیل(منتقل) کرتے ہیں -کلاسیکی سایئنس اس عقیدےپہ قائم ہے کہ ایک بیرونی دنیا وجود رکھتی ہے جس کی خصوصیات معین ہیں اور مشاہدہ کرنے والے کے ادراک سے آزاد ہیں - فلسفہ میں اس عقیدہ کو حقیقت شناسی کہا جاتا ہے -

مثالیت(آڈئیلزم) یا مخالف حقیقت( اینٹی رئیلزم)
ایک امکان یہ ہے کہ حقیقت کا تصور حقیقت کا ادراک کرنے والے کے ذہن پر منحصر ہو سکتا ہے- یہ نقطئہ نظر باریک فرق کے ساتھ حقیقت مخالف، فلسفئہ تصوریت ،وغیرہ کے ناموں سے جانا جاتا ہے-

ان فلسفوں کے مطابق، جس دنیا کو ہم جانتے ہیں وہ حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات(اشارات) کو خام مال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انسانی ذہن سے بنی ہے- اور ہمارے دماغ کی تعبیری ساخت کے ذریعے متشکل ہوئی ہے- اس نقطئہ نظر کا قبول کرنا مشکل ہو سکتا ہے ، لیکن اس کا سمجھنا مشکل نہیں ہے-

ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ مشاہدہ کرنے والے---یعنی ہم کو ------ہمارے فہم دنیا سے الگ کر دیا جائے-

نمونہ کی بنیاد پہ منحصر حقیقت(ماڈل بیسڈ ریئلٹی)
سائینس جس نہج پہ جارہی ہے اس کی وجہ سے مندرجہ بالا نظریات حقیقت کا دفاع کرنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے- سایئنس کی یہ دریافت کہ تمام اشیاء اور روشنی بہت چھوٹے ذرات جیسے الیکٹران اور فوٹان سے مل کر بنے ہیں ، جنہیں ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے، اور اس دنیا میں وہ طبعی قانون لاگو ہی نہیں ہیں جنہیں ہم نیوٹن کے توسط سے کلاسیکی سائینس میں جانتے ہیں- اس باریک دنیا میں ذرات کا نہ کوئی یقینی جائے وقوع ہے اور نہ کوئی یقینی رفتار یہاں تک کہ کئی صورتحال میں وہ اپنا ذاتی وجود ہی نہیں رکھتے جب تک کہ ایک اجتماع کا حصہ نہ ہوں- اس کے علاوہ جدید سائینس نے ماضی کے تصور کو بھی لپیٹے میں لے لیا ہے- کلاسیکی نظریہ سائینس میں ماضی ایک واضح اور معین واقعات کے سلسلے کے طور پر اپنا وجود رکھتا ہے- لیکن جدید سائینس(طبعیات) کی رو سے ماضی بھی مستقبل کی طرح ،غیر معین ہے اور ایک ممکنہ واقعات کے مجموعے کی حیثیت رکھتا ہے-یہاں تک کہ کاَینات کا بھی کو ئی ایک ماضی یا تاریخ نہیں ہے- اس کا مطلب یہ ہوْا کہ جدید سائینس(کوانٹم فزکس)، کلاسیکل سائینس کے مقابل ایک مختلف حقیقت کے وجود پہ دلالت کر تی ہے یہ اس کے باوجود ہے کہ کلاسکل سائینس ہمارے وجدان سے ثابت ہوتی ہے اور اب بھی عمارتوں اور پلوں کی تعمیر میں ہمارے خدمت کر رہی ہے-

یہ مثالیں ہمیں نتیجے کے طور پر ایک اہم ڈھانچہ فراہم کرتی ہیں جس سے جدید سائینس کی ترجمانی کی جا سکتی ہے- ہمارے خیال میں سوچ اور نظریہ سے آزاد کوئی تصور حقیقت نہیں ہے- اس کے بجائے ہم ایک اور نقطئہ نظر اپنمائیں گے جسے ہم نمونہ پہ منحصر حقیقت کہیں گے- آئیڈیا یہ ہے کے طبعی نظریہ یا دنیا کی تصویر ایک نمونہ ہے( میتھمٹکل ماڈل، عام طور سے) اور ایک قوانین کا سیٹ اس کے عناصر کو مشاہدے سے مربوط کرتا ہے- نمونہ کی بنیاد پر منحصر حقیقت کی تعریف کے مطابق یہ پوچھنا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ کیا نمونہ حقیقی ہے؟! بلکہ یہ پوچھنا ہوگا کہ کیا نمونہ مشاہدے کے موافق ہے؟ اگر دو مختلف نمونے مشاہدے کے موافق ہو جا ئیں تو کوئی ایک دوسرے سے زیادہ حقیقی نہیں سمجھا جائے گا- کسی بھی نمونہ کو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے اگر وہ آسانی سے کسی زیر غور صورتحال میں استعمال ہو سکتا ہو-

