غرور علم

تکبر و غرور ہی تو تمہاری تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ہے کہ تم علم حاصل کرنے کے بعد تکبر و غرور کا شکار ہوگئے اور یہ توقع کرتے ہو کہ لوگ تمہارا احترام کریں۔ عالم اگر اس لیے مغرور ہے کہ وہ جانتا ہے تو وہ درحقیقت جاہل ہے اور بے علم اگر جاننے کی جستجو رکھتا ہے تو راہ علم کا مسافر ہے۔۔ اسی لئے حصرت علی نے فرمایا کہ جس نے کہا میں نہیں جانتا اس کے آدھا علم حاصل کر لیا۔

میرے بھائی حسن، کیا اب تک غصہ میں ہو؟ سچ کہتے ہو۔ وہ واقعی بڑا جاہل انسان ہے۔ تم جیسے صاحب علم سے بات تک کرنے کا تو وہ اہل ہی نہیں ہے۔۔ہاں ہاں۔۔ ٹھیک کہا تم نے۔تم علم و ادب میں اس سے برتر ہو۔ اسے کیا پتہ۔۔ جاہل مطلق ہے وہ تو۔کہاں تم۔ عالم و فاضل۔ کہاں وہ سڑک چھاپ بے علم شخص۔۔لیکن نہ جانے کیوں مجھے موسیٰ و خضر کی یاد آ گئی۔۔

کسی نے موسیٰؑ سے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی ہےجس کے پاس آپ سے زیادہ علم ہو؟ حضرت موسیٰؑ نےفخریہ جواب دیا کہ نہیں کوئی نہیں۔ حکم ربّی ہوا ایک نمک لگی مچھلی اپنے ساتھ لو اور اس جگہ کی طرف نکل پڑو جہاں دو پانی(مجمع البحرین) ملتے ہوں ۔ وہاں وہ نمک لگی مچھلی (شاید پانی کے چھینٹے پڑنے سے) زندہ ہو کر پانی میں (عجیب طرح راستہ بنا کر)چلی گئی ۔ وہاں انہیں ایک شخص ملا جسے موسیٰ سے زیادہ علم دیا گیا تھا۔ [سوره کہف آیات: 65۔60 ]

ہم سب جانتے ہیں کہ پھر موسیٰ کو خضر کے علم پر حیران ہونا پڑا۔ خضر کو اللہ نے اپنے علوم میں سے ایک علم دے رکھا تھا، ایسا علم کہ جو موسیٰ کے پاس نہیں تھا۔۔ موسیٰ کا دعویِٰ علم کیا ہوا جب خضر نے ایک بچے کو مار ڈالا؟ موسیٰ کا علم کیوں حیران ہوا جب خضر نے کشتی میں سوراخ کیا؟ موسیٰ نہیں جانتے تھے۔ کہ کوئی ان سے بھی زیادہ صاحب ِعلم ہے۔ جوں ہی جان گئے عاجز ہو گئے۔ جھک گۓ اپنے رب کے سامنے۔ آگے سنو جب خضر رخصت ہونے لگے ۔۔ اسی وقت ایک پرندہ آیا اور دریا سے چونچ میں پانی بھر کے اڑ گیا ۔ خضر نے موسیٰ سے کہا میرا اور تمہارا علم ملا کرہمارے رب کی علم کی مقابلے میں ایسا ہے جیسا اس پرندے کی چونچ میں پانی اور اس دریا کا پانی۔

کیا وہ واقعہ نہیں سنا تم نے؟ جس میں ایک شخص اپنی عمر کا ایک طویل حصہ پہاڑ پر عبادت و ریاضت میں گزارتا ہے۔۔ پھر ایک فرشتہ آ کر اس سے کہتا ہے کہ اللہ تجھے تیری ریاضت کا صلہ دینا چاہتا ہے تو اے! عبادت گزار شخص مانگ کیامانگتا ہے؟ اپنے علم و عبادت کے غرور میں سرشار وہ شخص کہتا ہے کہ میں منہ سے ہرگز نہ مانگوں گا۔ جو میری سالہا سال کی ریاضت کا حق ہے وہ ادا کر۔۔

