پاکستان کی وزارت تجارت میں شعبہ ڈبلیو ٹی او کے جوائنٹ
سیکرٹری عمر حمید کا حالیہ دنوں ایک میڈیا انٹرویو نظر سے گزرا جس میں
انہوں نے عالمی تجارتی تنظیم میں چین کی شمولیت کی 20 ویں سالگرہ کے حوالے
سے کہا کہ گزشتہ 20 سالوں میں چین کی قومی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے،
اور اس کا کردار ڈبلیو ٹی او میں بھی مضبوط تر ہوا ہے۔ موجودہ بین الاقوامی
صورتحال میں جہاں یکطرفہ پسندی عروج پر ہے، پاکستان ڈبلیو ٹی او کی انصاف
پسندی، اور کثیر الثقافتی نوعیت کے تحفظ کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے
کا خواہاں ہے۔ عمر حمید کے خیال میں حالیہ برسوں میں چونکہ ڈبلیو ٹی او میں
چین کی کارکردگی نے بہت سارے بااثر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اس لیے کچھ
ممالک نے چین کی تجارت کو روکنے کے لیے منفی ہھتکنڈے اختیار کئے ہیں، جس سے
اصولی طور پر ڈبلیو ٹی او کی انصاف پسندی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ موجودہ
صورتحال میں ڈبلیو ٹی او کو ایسی اصلاحات کرنی چاہئیں جو انصاف اور شفافیت
پر مبنی ہونی ہوں۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد سے چین تنظیم کا
انتہائی اہم رکن بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر
چین دیگر ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے تحفظ اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ
منصفانہ سلوک کو یقینی بناتے ہوئے ڈبلیو ٹی او کی کثیر الثقافتی نوعیت کو
یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے
دوران، چین عالمی تجارتی تنظیم کے فریم ورک میں اصول سازی کے حوالے سے ایک
اہم ترین شراکت دار بن چکا ہے۔ ڈبلیو ٹی او کے امور میں اپنی جامع شمولیت
سے چین نے عالمی تنظیم کو با اختیار بنانے اور اس کے دائرہ کار کو وسعت
دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ان بیس برسوں کے دوران چین نے ڈبلیو ٹی او کے
تین اہم ترین اور بڑے امور یعنیٰ ضابطہ سازی مشاورت، پالیسی جائزہ اور
تنازعات کے تصفیہ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
ڈبلیو ٹی او کے تحت گورننس مذاکرات کی ایک بڑی قوت کے طور پر، چین نے کثیر
الجہتی تجارتی مذاکرات میں گہرائی سے حصہ لیا ہے جس میں دوحہ راؤنڈ مذاکرات
اور ماہی گیری کی سبسڈی پر بات چیت وغیرہ شامل ہیں، چین کی جانب سے 100 سے
زائد مذاکراتی تجاویز پیش کی گئی ہیں یا ایسی تجاویز کی حمایت کی گئی ہے ،
اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی معاہدے اور تجارتی سہولت کے معاہدے کے
دائرہ کار کو وسعت دینے میں چین پیش پیش رہا ہے۔ڈبلیو ٹی او کے پالیسی
جائزوں میں بھی چین نے ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ چین
ڈبلیو ٹی او کی جانب سے نو عبوری جائزوں اور آٹھ تجارتی پالیسی جائزوں سے
گزر چکا ہے، جس میں اس نے ڈبلیو ٹی او کے دیگر ارکان کی جانب سے اٹھائے گئے
10 ہزار سے زائد سوالات کے ایماندارانہ جوابات دیے ہیں۔ابھی حال ہی میں
اکتوبر کے اواخر میں ، چین کے حوالے سے ڈبلیو ٹی او کے آٹھویں تجارتی
پالیسی جائزے کے دوران چین نے تنظیم سے وابستہ ارکان کے 2500 سے زائد
سوالات کے جوابات دیے ہیں ،جس سے یقیناً چین کی شفافیت اور کھلے رویے کا
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، چین نے ڈبلیو ٹی او میں تنازعات کے تصفیے سے متعلق طریقہ کار
کے "نائٹ واچ مین" کے طور پر کام کیا ہے۔ چین نے یورپی یونین سمیت ڈبلیو ٹی
او کے درجنوں دیگر ارکان کے ساتھ مل کر کثیر فریقی عبوری اپیل ثالثی کا
نظام قائم کیا جو تمام اراکین کے لیے کھلا ہے۔اسی طرح گزشتہ دو دہائیوں کے
دوران، چین عالمی سطح پر عوامی مصنوعات کے ایک اہم ترین سپلائر کے طور پر
ترقی کر چکا ہے یوں چین کی ترقی کا دنیا کی خوشحالی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
چونکہ چین کی مجموعی ملکی پیداوار دنیا کی مجموعی پیداوار کے ایک بڑے حصے
پر مشتمل ہے لہذا چین رضاکارانہ طور پر مزید بین الاقوامی ذمہ داریاں
نبھاتے ہوئے دنیا کو مزید عوامی مصنوعات فراہم کر رہا ہے۔مزید برآں چین
نےکم ترقی یافتہ ممالک کے قریبی دوست کے طور پر فنڈز بھی فراہم کیے ہیں اور
ڈبلیو ٹی او سیکرٹریٹ کے ساتھ مل کر ایسے ممالک کو کثیرالجہتی میں ضم کرنے
میں مدد فراہم کی ہے۔
دوسری جانب ملکی سطح پر چین نے بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ہمیشہ سازگار
ماحول پیدا کیا ہے اور دنیا کی ٹاپ کمپنیاں چین کی بڑی منڈی سے بھرپور
استفادہ بھی کر رہی ہیں۔ چین ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی اور 400
ملین سے زائد متوسط آمدنی والے طبقے کی حامل ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جسے
کوئی ملٹی نیشنل کمپنی نظر انداز نہیں کر سکتی ہے۔ چین کے کاروباری ماحول
میں مسلسل بہتری، خاص طور پر دانشورانہ املاک کے تحفظ کی مسلسل مضبوطی نے
بھی عالمی کمپنیز کو چینی مارکیٹ میں نئی ٹیکنالوجیز اور نئی مصنوعات کو
زیادہ اعتماد کے ساتھ پیش کرنے کی اجازت دی ہے۔ سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے
کہ بیرونی دنیا کے لیے مزید وسیع کھلے پن کے حوالے سے چین کے قول و فعل میں
مستقل مزاجی ہے، جس سے ملٹی نیشنل کمپنیز کو اعتماد اور حوصلہ ملتا ہے۔چین
آج بھی اپنی مارکیٹ کو عالمی تقاضوں سے مزید ہم آہنگ کرنے کے لیے سخت
جدوجہد کر رہا ہے اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لیے مثبت توانائی کی
فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
|