امریکہ نے افغانستان کے مرکزی بینک کے 9ارب ڈالر کے اثاثے
منجمند اور طالبان حکومت پر پابندیاں عائدکر کے یہ تاثر دیا کہ اگر اس سرما
میں دو کروڑ افغان عوام خوراک کی قلت کی وجہ سے مر بھی جائیں تو یہ معصوم
عوام سے اس کا خطے پر بالادستی قائم نہ کر سکنے کا انتقام ہو گا۔ دشمنان
پاکستان کبھی افغانستان کو اسلام آباد کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔
کبھی انڈیا کے بعد افغانستان سے بھی پاکستان کا پانی بند کرنے کی منصوبہ
بندی ہورہی تھی۔ جس سے مستقبل میں پانی کا بحران شدید ہو سکتا تھا۔ عمران
خان حکومت پانی کے مسلہ پرخاطر خواہ توجہ نہیں دے سکی ہے۔اس کی بڑی مثال
افغانستان سے پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کی تقسیم پرکسی معاہدہ کا نہ
کیا جانا ہے۔ افغانستان سے پاکستان کی جانب 7دریا بہہ رہے ہیں۔ مگر ان کے
پانی کے استعمال کا کوئی مشترکہ ٍطریقہ کار موجود نہیں۔بھارت کے اکسانے پر
افغانستان کابل اور کنڑ دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر رہا تھا۔ دریائے کابل
700کلو میٹر طویل ہے۔ جس میں سے 140کلو میٹر پاکستان میں رواں دواں ہے۔
سکندر اعظم نے ہندوستان پر حملے اسے راستے سے کئے۔ یہ پاک افغانستان کے
درمیان قدرتی راہداری ہے۔دریائے کابل افغان شہروں کابل، سروبی، جلال آباد
اور پاکستانی شہرو ں پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ سے گزرتا ہوا اٹک کے قریب
دریائے سندھ میں آ ملتا ہے۔ اس پر کابل اور ننگر ہار صوبوں میں کئی ڈیم
تعمیر کئے گئے ہیں۔ پاکستان نے اس پر ورسک ڈیم تعمیر کیا ہے۔
بھارت دریائے کابل کا رخ موڑنے یا اس کا بہاؤ کم کرنے میں افغانستان کی
سرپرستی کر رہا تھا۔ وہ اس دریا پر کم از کم 12 ڈیم تعمیر کرنے کی ابتدائی
رپورٹ مکمل کر چکا تھا۔ جس سے بظاہر بجلی اور آبپاشی کے منصوبے تیار ہونے
تھے۔ بھارت نے جس طرح راوی کے بعد کشن گنگا ڈیم منصوبے کے لئے دریائے نیلم
کا پانی روک لیا اسی طرح دریائے کابل کا پانی بھی بند ہو جا تا۔ دریائے
نیلم تاؤ بٹ کے مقام پر ایک نالے کی صورت میں آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے۔
دریائے کابل کا بھی یہی حال ہونا تھا۔ فارن پالیسی جریدے کی رپورٹ نے مزید
تشویش پیدا کر دی ،جس کے مطابق دریائے کابل کا بہاؤ کم ہونے سے پاکستان
2040تک خطے کا سب سے زیادہ بحران والا ملک بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بھارت
چاہتا تھا کہ ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر سے افغانستان کا پاکستان
پر انحصار مزید کم ہو جائے۔ افغانستان کا بھارت کے ساتھ براہ راست رابطہ
قائم تھا۔ ماہرین بھی خبرادر کر رہے ہیں کہ دریائے کابل پر ڈیموں کی تعمیر
سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو ں گے۔ جن میں پانی کا رخ بدلنے، پانی کی
کمی، پانی کا ضیاں، پانی کی آلودگی، آبپاشی مسائل، ماحولیاتی آلودگی،
سیلاب، خشک سالی، اور دیگر مسائل قابل ذکر ہیں۔
جس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے
استعمال کا طریقہ کار طے پایا ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان میں بھی
معاہدہ کی ضرورت ہے۔ گو کہ سندھ طاس معاہدہ سے بھی تسلی بخش نتائج حاصل
نہیں ہو سکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں پانی کا تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ تا
ہم کسی حد تک دونوں ممالک نصف صدی تک اس میدان میں امن کی جانب گامزن رہے
ہیں۔
اب جب کہ انڈیا دریاؤں کا رخ موڑ رہا ہے یا پانی کو روک رہا ہے تو کشیدگی
