محترم قارئین کرام: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آر ایس ایس
کی بی ٹیم یعنی کہ بی جے پی جو اس وقت اقتدار پر قابض ہےاس کے رنگ ماسٹر نے
کسانوں پر تھوپے گئے زرعی قوانین کواچانک واپس لینے کا اعلان کردیا ہے۔ جس
سے پورے بھارت میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے خصوصاً کسانوں کے چہرے خوشی
سے کھل اٹھے ہیں ۔لیکن آپ کو زیادہ حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ اچانک مودی
اینڈ کمپنی نے یوٹرن کیوں لے لیا ہے؟دراصل گذشتہ کچھ ریاستوں کےانتخابات کے
نتائج پر غور کیا جائے تو آپ کو سمجھ آجائے گا کہ اچانک یوٹرن لینے کی
وجہ کیا تھی۔ہماچل پردیش اور دیگر ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج نے
آر ایس ایس اور بی جے پی کی قلعی کھول دی ہے ،نتائج ضمانت ضبط کرنے والے
تھے یعنی کہ عوام اورخصوصاً کسانوں کے علاقوں میں بی جے پی کوجو کراری شکست
ملی ہے اس نے مودی اینڈ کمپنی کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے اور یہی وجہ ہے
کہ یوپی میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے پیش نظر ہونے والی کراری ہار کے
خوف اورڈر کی وجہ سے اس طرح کا فیصلہ لیاگیا۔ورنہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے
مودی اینڈ کمپنی اقتدار پر قابض ہوئی ہے تب سے لے کر اب تک ایک کہرام مچا
ہوا ہے۔ نا سب کا ساتھ دیاگیا او رنہ ہی کسی کا وکاس ہوا ہے۔بیروزگاری میں
اضافہ،بھکمری میں اضافہ،غیر ضروری قانون،طلاق ثلاثہ،سی اے اے اور این آر
سی کو لاگو کر کرکے مسلمانوں اور اقلیتی طبقوں کو صرف ہراساں کیاگیا،شدت
پسند ہندئووںکوبھڑکا کر فسادات کروائے گئے، مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونس
دیاگیا۔لوجہاد،گائے کے نام پر قتل وغارت گری،تبلیغی جماعت، ذاکر نائیک پر
پابندی اور دیگر دین کے قلعوں پر پابندیاں،نوٹ بندی کے علاوہ کرونا وبا میں
ہر محاذ پرصرف ناکامیابی ونامرادی ہی مودی اینڈ کمپنی کے ہاتھ آئی ہے
۔قانون واپس لینے کے بعد ایک بات تو بالکل صاف ہوگئی ہے کہ بی جے پی کو صرف
اور صرف اقتدار چاہئے کرسی چاہئے اور اسرائیلی لابی، دجالی لابی پر عمل
پیرا ہوتے ہوئے اس ملک کو ہندوراشٹر بنادیا جائے۔لہذا آپ مودی کے کسان بل
واپس لئے جانے والی تقریر کو دیکھئے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کسانوں کو ہماری
بات سمجھ نہیں آئی ہے ہم ان کے فائدے کے لئے ہی یہ سب کررہے تھے۔اگر مودی
اینڈکمپنی کو واقعی ملک کی کسانوں کی فکر رہتی ،فائدے کی فکر رہتی تو آج
ملک کی یہ درگت نہ بنی ہوتی۔جبکہ اگر آپ ان قوانین کا مطالعہ کریںتو یہ
بات سمجھ آئے گی کہ زرعی قوانین صرف اور صرف کارپوریٹ گھرانوں کومزید
مالدار بنانے اور کسانوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے بنائے گئے تھے۔ آپ کو پتہ
ہونا چاہئے کہ ان قوانین کے تحت اناج کی سرکاری منڈیوں کو نجی تاجروں کے
لیے کھول دیا گیاتھا جب کہ اناج کی ایک مقررہ قیمت کی سرکاری ضمانت کے نظام
کو ختم کر دیا گیاتھا۔ اس کی جگہ کسانوں کو اپنا اناج کہیں بھی فروخت کرنے
