تحریر: روبینہ شاہین، لاہور
زندگی معاشرے سے جڑا ہوا ایک اٹوٹ انگ ہے۔ ہم زندہ ہیں تو ہمیں معاشرے اور
اپنے ساتھ جڑے ہوئے رشتوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے چاہے وقت کوئی بھی حالات
کوئی بھی ہوں ، معاشرے اور رشتوں سے علیحدہ ہو جائیں تو جذبوں کے ساتھ
انسان بھی مر جاتے ہیں۔
آج سے کچھ سال پہلے کا دور مشینی دور کہلاتا تھا لیکن آج تو دور ان مشینوں
سے بھی کہیں زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کا دور بن گیا اب تو مشین
نہیں چلانی پڑتی صرف فنگر ٹپس اور انگوٹھے کا نشان ہی زندگی کو دوڑانے
کیلئے کافی ہے۔ صرف پوسٹ اور باتیں شیئر ہو جائیں تو کافی مگر عمل ہماری
زندگی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سوچ اور عمل کو لے
کر ساتھ چل رہے ہیں۔ایک بزرگ راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک جواں سال لڑکے نے
ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی پہنی تھی۔شفقت سے پوچھتے ہیں بیٹا یہ انگوٹھی
کیوں پہنی ہوئی ہے۔ لڑکا مسکرا کر بابا جی سے مخاطب ہوا۔ بابا جی یہ عقیق
کا پتھر ہے پتہ نہیں آپ کو یہ سنت رسول ہے۔ اچھا بیٹا یہ سنت رسول ہے۔
بابا جی مسکرائے بیٹا صرف پتھر پہن کر ثابت کرتے ہو سنت رسول یا عمل بھی
کرتے ہو۔ کیا مطلب بابا جی۔ لڑکے نے حیران ہو کر بابا جی کو دیکھا۔ مطلب یہ
ہے بیٹا ماں اور باپ کی خدمت کرتے ہو، دوسروں کو معاف کرتے ہو، کسی کا
راستہ روک کر اس کی زندگی میں تنگی تو پیدا نہیں کرتے، دوسروں کی زندگیوں
کو آسان بناتے ہو، راستے سے پتھر اٹھاتے ہو، کیا یہ سنت رسول نہیں۔
بابا جی نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس لڑکے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے
کہا ہم خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہمیں پریکٹیکل اسلام ملا ہے۔ سنت صرف وہی ہے جو
آپ کا دماغ کہتا ہے یا وہ تمام تعلیمات بھی سنت رسول ہیں جو ہمارے نبی کریم
ؐ نے ہمارے لئے مشعل راہ بنائیں۔ مسلمان ہونے کیلئے تو صرف پانچ ارکان
ماننے ضروری ہیں۔ کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ اور آپ کو سندمل جائے گی۔
آپ مسلمان ہومگر مکمل انسان اور مکمل مسلمان بننے کیلئے آپ کو سنت رسول پر
عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ فرض، سنت اور نفل کو ان کی اپنی جگہ پر اہمیت
دینا اور عمل کرنا سنت ہے۔ آپ کبھی نفل کو سنت اور فرض کی جگہ پر نہیں لے
جا سکتے۔
اسلام نے تو زندگی کے ہر شعبے کو برملا واضح کر دیا ہے۔ ہماری سوسائٹی
پریکٹیکل طور پر اخلاقی لحاظ سے تباہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایمانداری میں ہمارے
ملک کا 162نمبر ہے۔ ہم نے پریکٹیکل کو کبھیpriority نہیں دی۔ اگر ہمارا عشق
ہمارے رسول سے ہے تو ہم ان کو پڑھتے کیوں نہیں۔ اس طرح کا باب تو دنیا کی
تاریخ میں نہیں ملے گا جو بیٹی کیلئے چادر بچھاتا ہوتا ہو۔ جہاد بڑا ضروری
ہے لیکن اس صحابی کا واقعہ بھی ہے جس نے کہا میرے ماں باپ بیمار ہیں۔میں
جہاد میں حصہ نہیں لے سکتا۔
آپ نے فرمایا جا جا کر ان کی خدمت کر۔ یہ بتا دیا کہ والدین کی خدمت جہاد
سے افضل ہے۔ جب تک آپ پریکٹیکل نہیں ہو تب تک کچھ نہیں ہونے والا دنیا میں۔
سب سے زیادہ اہمیت ہمارے نبی کریمؐ ہیں۔ دین تو آسانی پیدا کرتا ہے خیر کا
رستہ اور میانہ روی دیتا ہے۔ اﷲ کو بھی یاد رکھو اور دنیا داری بھی پوری
کرو، کماؤ حلال کا رزق، خاندان کا حق ادا کرو۔ اگر آپ اﷲ کو حاضر ناظر جان
کر یہ کہتے ہو کہ میں سچا ہوں تو آپ کے ذہن کی سوچ ہے۔ یقین کریں انسان کی
کھال اتارنی آسانی ہے مگر اپنی سوچ صحیح کرنا مشکل۔ آپ آپ خود کو حق پر
سمجھتے ہیں مگر پانچ سال بعد پتہ چلے آپ غلط تھے۔ صرف سننا پڑھنا اور تبلیغ
کرنا ہی دین نہیں بلکہ عملی کردار دین ہے۔ اپنی سوچ کو اتنا تنگ نہ کرو کہ
آپ ان معاملات کو جو اﷲ کی ذمہ داری ہے، اس پر جج کرنا شروع کر دیں۔ اﷲ کے
کام اﷲ پر چھوڑیں، کسی کو یقین نہیں کہ وہ بخشا ہوا ہے مگر صرف ہمیں اﷲ پر
یقین رکھنا ہے کہ ہم جیسے بھی ہیں جو بھی ہیں، اس کی رحمت لامحدود ہے وہ
ہمیں بخش دے گی مجھے معاف کر دے گی۔ اس پر یقین رکھو تو اپنے روپے میں بھی
تبدیلی پیدا کرنا چاہیے۔
ایک عمل جس سے دین کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر کلمہ اس سے دین کو فرق پڑتا
ہے۔ ایک بندہ سب کچھ کرتا ہے مگر ماں باپ کا گستاخ ہے، کچھ نہیں ہے گھاٹے
کا سودا ہے۔ تمام پریکٹیکل چیزوں کو پڑھیں اور سمجھیں کہ حق کیا ہے، قربانی
کیا ہے، زندگی کس کے نام گزارنی چاہیے۔
مگر آج کی دنیا نے روایتوں کو زندگی بنا دیا ہے جہاں ہماری معاشرتی روایات
آ جاتی ہیں وہاں دین کی پریکٹیکل اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ ہم ہر رسم و رواج کو
اپنی سوچ کے مطابق بدل کر اپنی مرضی کا دین بنا دیتے ہیں۔ ان سب سوچوں اور
پریکٹیکل حالات کا دوسروں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ہمیں کبھی احساس بھی نہیں
ہوتا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ کا دائرہ بدل کر اپنے اعمال کو
بھی صحیح راستے پر لے کر چلیں تاکہ ہمارے ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی آسان
ہوں ۔ ہم مکمل مسلمان ہیں یہ ہمیں دنیا کے سامنے ثابت کرنا ہے صرف اپنے
صحیح اور نیک اعمال سے۔
|