حقیقت کی ایک نئی تعریف ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہی ہمارا سوال ہے- اس کی ظاہری اور وقتی وجہ صاف ہے- پانچوں اسٹرنگ تھیوری اپنا اپنا ریاضیاتی ثبوت رکھتی ہیں- اور ان کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس قسم کی حقیقت کی تعریف ضروری تھی- ریاضیاتی ثبوت کو حتمی مانا جاتا ہے، اس لیے ، مشاہداتی اور عملی تجربے سے ثابت نہ ہونے کے باوجود پانچوں نظریات کو تسلیم کرتے ہوئے حقیقت کی تعریف بدل دی گئی- اور حقیقت کو متنوع قرار دیتے ہوئے وحدانی نظریے کو ترک کرنے کی طرف ایک قدم بڑہا یا گیا ہے- مگر ہمارے خیال میں یہ بھی ایک وقتی بند و بست ہے- اگر جینیوا میں " ذراتی سرعت کنندہ"(پارٹیکل ایکسیلیریٹر) جس کی ایک خطیر رقم خرچ کرکے تجدید کی گئی ہے، مستقبل قریب میں کسی اور حقیقت کا مشاہدہ کرے جو اسڑ نگ تھیوری کے برخلاف ہو تو اس نمونہ کی بنیاد پہ حقیقت کی تعریف کا کیا ہوگا؟

اسی طرح کوانٹم سطح پر نئے کیے جانے والے تجربات کے ذریعے سائنسدانوں کو واقعاتی حقیقت کا چکرا دینے والا تصور جو ینگ کے دہرے شگاف( ڈبل سلٹ) والے تجربے سے سامنے آیا جس کی تجدید نے اس کی وسعت میں اضافہ کیا اور بڑے ذرات یعنی مالیکیول کو بھی تجربہ میں استعمال کیا گیا-

صفحہ ۶۵-۶۶پر مصنف نے اس تجربہ کو بیان کیا ہے جسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:" ۱۹۹۹ء آسٹریا میں ۶۰ ایٹموں پہ مشتمل فٹبال کی شکل والے کاربن کے مالیکیول(انہیں بکی بال کا نام دیا گیا ہے) دو درز والی رکاوٹ کی طرف داغے گئے- دونوں درزوں کے کھلے ہونے کی صورت میں اسکرین کے کچھ مقامات پر پہنچنے والے مالیکیولوں کی تعداد بڑھی مگر دوسری جگہوں پہ گھٹی، کچھ ایسی جگہیں بھی تھیں جہاں کوئی" بکی بال" نہیں پہنچی جبکہ دونوں درزیں کھلی تھیں ،لیکن فقط اس وقت پائی گئیں جب صرف کوئی ایک درز کھلی تھی!یہ بہت انوکھی بات معلوم ہوتی ہے۔ ایک دوسرا شگاف کھولنے کا عمل کسی خاص مقام پر زیادہ کے بجائے کم مالیکیول پہنچنے کا باعث کیسے بن سکتا ہے!؟ یہ وہ نمونہ ہے جو تداخلی موجوں(انٹرفئیرنگ ویو) کی خاصیت ہوتی ہے!