کی آزادی دی گئی تھی جو کہ کسانوں کے لئے نقصاندہ تھی۔اس بہکاوے میں بہت
سارے کسان آبھی گئے تھے لیکن بہت جلد ان کی عقل بھی ٹھکانے آگئی تھی۔اس
کے علاوہ کنٹریکٹ کھیتی کا بھی نظام شروع کیا گیا تھا جس کے تحت تاجر اور
کمپنیاں کسانوں سے ان کی آئندہ فصل کے بارے میں پیشگی سمجھوتہ کر سکتی
ہیں۔جیسے کہ کارپوریٹ گھرانوں کی کمپنیاں کسانوں کو صرف ایک ہی قسم کے اناج
اگانے کے لئے مجبور کرسکتی ہے۔ان قوانین کے حوالے سے کسانوں کوڈرتھا کہ
سرکاری منڈیوں کی نجکاری سے تاجروں اور بڑے بڑے صنعتکاروں کی اجارہ داری
قائم ہو جائے گی اور مقررہ قیمت کی سرکاری صمانت نہ ہونے کے سبب انہیں اپنی
پیداوار کم قیمت پر فروخت کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔اور اس کے علاوہ
کسانوں کو یہ بھی خدشہ تھا کہ بڑے بڑے صنعتکاربہت جلد ان کی زمینوں پر قبضہ
کر لیں گے۔ وہیں دجالیوں ،آر ایس ایس نوازوںکا کہنا تھا کہ ان قوانین سے
کسانوں کو کھلی منڈی حاصل ہو جائیں گی جس سے وہ اپنی پیداوار کی بہتر قیمت
حاصل کر سکیں گے۔جبکہ کسان دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ
ان قوانین سے صرف اور صرف گھاٹے اور خسارہ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔جب
کہ مودی اینڈ کمپنی کہہ رہی ہے کہ کسانوں کو اس قوانین کے فائدے سمجھ نہیں
آئے ہیں او ریہی وجہ ہے کہ مودی نے اپنی بات من کی بات بی جے پی کے ہی
لیڈر اور بہار کے وزیر زراعت امریندر پرتاپ سنگھ سے کہلوائی ہے اور انھوں
نے کہا ہے کہ زرعی قوانین ابھی واپس ضرور لے لیا گیا ہے، لیکن آنے والے وقت
میں اسے پھر سے نافذ کیا جائے گا۔ایک رپورٹ میں امریندر پرتاپ سنگھ کے
حوالے سے کہا گیا ہے کہ زرعی قوانین کا پنرجنم (دوبارہ پیدائش)ہوگا۔ وزیر
اعظم نریندر مودی کا دل بھی بہت بڑا اور ان کی شخصیت بھی بہت بڑی ہے۔ وہ
جلد ہی کسانوں کے چھوٹے گروپ کو سمجھانے میں کامیاب ہوں گے۔ کچھ کسان ہی
قانون سے ناخوش تھے، باقی نے بخوشی قانون کو قبول کر لیا تھا۔ ایسے میں جو
ناخوش تھے، انھیں سمجھانے کی کوشش ہوگی۔یعنی کہ ایسا سمجھا جائے کہ قانون
واپسی کا معاملہ ایک چال اور سازش ہے جسے الیکشن کی حد تک استعمال کیا جائے
گا اور اگر الیکشن کے نتائج ضمانت ضبط کرنے والے رہیں تو ہوسکتا ہے قانون
دوبارہ نافذ کئے جاسکتے ہیں۔ویسے راکیش ٹکیٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم اپنی
تحریک ختم نہیں کررہے ہیں انھوں نے کہا کہ جس طرح سے پارلیمنٹ میں قانون
منظور کیاگیا بالکل اسی طرح پارلیمنٹ میں ہی قانون کورد کرنے کی قرارداد
پاس کی جائے تب ہی ہم اپنی تحریک ختم کریںگے۔ ایم ایس پی سمیت کسانوںکے
جملہ مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتاہے اس وقت تک کسان پیچھے نہیں ہٹے گیں،
اتنا ہی نہیںکسانوں نے اس تحریک میں مرنے والے تقریباً چھ سو کسانوں کے لئے
معاوضہ اور سرکاری ملازمت کا مطالبہ کیاہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ مودی سرکار اور حکومت کو کنٹرول کرنے والے کارپوریٹ
گھرانوں کی ہار ہے ،ہندوراشٹر کا خواب دیکھنے والو ںکی ہار ہےآر ایس ایس
