کتاب" اٹکھیلیاں"پر ایک نظر

 ڈاکٹر ذوالفقار علی گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ،اصغرمال راولپنڈی میں شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ان کا آبائی تعلق فیصل آباد سے ہے۔انہوں نے ایم اے اور ایم فل اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے کیا جبکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی ۔ اٹکھیلیاں کے علاوہ بھی ان کی تین کتابیں( چھیڑچھاڑ ، چٹکیاں اور اردو سفرنامے ) اور بھی ہیں ۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا لکھتے ہیں کہ "ڈاکٹر ذوالفقار علی وسیع المطالعہ طالب علم ہیں ۔تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں ۔کتاب" اٹکھیلیاں" ڈاکٹر ذوالفقار علی کے درخشاں ادبی مستقبل کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ سرفراز شاہد لکھتے ہیں" مزاح کی جتنی ضرورت آج ہے ،شاید پہلے کبھی نہ تھی ۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی نے "اٹکھیلیاں" میں اپنے مشاہدات و تجربات کی بنا پر زندگی کے مختلف پہلوؤں کو طنزومزاح کا نشانہ بناکر لطافت و ظرافت کا ایک بیش بہاذخیرہ فراہم کردیا ہے ۔
................
کتاب میں شامل ایک مضمون "کیا یہی پیار ہے "، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں"مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے "۔اس نے اپنے گیلے ہاتھوں سے جھاڑو پھینکتے ہوئے کہا ،میں حیران ہوا کہ آج چھیمو کو کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے بھی اپنی تمام ترمحبتوں کو آواز دے کر اس کی طرف دیکھا اور کہا میں بھی تمہیں چاہنے لگاہوں ۔اس نے یہ سنا اور ساتھ ہی زور سے آواز لگائی ۔چاچی تیرے منڈے نو میرے نال محبت ہوگئی اے ۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ادھر ماں جی پرانے جوتے کو تلاش کررہی تھیں تاکہ اسے میرے سر پہ استعمال کرسکے۔دراصل نئے جوتے کے معاملے میں وہ بہت حساس تھیں ۔میں نے بھاگنا چاہا تو وہ جھاڑوپکڑ کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی باؤ ۔ پیار تو قربانیاں مانگتا ہے تو جوتوں سے ڈر رہا ہے ۔میری تو سٹی گم ہوگئی ۔میں کیا جواب دیتا میں نے آنکھیں بند کرکے دوڑ لگا دی مگر زمین بوس ہوگیا۔دراصل چھیمو کی ٹانگ میری راہ میں حائل ہوگئی ۔بعد ازاں پتا چلانہیں کیا ہوا؟اچانک سر پر دھم کی آواز سے کوئی قہر نازل ہوا۔اس کے بعد چھک کی آواز سے کوئی بلا نازل ہوئی ۔پھر یہ سلسلہ چل نکلا ۔دھم چھک دھم چھک ۔ ذرا ہوش آیا تو پتا چلا جھاڑو اور جوتے کے حسین امتزاج سے میرے سرپر کوئی دھن بنانے کی کوشش کررہا ہے ۔میں نے کچھ عرصے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔یونیورسٹی کا ماحول بہت عجیب تھا ۔لڑکے لڑکیوں سے نوٹس لینے کے بہانے باتیں کرتے اور اگر کوئی اس کا بروقت نوٹس نہ لیتا تو بعد میں وہ نجانے کیا کرتے ۔میں نے بھی دوسروں کی طرح نوٹس کی پرواکیے بغیر ایک دن ہمت کرکے اپنی کلاس کی سب سے خوبصورت لڑکی سے نوٹس کا مطالبہ کردیا اور وعدہ کیا دو دن بعد واپس کردوں گا۔