گھر

تحریر۔۔۔غزل میر
گھر وہ جگہ ہے جہاں اکثر ہمارا بچپن گزرتا ہے اور ایک پھر ایک وقت آتا ہے جب ہم اپنا گھر بنانے کی خواہش رکھتے ہیں غلط اور صحیح میں کیا فرق ہے یہ سیکھ کر ایک ایسا گھر بنانے کی خواہش جس میں ایک بہتر زندگی گزرے۔ گھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم اپنی مرضی کے اصول بناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مکان اینٹوں سے اور گھر انسانوں سے بنتے ہیں۔ اس بات میں صرف سچائی ہے اگر گھر میں ایک دوسرے کی حدود کو جانتے ہوئے انہیں پار نہ کیا جائے تو، اور یہ ایک آسان کام نہیں جبکہ ہر انسان کی فطرت میں فرق ہے اور وقت کے ساتھ اس کی سوچ بھی بدلتی ہے۔ جس گھر میں انسانوں کا اضافہ ہوتا ہے اس گھر میں اکثر مسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اکھٹے رہنے کی خواہش نہ بھی ہوتو گھر کے خرچے کیلئے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ محبت آپس میں ہو سکتی ہے ایک ساتھ رہنے پر لیکن بعض دفعہ دور رہ کربھی تومحبت اکثر بڑھ جاتی ہے۔تو پھر ایک ساتھ رہنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ جہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو بزرگوں کی مدد کرے اکثر ان معاشروں میں بزرگ بیٹے اور بہو کی ذمہ بن چکے ہیں۔ اور جن کے ہاں بیٹے نہیں صرف بیٹیاں ہیں وہ اس معاشرے میں اکیلے گزارا کرتے ہیں، معاشرہ انہیں بے چارہ قرار دے چکا ہے، بیٹیوں کے والدین ہونا اس وجہ سے ایک ’’ نیچ‘‘ کے طبقے سے ہونے جیسا بن چکا ہے۔ پھر یہ بات بھی سننے کوملتی ہے کہ داماد بھی تو بیٹوں جیسے ہوتے ہیں، لیکن ’’گھر داماد‘‘ لفظ کو بھی شرمناک مانا جاتا ہے۔ ان ماں باپ کو سر جھکائے زندگی بسر کرنی پڑتی ہے اور بیٹیوں کو ذمہ داری ساتھ رہ کر بھی اکیلے اٹھانی پڑتی ہے۔ میرے مطابق خرچہ پورا کرنے کا سب سے بے وقوفانہ حل ہے جوائنٹ فیملی سسٹم۔ میرا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ جو لوگ ہنسی خوشی اکٹھے رہنے کے عادی ہیں، وہ الگ ہو جائیں، جبکہ الگ ہونے پر بھی یقیناً مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اکٹھے رہنے کی وجہ صرف گھر کاخرچہ ہو جس کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسا سسٹم بن جائے جس میں بعض لوگوں کیلئے مسائل ختم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں، اس بات سے میں اختلاف کرتی ہوں۔ایک زندگی ہے جس کے قیمتی لمحے رشتوں کی ایک ایسی قید میں گزرے جہاں یا تو دل پر بات لے کر ہونت سیئے ہوئے لمحے گزارو یا دن رات بحث میں۔ یہ کچھ جوائنٹ فیملی سسٹم کا ایک کڑوا سچ ہے۔ دو انسان جب آپس میں شادی کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں تو اکثر ہم کہتے ہیں کہ دو خاندانوں کا ملن ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس بات میں سچائی نہیں۔ ہاں جو شادی کے رشتے میں بندھ رہے ہیں ان کا تعلق دونوں خاندانوں سے یقیناً رہتا ہے۔اگر میں موضوع’’گھر‘‘ پر واپس آؤں تو ایک دوسرے کے گھر میں پوچھے بغیر آنے کا سلسلہ بھی مسائل پیدا کرتا ہے۔ گھر انسان بہت محنت سے بناتا ہے، اس گھر کے ساتھ جڑی صرف خواہشات ہی نہیں احساسات ہوتے ہیں جن کی حد پار اگر کوئی بھی کرے اس گھر میں رہنے والے انسان کیلئے وہ گھر گھر نہیں رہتا۔ اور وہ رشتہ (بے شک خاندانی ہو) تعلق میں دراڑ پیدا ہونے کے بعد ویسا نہیں رہتا۔
یہ غزل میں نے ایسے ایک رشتے کے بارے میں لکھی تھی جس میں محبت ایک خود غرض جذبہ ہے۔
یہ محبت بھی تو اپنے لئے کرتے ہیں ہم
’’زندگی بسر نہ کریں گے آپ ہمارے ساتھ‘‘ اس سوچ سے ڈرتے ہیں ہم
یہ غم نہیں ہے، ڈر ہے اکیلے پن کا واحد
یہ ہے خودغرضی جو ان کیلئے لڑتے ہیں ہم
ہم تو پانا چاہتے آپ کو! دوطرفہ عشق کہلائے گا وہ
’’سمجھوتہ نہیں ہے عشق‘‘ ان کی ان باتوں سے بھی ڈرتے ہیں ہم
قصہ مکمل نہ جوہوگا کبھی بھی
ایسے دیوانے افسانے روز پڑھتے ہیں ہم
کہتے تو ہیں وہ لڑو عشق کیلئے
جنگ ہے یہ اپنے دفاع کیلئے جس میں روز مرتے ہیں ہم
آخر میں میں ملتان کے ایک معروف شاعر پروفیسر نسیم شاہد کی ایک ایسی نظم سے اپنا کالم ختم کررہی ہوں جو ایک ایسے گھر کے بارے میں جس میں نہ تو کوئی خود غرضی ہے نہ ہی مسائل۔
چلو اس شہر میں دونوں
اک ایسا گھر بناتے ہیں
جو اقلیم محبت ہو
جہاں سب کچھ میسر ہو
محبت بھی مروت بھی
کوئی دیوارہوحائل
نہ ظلمت درمیاں آئے
اناکی آندھیاں اتریں
نہ خودغرضی جگہ پائے
کبھی جب روٹھ جاؤتم
میں خودکوبے زباں پاؤں
تمہیں جب زخم آئے تو
میری وہ ٹیس بن جائے
خلوص دل سے ہم اس کی
یہاں بنیادرکھتے ہیں
محبت کاسہانا اک نگرآبادکرتے ہیں
چلواس شہر میں دونوں
ایک ایسا گھربناتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.