اس سے بھی زیادہ عجیب اور پراسرا ر چیز وہ ہے جو اس تجربے کے مشاہدے سے سامنے آئی- جب اس عمل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو یہ موجی خاصیت معدوم ہو جاتی ہے اور تجربہ ذراتی خصوصیات ظاہر کرنے لگتا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تجربہ کے اجزاء کو پتہ چل گیا ہو کہ اس کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اور اس نے اپنا رویہ بدل لیا---- لہذہ مصنف نے لکھا:"سائینسی تفکر کے پہلے دو ہزار کے لگ بھگ سالوں میں عام تجربہ اور وجدان نظریاتی وضاحتوں کی بنیاد تھے- جیسے جیسے ہم اپنی تیکنیک کو ترقی دیتے گئے اورمظاہر کے مشاہدے کی حدود کو وسعت دیتے گئے، تو ہمیں قدرت کے وہ رویے معلوم ہونا شروع ہوئے جو ہمارے روزمرہ تجربات اور وجدان سے کم سے کم تر میل کھاتے گئے، جیسا کہ "بکی بال" کے تجربے سے واضح ہے-یہ تجربہ وہ مخصوص قسم کا مظہر ہے جو کلاسیکی سائینس کے دائیرے میں نہیں آسکتا بلکہ اس نظریے سے سمجھایا جاتا ہے جسے "کوانٹم طبیعیات" کہا جاتا ہے-دراصل رچرڈ فینمین نے لکھا کہ دو درزوں والا تجربہ (ینگ ڈبل سلٹ ایکسپیریمنٹ)، جیسا کہ ایک ہم نے اوپر بیان کیا ہے، کوانٹم میکانیات کی ساری پراسراریت اپنے اندر رکھتا ہے-

روزمرہ اشیاء کے بنیادی اجزاء (یعنی ایٹم اور ایٹم سے چھوٹے اجزاء) کوانٹم فزکس کے پابند ہیں، جبکہ نیوٹن کے قوانین ایک مؤثر نظریہ کی تشکیل کرتے ہیں جو بہت درستگی سے ہمارے روزمرہ کی دنیا کی تشکیل کرنے والے مرکب اجسام کے رویوں کی وضاحت کرتے ہیں-

کوانٹم طبیعیات( فزکس) حقیقت کا ایک نیا نمونہ ہے جو ہمیں کائنات کی ایک نئی تصویر دیتا ہے- یہ ایک ایسی تصویر ہے جس میں حقیقت کے بارے میں ہمارے وجدانی فہم کے کئی بنیادی تصورات کوئی معنی نہیں رکھتے-

ساَینسدان عرصہ تک تعجب میں رہے کہ کوئی چیز کتنی بڑی اور کتنی پیچیدہ ہوسکتی ہے کہ پھر بھی وہ موجی خصوصیات ظاہر کرے-لیکن عمومی طور پہ شے جتنی بڑی ہوتی جاتی ہے، کوانٹم اثرات اتنے ہی کم ظاہر اور اتنے ہی کمزور ہوتے جاتے ہیں- پھر بھی ، تجرباتی سائینسدانوں نے موجی مظہر کا مشاہدہ مزید بڑے ذرات کی ساتھ کیا ہے-سائینسدانوں کو امید ہے کہ بکی بال کا تجربہ کبھی جرثومہ( وائرس) کو استعمال کر کے بھی کیا جاےَ گا، جسے کچھ لوگ زندہ بھی سمجھتے ہیں-"

یہ تجربہ اس نمونہ یا ماڈل کی اس حد کو معلوم کرنے کے لیے کیا گیا جہاں موجی خصوصیات ذراتی خصوصیات میں تبدیل ہوتی ہیں-

مگر یہ صرف اس مادے کی ماہیت اور خصوصیات کے بارے میں ہیں جنہیں ہم اپنے حواس اور آلات سے کسی حد تک ناپ سکتے ہیں- ہمارے حواس میں آنے والے اس مادے کا وجود کائینات میں کس مقدار میں ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب کہکشا ؤ ں کےمشاہدے کے دوران بعض ایسے اثرات دیکھے گئے جو ان دیکھے مادے کی دریافت کا سبب بنے جن سے یہ حیرت انگیز حقیقت آشکار ہوئی کہ جس مادے کو انسانی حواس اور آلات اب تک محسوس کرسکے ہیں اسکی مقدار شاید کل موجود مادے کی مقدار کا صرف ۴ ٪ ہے - اور جو مادہ ہمارے حواس اور آلات سے ماوراء ہے وہ غالبا" ۹۶ ٪ ہے----- اسے سیاہ مادہ (ڈارک مے ٹر) کا نام دیا گیا اس مادے کا اندازہ مندرجہ ذیل طریقے سے لگایا گیا:۱۹۶۷ میں سایئنسداں ویرا روبن نے مشاہدہ کیا کہ اینڈرومیڈہ کہکشاں میں موجود ستاروں کی مداری رفتار توقع سے کہیں زیادہ تھی! دوسرے سایئنسدانوں نے بھی یہی مشاہدہ قریبی ٹرای اینگلم کہکشاں میں بھی کیا- انہوں نے ستاروں کی مداری رفتار کی پیمائش کر کے فارمولے کی مدد سے حساب لگایا کہ ایک مخصوص پیمائش(چار کے آگے بیس صفر میٹر) کے دائیرے میں کہکشاں کی کمیت ۴۶ بلین سورجوں کے برابر ہونی چاہیے-جبکہ کہکشاں کی چمک کے حساب کے فارمولے سے اندازہ لگایا گیا کہ اسی پیمائش کے دائرے میں صرف سات بلین سورج کے برابر کمیت موجود ہے! ان دونوں نتائج کے درمیان جو فرق ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹرائی انگلم کہکشاں میں ۳۹ بلین سورجوں کے برابر کمیت کا ناقابل مشاہدہ مادہ موجود ہے! یہی ناقابل مشاہدہ کمیت، سیاہ مادہ (ڈارک مے ٹر) کہلاتی ہے-

