بھارت میں کسانوں کیلئے بنائے گئے متنازعہ قوانین کو
منسوخ کروانے کیلئے کسانوں نےپورے گیارہ مہینوں تک احتجاج وجدوجہد کا سلسلہ
جاری رکھا تھا،اس احتجاج میں سینکڑوں کسانوں کی جانیں گئی،ہزاروں کسانوں کو
لاٹھیوں کا سامنا کرناپڑا اور کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہوئے احتجاج کو کسی
بھی حال میں رُکنے نہیں دیا۔اس پورے احتجاج کا نظام ایک بیانر تلے اور ایک
مقصدکے تحت چلتارہا۔اس میں نہ کوئی لیڈربنا ،نہ ہی کوئی لیڈرشپ کے مواقع
تلا ش کرتا رہا۔احتجاج کو منظم طریقے سے انجام دیاگیااور کامیابی حاصل
ہوئی۔احتجاج کے طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے حکومت سمجھ گئی کہ ان کسانوں کو
بال برابربھی کمزورنہیں کیاجاسکتا۔اسی وجہ سے بھارت کے وزیر اعظم
نریندرمودی نے تھک ہارکراعلان کردیاکہ کاشتکاروں کیلئے بنائے پانچ اہم
قوانین میں سے تین اہم قوانین کو حکومت ہٹانے کیلئے تیارہے،اس لئے کسان
اپنا احتجاج واپس لیں۔یہ تما م باتیں ہم اس لئے دوہرا رہے ہیں ،کیونکہ آگے
چل کر انہیں باتوں پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ایک ایک جملے پر غور
کریں۔کسانوں نے گیارہ مہینے احتجاج کیا،ایسی ہی ایک جدوجہد این آر سی اور
سی اےاے کے تعلق سے جامعہ کے طلباء کی جانب سے شروع ہوئی تھی،اس کے بعد یہ
جدوجہد بڑھتے ہوئے شاہین باغ کی شکل اختیارکرلی۔دہلی کے شاہین باغ طرز پر
ملک کے کئی علاقوں میں احتجاج ہوا،لیکن احتجاج کو جشن کی طرح منایاگیا۔پھر
کورونا کا حوالہ دیاگیا تو تمام احتجاجات ختم کردئیے گئے،لیکن یہی کسان
تنظیمیں کورونامیں بھی لاک ڈائون میں بھی اپنےمقصد کو لیکر ڈٹے رہے۔جب خرچ
کرنے کی بات آئی تو کسان پیچھے نہیں ہٹے،لیکن این آر سی اور سی اے اے کے
احتجاجات کے دوران کئی علاقوں میں منتظمین کی جانب سے چندوں کی وصولی،اناج
کی وصولی میں بے ایمانی کے واقعات پیش آئے،اس سے سی اے اے اور این آر سی
کااحتجاج بڑے پیمانے پر بدنام ہوا۔کسانوں نے سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے
حکومت کی ناک میں دم کررکھاتھا،لیکن مسلمانوں نےاین آرسی اور سی اےاے کے
احتجاج کو اپنے ہی مسجدوں کے سامنے،عیدگاہوں کے سامنے اور یہاں تک کہ شادی
محلوں میں منعقد کرکے حکومت کو کیا ،گلی محلے کے لوگوں کو بھی دبائومیں
نہیں ڈالا۔یہ تو ہوئی بنیادی باتیں،لیکن سب سے اہم بات یہ رہی ہے کہ کسانوں
کااحتجاج ایک مقصد،ایک تنظیم اور ایک سربراہ کی قیادت میں چلتارہااور اس
کیلئے مشاورتی کمیٹی کی تشکیل بھی ہوئی اور اسی کیلئے سینکڑوں تنظیموں نے
تائید بھی کی۔حال ہی میں مولانا ارشدمدنی نے یہ کہاہے کہ ہم نے این آر سی
اور سی اےاے کے احتجاج کی تائیدنہیں کی تھی،کیونکہ اس میں غیر مسلمین کا
سپورٹ نہیں مل سکااور جس تحریک یا احتجاج میں غیرمسلموں کا ساتھ نہ ہو اُس
کی ہم ہرگزتائیدنہیں کرینگے۔مگر کسان تنظیموں کے احتجاج کے سربراہ راکیش
ٹکیٹ نے واضح طو رپر کہاتھاکہ یہ جنگ نہ کسی مذہب کی ہے ،نہ ذات کی،نہ ہی
زبان کی،بلکہ یہ کسانوں کی جنگ ہے اور اس احتجاج میں تو نمائندگی سکھ سماج
کی رہی ہے،لیکن راکیش ٹکیٹ نے یہ کبھی نہیں کہاکہ ہم جاٹ،یادو،برہمن،دلت
وپسماندہ طبقات یا مسلمانوں کی تائیدکے بغیر احتجاج نہیں کرینگے۔ظاہرسی بات
ہے کہ جسے پیٹ میں درد ہوتو وہی دوائی لےگا،اگر این آر سی کے معاملے سے
مسلمانوں کے پیٹ میں درد ہورہاہے تو دوائی لینے کیلئے مسلمان کو ہی جانا
پڑیگا۔اگر ہم وطن بھائیوں کا انتظار کرتے بیٹھے گے تو اس کا جواب ہمیں نہیں
مل سکے گا۔زرعی قوانین کی منسوخی کے بعد آہستہ آہستہ مسلم تنظیموں کی
جانب سے یہ مطالبہ اٹھنےلگاہے کہ این آرسی اور سی اےاے کے قوانین کو بھی
منسوخ کیاجائے۔اس کیلئے مجلس مشاورت،جماعت اسلامی ہند،جمعیۃ علماء ہند سمیت
کئی تنظیموں نے آواز بلندکی ہے۔سوال یہ ہے کہ ان تنظیموں میں سے کونسی
تنظیم نمائندگی کریگی؟،بقول مولانا ارشدمدنی جب تک ہندواحتجاج میں شریک نہ
ہونگے اُس وقت تک وہ ان احتجاج کی تائید نہیں کرینگے۔اب یہ تنظیمیں کونسے
ہندوئوں کو ساتھ میں لائینگے اور اگر احتجاج کرتے بھی ہیں تو راکیش ٹکیٹ
جیسا لیڈر مضبوطی کے ساتھ آخردم تک لڑتا رہے گا،کیونکہ ہم سے بیشتر وہ
لیڈران ہیں جو بریانی کھاکر تقریروں کے دوران غیرمسلموں کو السلام علیکم
کہنے پر ہی ٹوٹ جاتے ہیں اور اُسے ہی اپنا لیڈر مان لیتے ہیں۔سجھ لیں کہ ہم
مسلمان احتجاج کررہے ہیں اور مودی آکر بھائیوں بہنوں السلام علیکم آپ کے
مطالبات پورے کرنے کیلئے غور کیاجائیگا اور آپ لوگ واپس لوٹ جائو،تو وہیں
پر مسلمان اپنا احتجاج ٹائیں ٹائیں فش کردینگے۔پہلے مسلمان ایک شخص کو اپنا
قائد بنائے پھر اس کے بعد مشاورتی کمیٹی بنا کر آگے چلیں،تب جاکر کہیں این
آر سی اور سی اےا ے کی تحریک کامیاب ہوسکتی ہے۔
|