بھی بڑھنے لگی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان میں بھی کوئی مسلہ نہ
تھا۔ انڈیا نے اپنی پالیسی افغانستان کو منتقل کی تو پاک افغان تعلقات میں
بگاڑ پیدا ہوا۔ شاہ توت ڈیم کا معاملہ پر امن طور پر حل ہو سکتا ہے۔ مگر اس
کے لئے کسی آبی معاہدہ کی ضرورت ہے۔ فارن پالیسی کے مطابق افغانستان کے
دریا انڈیا کے پاکستان کے خلاف اگلے ہتھیار بن سکتے تھے۔ بھارت ہی ان
دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر کے لئے فنڈنگ کر رہا تھا۔ پاکستان اور افغانستان
میں پہلے سے ہی کشیدگی تھی۔ پاکستانی پولیس آفیسر اسلام آباد سے اغواء اور
افغانستان میں قتل ہوا۔ پھر نعش کی واپسی میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔جس نے
ماحول کو تناؤ میں بدل دیا ۔ دریائے کابل پر شاہ توت سمیت ایک درجن ڈیموں
کی تعمیر نے اسلام آباد کو تشویش میں مبتلا کیا ۔ برفباری اور طویل خشک
سالی پانی کو تقریباً نایاب کر دیتی ہے۔ پاکستان کے دل پنجاب تک میں پانی
کا بڑا مسلہ پیدا ہو چکا ہے۔ جہاں زمین میں میٹھے پانی نایاب ہے۔ لوگ کھارا
پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ پینے کے لئے بند بوتل پانی استعمال
کیا جا رہا ہے۔
دریائے کابل پر لاکھوں کی آبادی کا انحصار ہے۔ پشاور، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل
خان، بنوری، شمالی وزیرستان اس دریا اور اس کے معاون دریاؤں کے رحم و کرم
پر ہیں۔ 250میگاواٹ کا ورسک ڈیم کو بھی اسی کا سہارا ہے۔ دریائے کابل کا
پانی مزید کم ہوا تو پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ جیسے زرخیز اضلاع میں زرعی
پیداوار بری طرح متاثر ہو گی۔ بھارت نے پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے دریاؤں کا رخ موڑ دیا یا ان کا پانی بند کر دیا ہے۔
پاکستانی معیشت کی تباہی کے لئے افغانستان کے دریاؤں کا پانی روکا جا رہا
تھا۔ بھارت نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے جنگ زدہ خطے
میں ڈھانچے کی تعمیر شروع کی۔ پاکستانی سرحدوں کے قریب اپنے فوجی اور
جاسوسی نیٹ ورک قائم کئے۔ پاکستان میں دہشتگردی کا ڈھانچہ کھڑا کیا۔
پاکستان کو کمزور کرنے کا ہر حربہ آزمایا۔ پاکستان کو مشرق اور مغرب سے
گھیرنے کی منصوبہ بندی کی۔ بنگلہ دیش کے بعد افغانستان میں پاکستان دشمنی
کے بیج بوئے۔اب جب کہ طالبان حکومت آ گئی ہے جو کبھی بھی پاکستان دشمنوں کا
ہتھیار نہ بنے گی مگر پاک افغان آبی معاہدہ کی ضرورت ہے۔اس کی عدم موجودگی
میں پاکستان دشمن طاقتیں اور ان کے مہرے پاکستان کے خلاف کھل کر کام کرنے
کا موقع پا لیتے ہیں۔ جس طرح پاکستان نے بہت دیر سے نیلم جہلم پروجیکٹ شروع
کئے اسی طرح دریائے چترال پر بھی چند منصوبے شروع کئے۔دریاؤں کا رخ موڑنے
کے بجائے چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کرنا زیادہ بہتر آپشن ہو سکتا ہے۔ اگر چہ
افغان صوبہ کنڑ کی طرف پانی کے بہاؤ کو متاثر نہ ہونے دینے کی کوشش کی گئی
تا ہم دریائے کابل کا پانی بند کرنے کی کسی سازش سے پاکستان میں آبی بحران
میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں امن، ترقی اور
خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ پاکستان ترقی کرے گا تو افغانستان میں بھی
ترقی ہو گی۔دونوں ممالک مل کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام
آباد ،افغانستان پر سے پابندیاں ہٹانے اور اثاثے بحال کرنے کی بڑے پیمانے
پر سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔
|