ہر نیا دن پاکستانی عوام کے لئے تازہ امتحان کا پیغام لے
کر آتا ہے، ایسی آزمائش جو اسے موت و حیات کی ہولناک کشمکش میں گرفتار
کردیتی ہے، وہ مصیبت جہاں دوائیں بے اثر ہوجاتی ہیں، زبان خاموش، لب بند،
آنسوئوں سے لبریز آنکھیں چاروں طرف سے بے یقینی و بے اطمینانی پر آسمان
کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہوں یا ہلاکت و
بربادی کے عبرت انگیز قصے، یا خفیہ سرگوشیاں، جن کے منکشف ہونے سے ہم سب
بخوبی واقف ہیں، قیام پاکستان سے لے کر حال تک غلامی کی مختلف اقسام کی
پریشان حالی کے دردناک کوائف سے ہم آگاہ ہیں، عوام نے ان سب کو سنا، دیکھا
نہیں لیکن، کچھ دیکھا بھی تو انہوں نے وہ سب کچھ بھلادیا جو سنا تھا کہ
بالآخر:
شنیدہ کے بود مانند دیدہ
تاریخ سے متعلق سنا تھا کہ ہم نے ایک گرجتا، بپھرتا، امڈتا، سونامی آتا
دیکھا کہ سیلاب آیا اور قوم کی قوم کو بہا لے گیا، شب تاریک کو سوتے میں
ہیبت انگیز طوفان بادوباراں نے چاروں طرف سے گھیرا اور جب صبح کاذب میں اٹھ
کر دیکھا کہ آبادیاں یوں ویرانے بن چکی تھیں کہ آندھی آئی اور ایک ثانیہ
میں فنا کرکے چل دی، قصہ ختم ہوا، مصیبت کٹ گئی، قوم مٹ گئی، اس کی جگہ
دوسری قوم نے لے لی، لیکن ایک عذاب یہ ہے کہ عوام ذلت و رسوائی، بے کسی و
بے بسی، غلامی و محکومی، افلاس و بے چارگی، انتشار کی لعنت میں گرفتاری سے
اب تک آزاد نہ ہوسکے اور اپنے تڑپنے کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے
ہیں، نہ زندگی نصیب ہوتی ہے نہ موت آتی ہے، یہ امتحاں تمام امتحانات سے
سخت اور یہ آزمائش تمام آزمائشوں سے زیادہ جانکاہ ہے۔
یہ سسک سسک کے مرنا غم ہجر میں بلا ہے
کوئی ظلم مجھ پہ ہوتا، مگر ایک بار ہوتا
چند خاندانوں نے اپنی تمام رسوائیوں کے ساتھ دولت کے انبار جمع کر رکھے ہیں
تو کچھ طاقتور اقربا کے بتاں سے کچھ ایسے محسور ہوئے کہ جیسے وہ بڑی بڑی
قوموں کو بھی اپنا دستِ نگر رکھ سکتے ہوں۔ عوام کی آشفتہ حالی کا اس پر
بھی یہ عالم ہے کہ ایں سوراندہ و آن سو درماندہ۔ تمام عمر تبدیلی کے
پیمانوں اور سیاسی نعروں کی صحرا نوردیوں میں کٹ گئی اور آج بھی اس وسیع و
عریض زمین پر اپنے مسائل کا حل اور سر چھپانے کی چھت نہ مل سکی، بایں ہمہ
بھوک اور افلاس کا عذاب تو نہ تھا، جس عذاب کا ذکر ہورہا ہے وہاں تو دنیا
بھر کی رسوائیوں اور تباہیوں کے ساتھ محتاجی اور مفلسی کی لعنت بھی مسلط
ہے، اس لئے ہم فقیدالمثال عبرت کا نشاں اور ہمارے مصائب بے نظیر ہیں۔ اور
حقیقت بھی یہ ہے کہ جو جتنی بلندی سے گرے، اُتنا ہی زیادہ چُور چُور ہو،
شکستگی و ریختگی بقدر اوج و رفعت ہوتی ہے۔
افراتفری کا یہ عالم کہ دولت لوٹی، عزت بٹی، شیرازہ بکھرا، اجتماعیت گئی
اور بدحالی یہ کہ ہمیشہ کی طرح انصاف کی دیوی اندھی کے ساتھ گونگی اور بہری
بھی بنی رہی۔ انصاف کی ایسی درگت کے تمام اعمال رائیگاں اور ہر کوشش بیکار
جارہی ہے،ان گنت تجربات درد کی طرح اٹھے، ہزاروں کوششیں صد بہار آغوش
ابھریں اور برگِ خزاں دیدہ کی طرح مرجھا کر مٹ گئیں، ایوانوںکے مناظر
دیکھتے دیکھتے ہر قدم منزل سے دُور لے جاتا گیا، ہر جنبش ساحل سے پردہ
ہٹاتی گئی، قانون کو کٹھ پتلی بنادیا گیا، غلام کی غلامی کی زنجیریں اور
زیادہ مضبوط ہوتی گئیں، مخالف کی قوت ان کی مانوس حرکت کے سبب بربادی کے
لئے ہجوم کرکے بڑھتی رہی اور خود انہی کے ہاتھوں انہیں تباہ کراتی رہی،
توبہ توبہ، غضب اور ایسا اندوہ غضب، گرفت اور ایسی سخت گرفت۔
ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری
ہم جمہوریت کے نام پر کس کس طرح کٹے اور کس کس انداز سے مٹے، یہ حدیث الم
دراز اور فسانہ غم طویل ہے، اسی بکھرے ہوئے قافلے اور لٹے ہوئے کارواں کی
آخری یادگار مشترکہ شوریٰ کا ایوان بنا، جن سے کبھی کچھ کچھ امیدیں وابستہ
ہورہی تھیں، بالآخر وہ بھی باقی نہ رہی۔
صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تُو نے اے بادِ صبا
یادگارِ رونقِ محفل پروانے کی خاک
سیاست کے سُرخیلوں کو یہی مشورہ ہے کہ کچھ دنوں کے لئے اعتکاف کریں، جس میں
اپنے ضمیر کا تزکیہ نفس کرسکیں، وہاں اپنی جماعت کے صحیح مقاصد کی وضاحت سے
ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ان کی طرف سے پاکستانی عوام میں پیدا ہوگئی
ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ اگر ہم سنجیدہ ہوجائیں تو کوئی عظیم الشان خطرہ
درپیش ہوگا، گو عوام کو اب یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اتنا بھی دریافت کرسکیں
کہ وہ کون سے قابل اعتماد ذرائع تھے، جن سے اربابِ اختیار کو معلوم ہوگیا،
کچھ کیا جانا ضروری ہے کہ جو کچھ کیا گیا وہ وقت کا نازک ترین سوال بن جائے
گا، ہر ممکن تدبیر کی جارہی ہے کہ کسی قسم کی مزاحمت نہ ہونے پائے، لیکن یہ
سب قطعاً انفرادی نہیں بلکہ یہ سب کچھ مدت سے ہورہا ہے، اس کے لئے منظم
طریقِ عمل اختیار کیا جاتا ہے۔
میری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی
میں حرف زیرِ لب شرمندۂ گوشِ سماعت ہوں |