اس مادے کی مقدار موجو دہ حساب کے مطابق کائینات میں ناقابل یقین حد تک زیادہ تنا سب میں پاِئی گئی یعنی کل کائینات کے مادے کا ۹۶٪ ! اس مادے کی کیا ماہیت ہے اور کیا خصوصیات ہیں؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم! ہمارا علم صرف اس ۴٪ مادے پر مشتمل ہے اور ابھی مکمل بھی نہیں ہے جو ہمارے ادراک میں آسکتا ہے- گویا ہم مادے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں! اور نتیجہ کے طور پر حقیقت کو سمجھنے سے ابھی بہت دور ہیں- لہذہ حقیقت کی کوئی بھی تعریف حقیقی تعریف کے زمرے میں نہیں آسکتی جب تک کہ کل حقیقت کا علم نہ ہوجائے، جو اس وقت ناممکن نظر آتا ہے اور شاید کبھی نہ ہوسکے- اور اگر اس ان دیکھے مادے کی ماہیت اور خصوصیات معلوم بھی ہو جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس کے بعد کچھ اور ان دیکھے اسرا ر اور سوالات سامنے نہیں آئینگے جن کا جواب معلوم کرنا ضروری ہوگا- جس نہج پر سائینسی تحقیق جا رہی ہے اس کے مطابق یہ عین ممکن ہے اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ لا متناہی حد تک چلتا جائے گا-اسرار پہ اسرار سامنے آتے جائیں گے، سوالیہ نشان بڑے سے بڑے ہوتے جائیں گے، انسانی ذہن کی محدودیت اور تصور کی تصغیر مادے کی اتھاہ گہرائیوں اور کائینات کی لامحدود وسعتوں کو سمجھنے سے قاصر رہے گی- ایسی صورتحال میں سائینس کے کسی بھی نظریے کی روشنی میں کسی غیر محسوس آفاقی حققیقت کی حتمی تردید یا تصدیق نہیں کی جاسکتی- نہ ہی کرنی چاہیے، کیونکہ یہ عمل ایک غیر عقلی عمل ہوگا-

سائینس میں غیر یقینی:-
ریاضیاتی حساب کتاب کہاں تک درست نتائج اخذ کرسکتا ہے اور کہا ں سے غیر یقینی کی حد شر و ع ہوتی ہے، یہ ایک معلوم حقیقت ہے جس کا حساب ہائزن برگ نے لگا یا تھا- اسے اصول غیر یقینی ( ان سرٹینٹی پرنسپل) کہا جاتا ہے- اس کا ذکر مصنف نے صفحہ ۷۰ پہ کیا ہے:" کوانٹم فزکس کے خاص عقائد (اصول) میں سے ایک اور اصول غیر یقینی کا ہے، جو ۱۹۲۶ء میں ہائیزن برگ نے اخذ کیا تھا-وہ یہ کہتا ہے کہ کچھ خاص پیمائیشیں ایک ساتھ کرنے کی ہماری صلاحیت محدود ہے، جیسے رفتار اور مقام- مثال کے طور پہ مقام اور مومینٹم میں غیر یقینی کا حاصل ضرب کبھی بھی ایک مخصوص متعین مقدار سے کم نہیں ہوسکتا جسے پلانک کا مستقل(پلانکس کانسٹنٹ) کہتے ہیں-