کی ہار ہے۔ اس مرتبہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی حکومت کو عوام نے سبق
سکھانے کا ذہن بنا لیا ہےیوپی میں آئندہ انتخابات میں اپنی شکست اور ڈر کی
وجہ سےحکومت نے کالے زرعی قوانین کو امجبور ہوکر واپس لینے کا اعلان کیاہے،
اگر ان قوانین کو پہلے ہی واپس لے لیا جاتا تو کسانوں کی اتنی اموات نہیں
ہوتی۔ویسے ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسان برادری اس سے پہلے بھی 3 بار
دہلی میں بیٹھے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکی ہے۔ تاہم موجودہ
تحریک ان تینوں میں سب سے طویل چل رہی تھی۔1907میں، شہید اعظم بھگت سنگھ کے
چچا اجیت سنگھ کی”پگڑی جٹا“لہر کے علاوہ، سر چھوٹورام اور مہندر سنگھ ٹکیت
نے بھی اس وقت کی حکومتوں کو کھیتی سے متعلق قوانین کو واپس لینے پر مجبور
کیاتھا۔اور ساتھ ہیکسان آندولن کی قیادت کو سلام کرنا چاہوگا کہ جس
بردباری ہوشیاری اور شجاعت ودلیری کے ساتھ راکیش ٹکیٹ نے اپنی ذمہ داریاں
نبھائی ہیں وہ آنے والے ہر اس آندولن اور تحریک کے لئے ایک مثال بن گئے
ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بات کہنے میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے کہ کسانوں کو
اپنی لڑائی لڑنے کی تحریک شاہین باغ سے ہی ملی تھی کہ اگر کسی جائز مقصدکے
لئے ایمانداری اور صبرواستقلال کے ساتھ کوئی تحریک چلائی جائے تو ایک نہ
ایک دن کامیابی مل کر رہتی ہے، شاہین باغ میں کالے قوانین کے خلاف جب حق
انصاف کے لئے خواتین یہاں تک کہ بزرگ خواتین دن رات سڑکوں پر بیٹھی رہیں،
اس تحریک میں شامل ہونے والوں پر جبرواستبداد کے پہاڑتوڑے گئے، سیکٹروں
لوگوں کو سنگین دفعات کے تحت معتوب کیا گیا، لیکن اس تحریک کو توڑایاختم
نہیں کیا جاسکا۔لہذا اب وقت ہے کہ دوبار ہ شاہین باغوں کو ملک کے کونے کونے
میں دوبارہ آباد کرنا ہوگا۔وہی ہمت اور استقامت کے ساتھ دوبارہ کھڑے ہونا
ہوگااور سی اے اے اور این آرسی کو بھی ختم کرواکر دم لینا ہوگا۔کیونکہ جس
تحریک سے دوسرے لوگ سبق لے رہے ہیں اس تحریک کو دوبارہ زندہ کرکے اپنی بات
منوانی ہوگی ورنہ ظالم کے ظلم پر خاموش بیٹھے رہنا کچھ لب کشائی نہ کرنا
اپنے حق کی بات نہ کرنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے خانے میں ہی شمار کیا
جاتا ہے۔ این آر سی ہی نہیں بلکہ دیگر اور مظالم کے خلاف بھی ہم سب کو بلا
لحاظ مذہب وملت اور مذہب ومسلک کلمہ کی بنیاد پر اکٹھا ہونا ہوگا ایک مٹھی
بننا ہوگا اور اپنے حق کو منوانا ہوگا تب کہیں جاکر ہم اپنے مطالبات منوانے
اور جمہوری آزادی میں چین وسکون سے جی پائیںگےاور آئندہ نسلوں کے لئے
مشعل راہ بنیں گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ سارے عالم کے مسلمانوں کی خصوصاً بھارت کے مسلمانوں
کی جان مال عزت وآبرو کی حفاظت فرما۔ظالم وجابر حکمرانوں کو یا تو ہدایت
دے دے یا پھر انہیں عبرت کا نشان بنادے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو اپنی کھوئی
ہوئی عظمت وقار کے لئے،جذبہ ایمانی ،بردباری،تدبکر وتفکر کے ساتھ اللہ پر
کامل یقین کے ساتھ ہر شعبہ میں محنت کرکے اپنا حق لینے کی توفیق عطا فرما۔
|