بلدیاتی انتخابات کا شور شرابہ

 بچپن کی یادیں انمٹ ہوتی ہیں ، خصوصا وہ یادیں جو خوشگوار ہوتی ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بادل خوب برستے تھے اور جم کر بارش ہوتی تھی اورہمارے گاؤں کے کھیت بارش کے پانی سے بھرجاتے تھے تو رات کے وقت بہت سارے مینڈک ٹر ٹر ،ٹر ٹر کرنے لگ جاتے تھے ،مجھے ان کی آواز میں خاص قسم کی موسیقی محسوس ہوتی تھی اور میں اس سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا ۔ اگر چہ لطف اندوزی کا یہ عرصہ مختصر ہوتا تھا اور ان کی اس ٹر ٹر کا کو ئی فائدہ بھی نہیں ہوتا تھا مگر میں ان کے ٹر ٹر سے سرور ضرور حاصل کیا کرتا تھا ۔

موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔فیس بک پر لوگ نہ صرف آزادانہ طور پر اظہارِ خیال کرتے ہیں بلکہ یہ اب مفت اشتہار دینے کا ذریعہ بھی بن چکا ہے ۔ حال ہی میں جب الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا ہے ، تب سے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والوں نے انگڑائی لی اور جوں جوں وقت قریب آرہا ہے ۔ فیس بک پر نڈر،بے باک، دلیر ،مخلص اور پتہ نہیں اور کیا کیا صفات سے ہمکنار لوگوں کی بھر مار ہے ۔یار لوگوں کے ساتھ فوٹو گرافی بھی ہو رہی ہے کیونکہ آج کل ہر شخص کے پاس موبائل کی صورت میں کیمرہ بھی موجود ہے ۔ فیس بک پر ان کی سرگرمیاں دیکھ دیکھ کر مجھے اتنا ہی لطف و سرور محسوس ہو رہا ہے جتنا بچپن میں مجھے برسات کے موسم میں مینڈکوں کے ٹر ٹر کرنے سے آتا تھا ۔ مگر قتیل شفائی نے کیا خوب کہا ہے ،،،
’’ دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا ۔۔۔اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا ‘‘

ہمارے ہاں جب بھی الیکشن ہوں خواہ وہ عام الیکشن ہوں یا بلدیاتی الیکشن ، انتخابی مہم کے دوران بے شمار نڈر، مخلص، دلیر اور مسائل حل کرنے والے لوگ نظر آتے ہیں مگر الیکشن کے بعد چراغ لے کر ڈحونڈنے پر بھی ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا جوواقعی مخلص ہو، نڈر ہو، بے باک ہو اور ذاتی مفاد کی بجائے عوام کے مفاد کو مقدم سمجھتا ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک کے لئے بہت زیادہ اہمیت و افادیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات سے کسی بھی علاقے کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے نئی قیادت ابھرنے کو موقعہ ملتا ہے ۔ تیسرا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اختیارات کی مرکزیت ختم ہو جاتی ہے اگر چہ یہ فایدہ ہمارے ارکان صوبائی اسمبلی اور ارکانِ قومی اسمبلی کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور بلدیاتی انتخابات کرانے سے ہمیشہ پہلو تہی سے کام لیتے رہے ۔بلدیاتی انتخابات عموما فوجی حکمرانوں کے دور میں ہوتے رہے ۔ ناظمین کا نظام بھی ایک فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشّرف کا مرہونِ منّت ہے ۔حالانکہ بلدیاتی نظام کو حکومت کی ریڑھ کی ہڈی اور جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے ۔ جمہوریت میں بلدیاتی نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔بلکہ اسے جمہوریت کی روح سمجھا جاتا ہے ۔اس لئے اگر حکومت اور بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندے صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کو ترجیح دیں تو اگلے مہینے ہونے والے انتخابات عوام کے لئے باعثِ رحمت ثابت ہو سکتے ہیں ۔ مگر ماضی کی صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے ۔ ہر ہونے والے انتخابات میں مقابلہ کے لئے میدان میں اترنے والے امیدواران بڑے بلند باگ دعوے تو نظر ّتے ہیں مگر منتخب ہو نے کے بعد ان کے ارادوں پر اوس پڑ جاتی ہے بلکہ برف پڑ جاتی ہے ۔ ہم نے ان امیدواروں سے اتنی گزارش کرنی ہے کہ آج کل آپ لوگ جو اشتہارات فیس بک یا ہینڈز بلز کی صورت میں تقسیم کر رہے ،اس میں اپنے بارے میں جو خوبیاں اپنے آپ میں نمایاں طور پر درج کرتے ہیں ، منتخب ہو کر ان اشتہارات مں بیان کردہ صفات کو بھولنا نہیں ہے ۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کو شش کیجئے کہ عوام کے درمیان آپس میں رنجشیں اور نفرتیں پیدا نہ ہوں بلکہ انتخابات کو ایک معمول کی کاروائی سمجھ کر آگے قدم بڑھائیے ۔ ویلیج ، نیبرڈ ہڈ کونسل میں جنرل کونسلر، کسان کونسلر،خواتین،نوجوان، کسان اور اقلیت کونسل کے ممبران جمہوریت کے بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ حکومت کو انہیں بھی منتخب ہونے کے بعد اختیارات اور فنڈ دینے چا ہیئں ۔ تاکہ عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل ان کے دہلیز پر حل کئے جا سکیں ۔۔۔۔۔۔۔
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315703 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More