دوسرے دن شدید بارش ہوئی ۔ میں اپنے کمرے میں سویا ہوا تھا ۔گلی میں بچوں کا شور اور قہقہے موسلادار بارش کی آواز کا حصہ معلوم ہوتے تھے ۔ میں نے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو چھیمو بچوں کو کاغذ کی کشتیاں بنا بنا کر دے رہی تھی۔اچانک ایک خوف کی لہر چہرے اور بدن میں دوڑ گئی اور اپنے خدشے کی تصدیق کے لیے میں کشتیوں کو غو ر سے دیکھا تو میر اور غالب اپنے اشعار سمیت بارش کے گندے پانی پر تیررہے تھے ۔میں نے زور سے آواز دی ۔چھیمو لاپرواہی سے بولی ۔باؤ آ جا بڑا مزا آرہاہے اور وہ نیلے رنگ کی کتاب بھی لے آ۔ اس کے صفحے بڑے ملائم ہیں ،کشتیاں بہت اچھی بنیں گی ۔ میں نے چیخ کر کہا ۔چھیمو میں خود کشی کرنے لگا ہوں ۔تم نے میری زندگی تباہ کردی ہے ۔یہ کہہ کر میں نے پنکھے کے ساتھ رسی لٹکائی اور پھندا بنانے میں مصرو ف ہو گیا اچانک وہ اند ر آئی اور اس نے پنکھا چلا دیا۔ رسی میرے پاؤں میں الجھ گئی اور گھومتے ہوئے پنکھے نے میرے پاؤں کھینچے تو میں نیچے جاگرا۔ وہ زور زور سے ہنس رہی تھی اور کہہ رہی تھی باؤ گلے میں رسی ڈالتے ہیں ،پاؤں میں رسی ڈالنے سے خودکشی نہیں ہوتی ۔اس واقعے کو دو ہفتے گزرے تھے کہ ماں جی میرے پاس آئیں اورپیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرکر کہنے لگیں میرا بیٹا ماشااﷲ ایم اے میں ہوگیاہے ۔میں تیرے لیے ایک چاند سی لڑکی ڈھونڈی ہے ۔ میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹنے لگے ۔مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میری زندگی کا مقصد مجھے ملنے والا ہے ۔کتنی خواہش تھی کہ میری بھی کوئی دلہن ہوجو مجھ سے محبت کرے ،مجھے کبھی دکھ نہ دے گی، پیاری پیاری باتیں کریگی ۔ یہ اچھے اچھے خیالات میرے ذہن میں دھمال ڈالنے لگے ۔پھر خوشی سے شرماتے ہوئے میں نے ماں جی سے پوچھا ۔کون ہے وہ لڑکی ؟ ماں جی نے بڑی لاپرواہی سے جواب دیا ۔او اپنی چھیمو۔ ماشااﷲ دیکھی بھالی ہے۔ گھر کی لڑکی ہے ،سگھڑ ہے ، محبت کرنے والی ہے ۔ ماں جی کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہیں آ رہاتھا ۔چھیمو بجلی بن کر میرے اعصاب پرگرچکی تھی ۔میں نے اپنا بوریا بستراٹھایا اور اسٹیشن کی جانب بددلی سے چل دیا اور گاڑی پر سوارہو کر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا ۔گاڑی چلی تو مجھے ٹھنڈی ہوا محسوس ہونے لگی ۔ میں سوچ رہاتھا کہ نا جانے سردی زیادہ کیوں لگ رہی ہے ۔پھر معلوم ہوا کہ سرد ہوا میری کمرپر پڑرہی ہے۔گویا چھیمو نے استری کرتے ہوئے میری شرٹ کا پچھلا حصہ کا جلا ڈالا تھا۔اس لمحے میں سوچ رہاتھا کہ "کیا یہی پیار ہے -"اس مضمون نے مجھے بھی وہ گیت گنگنانے پر مجبور کردیا ہے ۔ جس کے بول تھے -:دل تیرے بن یو نہی لگتا نہیں .....وقت گزرتا نہیں ....... کیا یہی پیار ہے ۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 652780 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.