کوانٹم فزکس کے مطابق، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چاہے ہم کتنی ہی معلومات حاصل کرلیں یا کتنی ہی طاقتور ہماری حسابی صلاحیت ہو، طبعی تعملات کے انجام کی یقین کے ساتھہ پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی- کیونکہ وہ یقین کی ساتھ متعین ہی نہیں ہیں- بلکہ نظام کی معلوم ابتدائی حالت کے ساتھ قدرت اسکے مستقبل کی حالت کا تعین ایک ایسے طریقے سے کرتی ہے جو بنیادی طور پہ خود غیر یقینی ہے-قدرت کسی تجربہ یا قدرتی عمل کے انجام کو سادہ ترین صورتحال میں بھی نافذ نہیں کرتی۔ بلکہ وہ کئی مختلف احتمالات کی اجازت دیتی ہے، ہر ایک احتمال کے وقوع پذیر ہونے کے ایک خاص امکان کے ساتھ-"

یعنی حتمی طور پر کسی عمل کا نتیجہ نہیں معلوم کیا جاسکتا سوائے امکانات کے ایک سیٹ کے- انہی امکانات میں سے ایک مخصوص حالت کسی طریقے سے یا کسی ان دیکھی " کمانڈ" کے نتیجے میں اختیار ہوتی ہے جس سے نظام قیام پذیربھی رہتا ہے اور واقعاتی طور پر آگے بھی بڑھتا رہتا ہے ، جبکہ دیگر امکانات رد کر دیے جاتے ہیں جو نظام کی قیام پذیری کے لیے خطرہ ہوں- یہ کائنات کے ہر ذرے کے ساتھ ایک ثانیہ میں کروڑوں بار ہو رہا ہے- یہ یقینا" کسی انتہائی دانا نظام کا انتظام ہے- نہ کہ محض اتفاق کا شاخسانہ! عقل اور منطق اسی نتیجے پر پہنچتی ہے-

اسی منطقی نتیجہ سے بچنے کے لیے مصنف نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے سائینسی جبریت کی تعریف میں تبدیلی کی اور صفحہ ۷۰ پہ لکھا:" ہو سکتا ہے کہ ایسا لگےکہ کوانٹم طبیعیات اس تصور کی بنیاد کھوکھلی کر رہی ہے کہ قدرت پہ قوانین حکمراں ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے- اسکے بجائے وہ ہمیں ایک نئی قسم کی جبریت قبول کرنے کی طرف رہنمائی کرتی ہے: کسی وقت ایک نظام(سسٹم) کی حالت اگر معلوم ہو- تو قوانین قدرت بجا ئے مستقبل اور ماضی کو یقینی طور پر متعین کرنے کے کئی مستقبل او ر کئی ماضیوں کے امکانات متعین کرتے ہیں - اگر چہ اس بات سے کچھ لوگ بدمزہ ہونگے ، لیکن سائینسدانوں کو وہ نظریات تسلیم کرنے چاہئیں جو تجربہ سے ثابت ہوتے ہوں، نہ کہ ان کے اپنے پہلے سے قائم کردہ خیالات(سوچی سمجھی ہوئی رائے) –"

اس نئی قسم کی جبریت کی تعریف میں امکانات کا تعین کوئی تعین ہے ہی نہیں ، اس لیے اسے جبریت نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ امکان کا تعین اگر ہو بھی تب بھی امکان امکان ہی رہتا ہے حتمی نتیجہ کی شکل نہیں اختیار کرتا- لہذہ یہ صرف الفاظ کی جادوگری کے سوا کچھ نہیں- دوسرے یہ کہ مصنف کا آخری جملہ کہ" سا ئینسدانوں کو وہ نظریات تسلیم کرنے چاہئیں جو تجربہ سے ثابت ہوں ، نہ کہ ان کے پہلے سے قائم کردہ خیالات" ، خود مصنف کے خیال کی تردید کر رہا ہے کیونکہ مصنف اپنے پہلے سے قائم کردہ خیال یعنی سائینسی جبریت کے حق میں ایک غیر منطقی دلیل یعنی" امکانات کا تعین" کو جبریت کی تعریف میں شامل کرکے کر رہا ہے-

امکانات میں سے کسی بھی امکان کو حتمی شکل میں منتج ہونے کے لیے کسی تحریک کی ضرورت ہے جو اسے صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرے- یہ تحریک ہی امر ربی ہے- جو سارے کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے- ایک ایک ذرے کی ایک ایک لمحے میں اربوں ، کھربوں بار رہنمائی کر رہی ہے اس کائنات کو قائم رکھنے کے لیے----- سائینسی جبریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں-
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 46887 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More