بھلا انسان کی عبادت کا بھی کوئی حق ہے؟ حق کو معبود کا ہے کہ اسکی عبادت کی جائے۔ مگر عابد کے غرورِ علم نے اس کی عقل کو خبط کردیا۔ سو فرشتے نے یہ کہہ کر پہاڑ اس شخص کے اوپر رکھ دیا کہ تُو نے سالہا سال اس پہاڑ کر بیٹھ کر اللہ کی عبادت کی ہے تو حق تو یہ ہے کہ اب یہ پہاڑ تجھ پر بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرے۔۔ تم بھی تو دعویِٰ حقِ علم کرتے ہو۔۔ کیا علم ہے تمہارے پاس؟ ہرلفظ کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے۔۔ اس کا حق ہوتا ہے کہ صحیح جگہ استعمال ہو۔ کیا تمہیں علم ہے کہ کون سا لفظ کس جگہ منہ سے نکلنا چاہئے؟ ؟

لفظ صرف معنی نہیں رکھتے۔۔ عزیزم! ان کے تو دانت ہو تے ہیں یہ کسی کی شہ رگ کو کاٹ بھی سکتے ہیں۔۔ کبھی غور کیا کہ اپنے علم کے زعم میں تم نے کتنے لوگوں کی شہ رگ کاٹ ڈالی ہے؟ الفاظ کے ہاتھ بھی ہوتے ہیں جو سننے والے کا گریبان کو پھاڑ دیتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ اپنی لفظوں سے کتنے لوگوں کے گریبان چاک کر چکے ہو؟

میرے بھائی حسن! علم کے ساتھ غرور نہیں آتا، علم تو عاجزی اور انکسار کا ساتھی ہے، صحیح معنوں میں علم والے لوگ وہ ہیں جن سے مل کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ واقعی علم رکھتے ہیں جب ہی عاجزی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ اپنے انداز و اطوار میں نرمی و شفقت لئے ہوتے ہیں ان رویے میں لوگوں کے لئے تحقیر نہیں ہوتی۔ ان کے ذہن بے شک بہت خاص ہوتے ہیں مگر ان کے اخلاق عام ہوتے ہیں۔۔۔ ہر ایک لئے۔۔

یہ تمہاری ڈگری۔۔ یہ تو کاغذ کو ٹکڑا ہے جو غرور اور تکبر پیدا کرتا ہے۔ اس پرزہ کے حصول کے لئے تم نے دن رات محنت بھی کی اور روپیہ بھی بہت لگایا اور اسی ڈگری کو دکھا کر روزگار حاصل کیا۔ اب جو تم کامیاب ہو گئے تو مغرور ہو گئے۔ اور نہ صرف مغرور ہو ئے بلکہ دوسروں سے اس ڈگری کی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرتے ہو۔۔ اپنے لئے خاص ہونے کا ٹیگ خریدنا چاہتے ہو۔۔۔ کس بنیاد پر؟

محض اس لئے کہ تمہارے ذہن میں معلومات کا خزانہ ہے؟ ؟ مگر علم کا خزانہ تو گلی گلی سانپ لے کر گھومنے والے جوگی کے پاس بھی ہے۔ اگر وہ تمہاری طرح موٹی موٹی کتابیں نہیں پڑھ سکتا تو تم بھی تو اس کی طرح سانپ کو ہاتھوں میں نہیں اٹھا سکتے۔۔ اس کے علم نے اسے حرف پڑھنا نہیں سکھایا اور تمہارے علم تمہیں سانپوں کو پکڑنا نہیں سکھایا۔۔ کیا فرق رہا تم میں اور اس میں۔۔ محض ڈگری کا؟

تکبر و غرور ہی تو تمہاری تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ہے کہ تم علم حاصل کرنے کے بعد تکبر و غرور کا شکار ہوگئے اور یہ توقع کرتے ہو کہ لوگ تمہارا احترام کریں۔ عالم اگر اس لیے مغرور ہے کہ وہ جانتا ہے تو وہ درحقیقت جاہل ہے اور بے علم اگر جاننے کی جستجو رکھتا ہے تو راہ علم کا مسافر ہے۔۔ اسی لئے حصرت علی نے فرمایا کہ جس نے کہا میں نہیں جانتا اس کے آدھا علم حاصل کر لیا۔

میری باتیں بری لگی ہوں تو معذرت ۔
 

Syed Haseeb Shah
About the Author: Syed Haseeb Shah Read More Articles by Syed Haseeb Shah: 53 Articles with 33116 views I am Student i-com part2.. View More